دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اکتوبر کا مہینہ کس کس پر بھاری! ۔۔۔ نصرت جاوید

اپنی دانست میں ایک ’’مجرب نسخہ‘‘ مفت فراہم کرنے کے بعد میں ایک اور تناظر میں ہوئے حیران کن واقعہ کو بیان کرنے کے لئے مجبور محسوس کررہا ہوں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ربّ کا صد بار شکر۔ دو سال ہوگئے۔ اپنے کمرے میں لگے ٹی وی کو آن ہی نہیں کرتا اگرچہ گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد اس کے ذریعے ہمارے اِردگرد جو ہورہا ہے اس کے بارے میں تھوڑی بہت آگہی نصیب ہوسکتی ہے۔ موبائل فون اس ضمن میں تاہم تازہ ترین سے باخبر رکھتا ہے اور ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے دریافت ہورہا ہے کہ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف ہمارے ازلی دشمن بھارت کے سہولت کار بن چکے ہیں۔ نریندرمودی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ جندل نام کا ایک سیٹھ بھی ہے جو پاسپورٹ پر ویزا لگوائے بغیر سابق وزیر اعظم سے سازشی ملاقاتیں کرنے پاکستان آتا رہا ہے۔ ہفتے کی صبح سے وزیر اعظم کے بہت ہی متحرک معاون خصوصی جناب شہباز گِل صاحب نے اس حوالے سے ہمیں معلومات فراہم کرنے کا آغاز کیا۔ بعدازاں راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے بھی اس ضمن میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ اسی شہر سے فیاض چوہان بھی نواز شریف اور ان کے حامیوں کو جارحانہ تنقید کی زد میں رکھے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہونے کے بعد احتساب عدالت سے سزا یافتہ ہوئے نواز شریف کے بارے میں اگرچہ یہ معلومات ’’انکشاف‘‘ والی سنسنی خیزی کی حامل نہیں۔ نیپال میں سارک کانفرنس کے دوران مودی سے خفیہ ملاقات کی خبر آج سے کئی برس قبل بھارت کی معروف صحافی برکھادت نے بریک کی تھی۔ مودی کی کابل سے ’’اچانک‘‘ جاتی امراء آمداور جندل سے مری میں ہوئی ملاقات بھی پرانی ’’خبر‘‘ ہیں۔ جن کا زور و شور سے تذکرہ ان دنوں بھی جاری رہا جب نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جولائی 2018 کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد تحریک انصاف مذکورہ ملاقاتوں پر مبنی معلومات کے حوالے سے نواز شریف کے خلاف غداری کے مقدمات چلاتیں۔ انہیں مگر جیل سے اٹھا کر علاج کروانے لندن بھیج دیا گیا۔ موصوف وہاں پہنچنے کے بعد آٹھ ماہ تک خاموش رہے۔ 20 ستمبر کے دن سے مگر روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا کو اپنے ’’تخریبی‘‘ خیالات کے اظہار کے لئے استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کے ذریعے ان کی ’’بھارت نوازی‘‘ کی داستانیں ما بعد اے پی سی ماحول میں کارآمد نظر نہیں آرہیں۔

تحریک انصاف 2011 سے روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے اپنا بیانیہ لوگوں تک پہنچانے میں حیران کن حد تک کامیاب رہی ہے۔ اس کی مہارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیرت ہورہی ہے کہ نواز شریف کی ’’بھارت نوازی‘‘ کو بے نقاب کرنے پرانی کہانیاں پرانے چہروں کی زبانی ہی کیوں بیان ہورہی ہیں ۔ عمران حکومت مجھ جیسے صحافیوں کو لفٹ نہیں کرواتی۔ ہم دو ٹکے کے رپورٹروں کو ’’لفافے‘‘ بھی نہیں دئیے جاتے۔  میڈیا کے ذریعے بیانیے کا فروغ مگر ایک پیچیدہ ہنر ہے۔اس ہنر کی تھوڑی پہچان رکھتے ہوئے میری تحریک انصاف سے دست بستہ التجا ہے کہ شہبازگِل صاحب کے ذریعے نواز شریف کی ’’بھارت نوازی‘‘ کی داستانیں دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں مؤثر ترین کردار مثال کے طورپر 1985 سے شریف خاندان کے بہت قریب رہے چودھری نثار علی خان ادا کرسکتے ہیں۔نواز شریف کی تیسری حکومت میں وہ بہت طاقت ور وزیر داخلہ بھی رہے ہیں۔ چکری کے راجپوت اپنے DNAکی وجہ سے ’’مارشل ریس‘‘بھی شمار ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب کے ایچی سن کالج کے دنوں میں جگری یار بھی رہے۔ مناسب یہ ہوگا کہ ان سے رجوع کیا جائے ۔ وہ اگر ’’ذاتی معلومات‘‘ کی بنیاد پر نواز شریف کو ’’بھارت نواز‘‘ ثابت کرنے کے لئے کوئی دھواں دھار پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کو آمادہ ہوگئے تو رونق لگ جائے گی۔ خلقِ خدا کی مؤثر تعداد سنجیدگی سے نواز شریف کی حب الوطنی کی بابت سوال اٹھانے کو مجبور ہوجائے گی۔ فقط شہباز گِل اور فیاض چوہان کے ذریعے دہرائی داستانیں اس ضمن میں مطلوب نتائج فراہم نہیں کرسکتیں۔ چودھری نثار علی خان صاحب بول اُٹھے تو نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے چند نمایاں اراکین پارلیمان بھی سابق وزیر اعظم سے دوری کا اعلان کرنے کی جرأت دکھاپائیں گے۔  ’’اداروں‘‘ کی حرمت کو توانا رکھنا یقینی ہوجائے گا۔

اپنی دانست میں ایک ’’مجرب نسخہ‘‘ مفت فراہم کرنے کے بعد میں ایک اور تناظر میں ہوئے حیران کن واقعہ کو بیان کرنے کے لئے مجبور محسوس کررہا ہوں۔

ساری عمر توہم پرستی سے محفوظ رہا۔ اقبالؔ کے ’’ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا‘‘ والے پیغام پر شدت سے کاربند رہا۔ آج سے چند ہفتے قبل مگر امریکہ میں مقیم ایک محقق ’’علی الالومی‘‘ نے مجھے اس برس کے دسمبر میں متوقع زحل کے جانے کس سیارے سے ملاپ کی بابت متنبہ کیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ ایسا ملاپ دنیا بھر میں حیران کن تبدیلیاں لاتا ہے۔ ہر شے اتھل پتھل ہوجاتی ہے۔

اس کے دکھائے راستے پر چلتے ہوئے گھر میں فارغ بیٹھا میں گزشتہ چند ہفتوں سے کئی گھنٹے یوٹیوب کے ذریعے نجومیوں کے خیالات سننے میں خرچ کرنا شروع ہوگیا۔ اس ضمن میں میرا پسندیدہ نجومی Steve Judd ثابت ہورہا ہے۔ سکرین پر اس کی صورت بہت کرشماتی نظر آتی ہے۔ خالص برطانوی انگریزی پراس کی کمانڈ میرا دل موہ لیتی ہے۔

30 ستمبر 2020 کو برطانوی وقت کے مطابق دن کے گیارہ بجے اس نے ایک ویڈیو ریکارڈ کیا۔ مقصد اس کا دنیا کو بتانا تھا کہ 2020 کا اکتوبر دنیا بھر میں خلفشار ہیجان برپا کرے گا۔ اس مہینے میں چاند نے ایک نہیں تین بار کئی جلوے دکھانا ہیں۔ نیا چاند،پورا چاند اور پھر نیا چاند چند بروج میں نمودار ہونے کے بعد کیا قیامت برپا کرے گا میں علم نجوم کی اصطلاحات سے لاعلم ہونے کی بنا پر اسے کماحقہ انداز میں سمجھ نہیں پایا۔

Steve Judd نے اس ویڈیو میں بہت حقارت اور رعونت سے اعتراف یہ بھی کیاکہ سوشل میڈیا پر اس کا بہت تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ 2018 میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ برطانیہ کا بورس جانسن اور امریکہ کا ٹرمپ اپنے عہدوں کی آئینی مدت مکمل نہیں کر پائیں گے۔برطانوی وزیر اعظم کو اپنا منصب سنبھالے اگرچہ ایک سال بھی نہیں ہوا۔ امریکی صدر ٹرمپ لیکن وائٹ ہائوس میں اپنے چار سال مکمل کرنے ہی والا ہے۔ 3نومبر 2020کے دن بلکہ مزید چار سال حاصل کرنے کی تیار کررہا ہے۔ خود پر ہوئی تنقید کا بہت ڈرامائی انداز میں ذکر کرتے ہوئے Steve Judd نے مگر کمال اعتماد سے بڑھک لگائی کہ وہ اب بھی اپنے اس دعویٰ پر ڈٹا ہوا ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں چارسال مکمل نہیں کر پائے گا۔ کئی ستاروں کا ذکر کرتے ہوئے وہ اصرار کرتا رہا کہ امریکی صدر کو اپنی صحت کے حوالے سے ناگہانی صورتحال کا سامنا درپیش ہوگا۔ آپس کی بات ہے کہ مجھے اس کے رعونت بھرے اعتماد نے غصہ دلایا۔ اپنی یہ سوچ قطعی درست محسوس ہوئی کہ نجومی بے بنیاد یاوہ گوئی میں مصروف رہتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کے دن مگر خبر آگئی کہ ٹرمپ کرونا کی زد میں آگیا ہے۔وائٹ ہائوس سے خصوصی طیارے میں اسے ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں لوگ پریشانی سے ٹیوے لگارہے ہیں کہ وہ جانبر ہوپائے گا یا نہیں۔

امریکی تاریخ میں آندھی آئے یاطوفان صدارتی انتخاب ہمیشہ نومبر کے پہلے منگل کے روز منعقد ہوتے رہے ہیں۔سوال اٹھ رہا ہے کہ برسوں سے قائم یہ روایت اب برقرار رہ پائے گی یا نہیں۔ شہباز گِل اور فیاض چوہان کی تکرار سے اُکتایا میرا ذہن بے چین ہورہا ہے کہ Steve Judd سے کسی صورت رابطہ کروں۔ اپنی عقل کو استعمال کرنے کے بجائے اس سے معلوم کروں کہ اکتوبر کے ستارے پاکستان کے بارے میں کیا بتارہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author