مئی 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غدار بدلتے رہتے ہیں ۔۔۔حیدر جاوید سید

بھٹو صاحب اقتدار میں تھے تو ان کے مخالفین خصوصاً منصورہ والے صالحین کے حامی اخبارات وجرائد انہیں غدار کہا کرتے تھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو ہم نے سُنا پڑھا خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، مولانا بھاشانی، عبدالولی خان ملک دشمن اور غدار ہیں۔ تب تواتر کیساتھ سرکاری ذرائع ابلاغ اور ”یکِ از مجاور نظریہ پاکستان” تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ان کی ملک دشمنی بھارت نوازی کے چٹخارے دار قصے سنایا کرتے تھے، پھر اس فہرست میں ہم نے حسین شہید سہروردی کا نام دیکھا۔

یہ چند نام بطورمثال عرض کئے ہیں، ورنہ غداران کی فہرست اتنی طویل ہے کہ حساب کرنے بیٹھیں تو خطرہ یہ ہے کہ یہ تعداد اصل آبادی سے بڑھ جائے گی۔

سال1973ء میں ہم نے بطور قلم مزدور صحافت کے کوچہ میں قدم رکھا تھا لگ بھگ 47سال اور چند ماہ ہوتے ہیں قلم مزدوری کرتے ہوئے، ان گزرے ماہ وسال میں دیکھا پڑھا سنا کہ محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار اور بھارتی ایجنٹ کہا گیا تھا۔

خوش قسمتی سے تیسرے مارشل لاء (جنرل ضیاء الحق کے دور) میں ہم بھی لگ بھگ تین سال سکہ بند غدار رہے ہیں۔ خصوصی فوجی عدالت نے غداری کے ہی ایک مقدمہ میں دو عدد پکی شہادتیں زمین بوس ہوجانے کی وجہ سے صرف تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی، یہ بس یونہی یاد آگیا تو عرض کر دیا۔

اصل بات یہ ہے کہ اس ملک میں جس میں ہم اور آپ رہ رہے ہیں غدار اور کافر بنانے کی فیکٹریوں میں کبھی مندہ نہیں آیا۔

ان فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا روزگار ہر دور میں قائم ودائم رہا۔

سیلاب ہو زلزلہ آئے، مارشل لاء ہو، جرنیلی جمہوریت، لولی لنگڑی سمجھوتہ برانڈ جمہوریت یا آر ٹی ایس برانڈ جمہوریت غدار وکافرسازی کا کاروبار ہمیشہ کی طرح پھل پھول رہا ہے۔

بھٹو صاحب اقتدار میں تھے تو ان کے مخالفین خصوصاً منصورہ والے صالحین کے حامی اخبارات وجرائد انہیں غدار کہا کرتے تھے۔

خود ہم جماعت اسلامی کو کبھی محب وطن جماعت مان کر نہیں دئیے، اب پتہ نہیں یہ بھٹو صاحب کی محبت میں ردعمل تھا یا مشرقی پاکستان میں جماعت کی عسکری تنظیموں کے کردار کی وجہ۔

محترمہ بینظیر بھٹو کو جناب نواز شریف نے سیکورٹی رسک اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا، آج کل جناب نوازشریف بھارت نوازی کے الزام کی زد میں ہیں۔

ابھی کل ہی جناب وزیراعظم نے انہیں بھارت کا تعلق دار قرار دیا۔

ہمارے محب مکرم حضرت مولانا فضل الرحمن، وزیراعظم عمران خان کو محب وطن نہیں مانتے، ان کے حامی مولانا کو جواباً جو کچھ کہتے ہیں وہ یہاں لکھنا مناسب نہیں باقی آپ خود سمجھ لیجئے۔

چند ماہ ادھر فقیرراحموں نے کہا

شاہ جی! کسی دن غدار، کافر اور ملک دشمنوں کی تعداد کا حساب نہ کر لیا جائے؟

عرض کیا!

کافروں والا معاملہ یعنی حساب تو بہت سادہ اور آسان ہے، وہ کیسے فقیر راحموں نے دریافت کیا؟

ہم نے کہا دستیاب مسلم فرقوں کی کتب اُٹھا کر دیکھ لیجئے، الحمد اللہ سب ایک دوسرے کو کافر ومشرک ہی قرار دیتے ہیں۔

باقی حساب یہ ہے کہ اس ملک میں بھارت نوازوں’ ایران وسعودیہ نوازوں’ امریکی ٹوڈیوں کی تعداد کو جمع ضرب اور تقسیم کر کے دیکھ لیجئے جو جواب ملے ہمیں بتا دیجئے گا۔

ہنس کر بولے بتا تو دوں مگر میرا شوق شہادت آرام کر رہا ہے۔

سچ یہی ہے جس طرح ہم یوں کہہ لیجئے ہمارے حکمران (کل اور آج کے) اور ان کے مخالف ایک دوسرے پر غداری کے سنگین الزامات لگاتے چلے آئے اور اب بھی لگا رہے ہیں اس حساب سے محب وطن تلاش کرنا جان جوکھم میں ڈالنے والی بات ہے۔

ایک اور مقبول طعنہ یہ ہے کہ فلاں کے بچے ملک سے باہر ہیں، اچھا اگر یہ معیار ہے کہ جس کے بچے غیرملکی شہری ہوں گے اس کی حب الوطنی مشکوک ہوگی تو پھر حساب کر لیجئے، اس فتوے کی زد میں کون کون آئے گا۔ مجھے معلوم ہے آپ بھی میری طرح حساب کا جھنجھٹ نہیں پالیں گے، کیوں؟

اس کی وجہ ہم سب جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر جناب عمران خان کے دونوں بیٹھے برطانیہ کے شہری ہیں اور اپنی والدہ کے پاس مقیم ہیں لیکن میرے نزدیک یہ کوئی طعنہ ہرگز نہیں، وہ تقسیم شدہ خاندان کا حصہ ہیں۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ غدار کافرسازی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

یہ ہم سب کا ملک ہے بائیس کروڑ لوگوں کا، ہم میں کج ہوسکتے ہیں، کمی بیشی بھی، مسائل اور حالات کی بنیاد پر لہجوں میں تلخی بھی درآتی ہے مگر یہ تلخی یا کسی فرد، جماعت اور محکمے کی پالیسیوں سے فہمی اختلاف حب الوطنی پر آسمان نہیں گرا دیتا۔

سیاسی اختلافات میں غدار وکافر کی پھبتی، عدم برداشت مکالمہ کی جگہ نفرت بھرے الزامات یہ سب پہلے درست تھا نہ اب ہے۔

کسی کے نظریات یا انداز سیاست وحکمرانی سے اختلافات کوئی برائی ہرگز نہیں، معاشرے انہی کیساتھ آگے بڑھتے ہیں۔

یہ برصغیر پاک وہند کی دنیا دیگر دنیاؤں سے یکسر الگ تھلگ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت کچھ دوسری دنیا سے مختلف ہے، ہمارے اہل دانش کو تحقیق کرنی چاہئے کہ آخر ہمارے یہاں کج بحثی، بھونڈی الزام تراشی، غداری اور کفر کے دھندے کیوں کامیاب رہتے ہیں؟

بہت احترام کیساتھ عرض ہے کہ غدار وکافرکافر کھیلنے کی انفرادی واجتماعی سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں حکومت اور تحریک انصاف کے متولیان جن باتوں کی وجہ سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں بھارت نواز اور اداروں کا دشمن قرار دے رہے ہیں اس سے زیادہ تند وتلخ اور سخت باتیں جناب عمران خان ماضی میں کرتے رہے ہیں، تب جو لوگ عمران خان کی باتوں پر تالیاں پیٹ پیٹ کر نڈھال ہو جاتے تھے اب انہیں نوازشریف کی باتیں مودی کا ایجنڈا لگتی ہیں۔

ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں، ”شاہ جی! اس ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت سچ صرف زمانہ حزب اختلاف میں بولتی ہے”۔

یہ بات غلط بھی نہیں بہرطور مکرر درمکرر عرض ہے کہ غداری اور کفر کے فتوے اُچھالنے کی بجائے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیجئے، مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، ان مسائل کی وجہ سے کسی دن لوگوں کی قوت برداشت جواب دے گئی تو جو لاوا پھٹے گا وہ سب کچھ بہا لے جائے گا۔

%d bloggers like this: