گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گومل یونیورسٹی کے وائیس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد بڑی مثبت انقلابی سوچ کے مالک ہیں اور بڑے تھوڑے عرصے میں گومل یونیورسٹی کے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔پرسوں انہوں نے وینسم کالج کے طلباء اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کی کہ گومل یونیورسٹی محدود مالی وسائل کے باوجود وینسم کالج کو ضروری فنڈ فراہم کر رہی ہے اور اگر یہ ادارہ تعلیمی حالت بہتر بنا کر صوبے کا نمبر ایک ادارہ نہیں بنتا تو اس کالج کو یونیورسٹی کے خواتین کیمپس میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
وائیس چانسلر نے کہا اگر ضرورت پڑی تو وہ خود طلباء کو یہاں پڑھانے کے لیے آئینگے اور اساتذہ بھی پوری تیاری اور دلجمعی سے پڑھانے پر توجہ دیں۔ ڈاکٹر افتخار احمد نے کالج میں سگریٹ سمیت ہر قسم کے نشے پر مکمل پابندی لگا دی جو احسن اقدام ہے ۔
ڈاکٹر افتخار احمد کے خطاب سے مجھے چالیس سال پرانا سابق وائس چانسلر گومل یونیورسٹی عبدالعلی خان مرحوم کا وینسم کالج کا خطاب یاد آ گیا جو انہوں نے گورنمنٹ جامع ہائی سکول کو گومل یونیورسٹی میں شامل کرنے کے موقع پر اساتذہ اور طلباء سے کیا تھا۔
ہوا یوں تھا کہ وینسم کالج دراصل صوبائی محکمہ تعلیم کا گورنمنٹ کمپرہینسیو ہائی سکول تھا اور تعلیمی کارکردگی میں صوبے کا نمبر ایک سکول تھا جس کو قابل ترین اساتذہ نے بام عروج تک پہنچا دیا تھا۔ گومل یونیورسٹی کو قائم ہوئے ابھی چھ سال ہوئے تھے اور نیو کیمپس کی عمارات زیر تعمیر تھیں۔
عبدالعلی خان جب اس سکول کے سامنے سے گزرتے تو اس سکول کی شاندار عمارت اور وسیع و عریض لان اور چمن ان کو بہت دلکش لگتے چنانچہ انہوں سے اس سکول کو جون 1980ء میں یونیورسٹی میں شامل کرنے کا پروگرام بنایا اور حکومت سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے وینسم کالج بنانے کی منظوری لے لی۔ یہاں کے زیر تعلیم طلباء کو جب پتہ چلا تو وہ مشتعل ہو گیے جلوس نکالا اور یونیورسٹی کی بسوں پر پتھراو کیا۔
وی سی عبدالعلی خان غصے میں آ گیے اور یہ تصور کر لیا کہ طلباء کو یونیورسٹی کے خلاف جامع سکول کے سٹاف نے اکسایا ہے۔ علی خان نے اساتذہ کو اسی وینسم کالج ہال میں جمع کیا اور اساتذہ کو دھمکیاں دیں کہ وہ اس کام سے باز رہیں۔ سکول کے ایک ممتاز ٹیچر محترم ریاض انجم صاحب نے اس میٹنگ میں عبدالعلی خان کو کہا کہ یونیورسٹی ایک بنے بنائے بہترین تعلیمی ادارے کو کیوں یونیورسٹی میں شامل کرنا چاہتی ہے؟
جس کا کوئی جواب نہ دیا محترم ریاض انجم نے پھر پوچھا کہ آپ اس لیے جامع سکول کو یونیورسٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں کہ اس خوبصورت ڈسپلنڈ تعلیمی ادارے کی بلڈنگ میں آپ کے لیے کشش ہے ؟ تو علی خان نے کہا کہ ہاں بالکل یہی بات یے۔ بہر حال وہ سٹاف کو الزام دیتے رہے تو جامع ہائی سکول کے اس وقت کے پرنسپل اسلم خان قصوریہ نے کھڑے ہو کر وی سی عبدالعلی کو ایک سخت بات کہ دی ۔
اسلم خان قصوریہ نے عبدالعلی خان کو کہا کہ جب سابق گورنر حیات محمد خان شیرپاٶ پشاور یونیورسٹی ایک بم دھماکے میں شھید ہوئے تو آپ پشاور یونیورسٹی کے وائیس چانسلر تھے اگر آپ اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو میں طلباء کو یونیورسٹی کے خلاف اکسانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ اس طرح تلخیوں پر میٹنگ ختم ہوگئی۔
موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار احمد بہت عمدہ خیالات کی شخصیت ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ وینسم کالج اب یونیورسٹی پر ایک مالی بوجھ بن چکا ہے سٹاف کی پنشن کے مسائل ہیں اور اس کی کارکردگی پر بھی سوال ہیں۔
گومل یونیورسٹی کے پاس اب نیا کیمپس ہے اور عمارتوں کی کمی نہیں اس لیے وینسم کالج کو دوبارہ تاریخی گورنمنٹ جامع ہائیر سیکنڈری سکول کا درجہ دیکر واپس صوبائی محکمہ تعلیم کے حوالے کیا جائے۔ یہاں کے غریب لوگوں پر یہ ان کا احسان عظیم ہو گا۔
پنجاب میں اس دور کے بنے ہوئے جامع ہائی سکول اب بھی کام کر رہے ہیں۔ ڈیرہ کے عوامی نمائندے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ ہم ایک اور اعلی تعلیمی ادارے سے محروم ہو جائیں گے۔ آجکل گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر ایک میں بھی بی ایس کلاسز چلا کر فرسٹ ایر کلاسز ختم کرنے کا پروگرام ہے ۔
یہ سمجھ نہیں آتی کہ ڈگری کالج نمبر ایک کو انٹرمیڈیٹ کلاسوں سے نفرت کیوں ہے جبکہ آس پاس کوئی ہائیر سیکنڈری سکول بھی موجود نہیں۔ جب انٹرمیڈیٹ کلاسیں بند ہونگی تو انجنیرز۔ ڈاکٹرز۔بی ایس پروگرام میں داخلے کے لیے طلباء آسمان سے آئینگے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ