نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزا آگیا۔ دلِ مضطرب کو معلوم ہی کہاں تھا کہ ہمارے ہاں جمہوریت اِس قدر منظم اور مستحکم ہے۔ اس دلِ ناداں کی وزیراعظم نے آنکھیں کھول دیں، یہ ہوتا ہے لیڈر۔ یہ ہوتا ہے وژن۔ اور اسے کہتے ہیں جمہوریت! دل کے سب در وزیراعظم کے تخیلات اور نظریات کیلئے وا ہو گئے۔ لگتا ہے اِس سے قبل وزیراعظم کو چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح۔ مگر یہ چاہت بھی عجیب مظہر ہے جہاں بڑی دلکش ہوتی ہے وہاں بڑی بےنیاز بھی۔ خیر، اب تو کھلا یہ راز کہ:
محبتیں بھی عجب اس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اک شخص
وزیراعظم نے کیا خوبصورت کہا ’اگر جمہوریت نقصان پہنچا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی جگہ مارشل لا آ جائے بلکہ اس کا مطلب جمہوریت کو ٹھیک کرنا ہے‘۔
آب زر سے لکھنے کے قابل اس بات پر فدا ہونے کی تمنا ہونا فطری بات ہے۔ اس عزم میں مزاحت ہی نہیں مزاحمت و مفاہمت بھی ہے، سب رنگ اور ساری خوشنمائی اِس چیز کا عکس ہے کہ جمہوری بنیاد اور جمہوری فلک بوسی مکالمے سے آگے بڑھتی ہے۔
مکالمہ صرف کیبنٹ کی گفت و شنید ہی کا نام نہیں، اپوزیشن سے ہم کلام ہونے کا بھی نام ہے۔ مکالمہ کسی احتساب کیلئے قدغن نہیں بنتا بلکہ باہمی احتساب اور خود احتسابی کے دریچے کھولتا ہے، سہ جہتی دریچوں کے کھلنے کا نام اور اقدام ہی جمہوری دلکشی ہے۔
اپوزیشن بھی عوامی مینڈیٹ ہوتا ہے، گویا مینڈیٹ گر مینڈیٹ کا احترام نہیں کرے گا تو ہم جیسے سیدھے سادے لوگ مینڈیٹ کا احترام اور جمہوری وزیراعظم کی طاقت اور تقدس کا سبق سیکھیں گے کس سے؟
شکایات و سیاسیات کے زاویوں سے وزیراعظم بولے ’نواز شریف باہر کے لوگوں سے باقاعدہ مل رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف سازش کر رہے ہیں، ہم ان کو واپس بلا رہے ہیں‘۔
ہمیں نہیں معلوم کہ میاں صاحب کو باہر بھیجا کس نے مگر اتنا جانتے ہیں، جیل سے سیدھا لندن انسان کو اکیلے بیماری بھجواتی ہے نہ جیلر۔ یہ دونوں ہاتھوں سے بجی وہ تالی ہے جس کی آواز کو نون لیگ اپنا رنگ دیتی ہے اور حکومت اپنا ترجمہ لیکن وزیر صحت پنجاب میاں صاحب کی بیماری کو مرض ہی گردانتی ہیں۔ اور یہ مرض زندان خانہ میں حکومت پر شدت سے حملہ آور تھی تاہم لندن بھجوانے کے بعد حکومت اسی مرض کو سیاسی مذاق کے طور سے پیش کرتی ہے۔
مرض نہ ہوا، متضاد اور مترادف سیاسی بیانیے ہوں جیسے۔ ویسے تو ایک مرض وہ بھی ہے جو ذہن میں گھر کر لے تو مریض کی زبان پر سیاسی اثرات اور تفہیمات غالب رہتے ہیں۔ بہرحال خواص و عوام میاں نواز شریف کو ان کی اے پی سی والی تقریر کے بعد ساحل سمندر کے پڑوس والے ایک سابق لیڈر کے استعارے اور تشبیہ سے نواز رہے تھے۔ پھر کچھ ایسا ہی وزیراعظم کے تاثرات میں بھی لگا۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔
سابق وزیراعظم کی ابتدا آج کے وزیراعظم ہی سے سہی، بہرحال بعد ازاں وہ وفاق اور سیاسیات کی علامت اور تین دفعہ وزیراعظم بنے، کچھ کامیاب تجربے کئے، تجربے ہوں تو کچھ ناکام بھی ہوتے ہیں کیونکہ بعض اوقات تجربہ کے عناصر کی نسبت تجربہ گاہ کا فیکٹر زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔
وزیراعظم کے جن فرمودات کا ذکرِ خیر ہم کررہے ہیں، یہ وہ ہیں جو ایک حالیہ انٹرویو میں سامنے آئے۔ مجھے وزیراعظم کی یہ خوبی بہت اچھی لگتی ہے کہ وہ وزیراعظم ہو کر بھی نہیں بدلے، تقریر ہو کہ انٹرویو لب و لہجہ اپوزیشن لیڈر ہی کا ہوتا ہے۔ لگتا ہے اپوزیشن لیڈر اپنی ہی وزارت عظمیٰ سے کوئی مطالبہ کررہا ہو شاید۔ کچھ باتیں وزیراعظم نے ایسی جمہوریت بخش کیں کہ ان باتوں پر تبصرہ اپنے بس ہی میں نہیں۔
کہتے ہیں، ’اگر میرے پوچھے بغیر کوئی آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا تو میں اسے فارغ کرتا‘۔ پھر ایک نہایت مناسب اور جاندار بات وزیراعظم نے یہ بھی کی کہ نواز شریف سے جب کسی جنرل سےاستعفیٰ مانگا تو انہوں نے اس سے استعفیٰ کیوں نہ لے لیا وہ تو وزیراعظم تھے۔
عزت مآب وزیراعظم کی یہ بات قابلِ ستائش ہے لیکن ایک معصومانہ سوال ہے کہ: کیا ایسا ممکن ہے؟ کارگل زدہ سوال اس لئے نہیں پوچھیں گے کہ ہمیں یقین ہے جو وزیراعظم نے کہا ہے وہ حرف بہ حرف سچ ہے۔ ویسے بھی ایسے سوال ذہن میں لانے سے کہیں دماغ ملک دشمن عناصر کی صف میں نہ کھڑا ہو جائے۔
وزیراعظم کے افکار محترم لگے اور محسوس ہوا کہ میثاق جمہوریت اور 18ویں ترمیم جیسے امورِ ملت کیلئے بناؤ کے سنہری اقدامات تھے، کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ جناب نے بتایا کہ شریف خاندان کیا تھا اور کیسے بنا، معلومات میں اضافے کا شکریہ۔ تین چار دہائیوں سے سیاست کو دیکھنے والے اس سے آشنا ہیں کہ نظریۂ ضرورت کیا ہوتا ہے اور ملکوں کا دولخت ہونا کیا ہے؟
یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اب کے بارایکوسسٹم میں بڑے صوبے ہی سے دو لیڈر حکومت اور اپوزیشن میں ہیں اور بڑوں کی مزاحمتیں بھی بڑی ہوتی ہیں پس کیوں نہ ماضی کے چھوٹے کاموں میں الجھنے کے بجائے آئندہ کام بڑے کئے جائیں، کوئی جوہری توانائی سا بڑا کام، میزائل سازی کی سی کوئی بڑی پیش رفت، سی پیک سا معرکہ، این ایف سی ایوارڈ جیسے فہم کا نیا جنم، کوئی ایران پاکستان گیس معاہدہ، کوئی تر و تازہ نیلم جہلم سا پروجیکٹ، کسی موٹروے کا نیا ورژن، کوئی کرکٹ و ہاکی ورلڈ کپ کے دوبارہ حصول کی سعی۔
آپ کی تاریخی سب باتیں مان لیں اب عملاً کچھ تو نیا بھی جو افسانہ نہ لگے۔ یہ سب تو بدعنوانوں نے کر دکھایا۔ جن میں سے کچھ کی آپ ماضی میں تعریف بھی کرتے تھے۔
بات اور ثقیل نہ ہو جائے پس عبید اللہ علیم کا ایک شعر جس کا کالم سے کوئی تعلق نہیں:
تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اک شخص
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ