نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نناوے فیصد غیر سیاسی۔۔۔ حیدر جاوید سید

ہر وقت (زمانے) کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اپنے کھیل اور مصروفیات، اب کیا ہے عوارض (بیماریاں) ہیں، ہر شخص کسی ناکسی بیماری میں مبتلا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ پوچھیں تو ان دنوں جی چاہتا ہے کہ سفر حیات کے63میں سے کم وبیش55برسوں کی یادوں کی گٹھٹری کھولوں اور آپ کو گزرے ماہ وسال کے قصے سناوں۔
ان ماہ وسال کے جب ہمارے یہاں مروت، اخلاق، ایثار اور برداشت کا دور دورہ تھا، لوگ ایک دوسرے کی بات توجہ سے سنتے تھے،دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔
اُن دنوں میں یہ بھی ہوتا تھا کہ گلی نہیں بلکہ محلہ کے کسی گھر میں شادی بیاہ کی تقریبات سے رونق لگی ہوتی اور اسی محلہ سے کسی کے سانحہ ارتحال کی خبر ملتی تو باقی کی تقریبات سادگی میں بدل جاتیں۔
بینڈ باجے بند اور ویر گھوڑی چڑھیا والاگانا دل ہی دل میں دہراتی تھیں بہنیں،
سانحہ ارتحال کی خبر کا تعلق اگر گلی سے ہوتا تو عمومی طور پر شادی چند دنوں کیلئے ملتوی کر دی جاتی تھی۔

ہمارے اپنے عزیز واقارب میں دو تین شادیاں چند دنوں کیلئے ملتوی ہوئیں اور وجہ پاس پڑوس میں ہونے والی مرگ تھی۔
مرنے والے سے صرف انسانیت اور گلی کا رشتہ تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ملتان میں ہمارے آبائی محلہ
”اسحاق پورہ چوک خونی برج” کی ابتدائی تین چار گلیوں کے بچے ہمارے والد صاحب کو شاہ جی ماموں کہتے تھے، وہ سڑک سے جیسے گلی میں داخل ہوتے گلی اور محلے کے میدان میں کھیلتے بچے ”ماموں شاہ جی آگین” کا نعرہ بلند کرتے اور گھروں کو بھاگ جاتے۔
یہ بچے وہی بچوں والے کھیل ہی کھیل رہے ہوتے تھے جو ان دنوں معروف تھے مثلاً پیٹوگرم، میدان کے وسط میں چند ٹھکریاں اوپر نیچے رکھ کر ان پر گیند سے نشانہ باندھا جاتا۔
اخروٹ کا کھیل ہوتا یا پھر کوکلا چھپاکی جمعرات آئی جس میں بچے ایک گول دائرے میں بیٹھتے اور ایک بچہ ان کے گرد یہ الاپتا ہوا چکر لگاتا، سرجھکا کر بیٹھے بچوں میں سے کسی نے ذرا سا سانس لیا شامت آگئی۔
چوتھی جماعت میں ہی میں ملتان سے کراچی کے علاقے محمود آباد منتقل ہوگیا، وہاں کی گلیوں میں ملتانی بچوں کے کھیلوں سے ملتے جلتے ایک دو کھیل تھے، کچھ نئے بھی۔
ہم نے اپنے بچپن میں یہ سارے کھیل دیکھے ضرور مگر ان میں شرکت کی حسرت ہی رہی۔
ملتان میں اپنے محلے کی گلیوں میں اس لئے نہ کھیل سکے کہ لوگ کیا کہیں گے بی بی جی
(سبھی چھوٹے بڑے ہماری والدہ کو سید زادی اور عالمہ ہونے کی وجہ سے بی بی جی ہی کہتے تھے) اور ماموں شاہ جی کا بیٹا گلی میں کھیل رہا ہے۔
کراچی میں محمود آباد کی گلیوں میں کھیلنے کیلئے وقت نہ ملا کیونکہ صبح سکول جاتے تھے، پھر شام کے اوقات میں محنت مزدوری (خوانچہ لگاتے تھے)
آپا مرحومہ کو بھی گلی میں کھیلنے سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ ہم نصابی کتب کے علاوہ ان کی بتائی ہوئی کتابیں پڑھیں یا کسی کتاب کے وہ حصے جن پر انہوں نے نشان لگا دئیے ہوتے۔
آپا کی لائبریری سے کرایہ پر رسالے، کتب، عمران سیریز اور ناول وغیرہ لینے والوں کے بارے میں ایک ہدایت نامہ موجود تھا، مثلاً سکول جانے والے بچے اور بچیاں صرف بچوں کے رسالے، تعلیم وتربیت، نونہال، آداب عرض وغیرہ ہی کرایہ پر لے سکتے تھے۔
بڑی عمر کے لوگ دیگر کتب اور جاسوسی ناول کرایہ پر لیتے، کچھ لوگ اس وقت کے معروف ڈائجسٹوں کے طلبگار بھی ہوتے۔
نسیم حجازی کے ناولوں کی بڑی مانگ تھی لیکن آپا کہتی تھیں
”بچوں کو مسخرہ بنانے میں ہم اپنا حصہ کیوں ڈالیں، تاریخ کے نام پر جھوٹ ہی جھوٹ ہے”
کچھ بڑے ہوئے یعنی میٹرک میں پہنچے تو آپا جان کی بات سمجھ میں آگئی۔
تحریر نویس کو احساس ہے کہ اولاً تو تمہید بہت طویل ہوگئی اور ثانیاً یہ کہ اب تک لکھی گئی سطور کا عصری سیاست کے چٹ پٹے موضوعات سے کوئی تعلق نہیں۔

دوتین موضوعات سامنے ہیں، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا اپنی جماعت کی مجلس عاملہ سے ویڈیولنک کے ذریعے خطاب، سچ پوچھیں تو دھواں دھار خطاب، خواجہ محمد آصف ابن خواجہ محمد صفدر مرحوم کا آصف علی زرداری کے حوالے سے کیا گیا اظہار خیال، مہنگائی کا نیا ہتھوڑا گروپ چلنے سے سنائی دیتی چیخ وپکار،
ان سب کے باوجود ہم نے 1960 اور 1970کی دہائی کی یادیں تازہ کیں، وجہ یہی ہے کہ اب ہمارے چار اور وہ سب کچھ نہیں ہوتا۔
بچوں کے کھیل بدل گئے، کرایہ پر کتب دینے والی لائبریریوں کی جگہ دودھ دہی اور دیگر اشیاء کی دکانیں کھل چکیں، کتاب بینی مشکل سے پانچ سات فیصد ہے، بائیس تئیس کروڑ کی آبادی میں پانچ سات فیصد کتب بینی ہے اور مشکل سے دس فیصد لوگ اخبارات پڑھتے ہیں، ان میں سے

ہر وقت (زمانے) کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اپنے کھیل اور مصروفیات، اب کیا ہے عوارض (بیماریاں) ہیں، ہر شخص کسی ناکسی بیماری میں مبتلا ہے۔
گلی محلوں کی رونقوں کو نیٹ نے نگل لیا، پاس پڑوس کے حوالے سے وہ احساسات اور جذبے نہیں رہے جو نصف صدی قبل ہوا کرتے تھے،
اب تو سیاسی اختلافات بھی ذاتی دشمنی کی طرح کی ایک قسم ہیں۔
عدم برداشت کا سورج سوا نیزے پر ہے، مہنگائی نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے،
ابھی کل ہی وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی کی فی یونٹ قیمت ایک روپے تیس پیسے بڑھا دی ہے، گیس کی قیمت میں 25فیصد اضافے کی منظوری کیساتھ گیس میٹر کا کرایہ20روپے سے 40روپے ماہانہ کردیا ہے۔
یوٹیلیٹی سٹور پر گھی مزید 33روپے اور کوکنگ آئل 20روپے کلو مہنگا کر دیا گیا ہے۔
معاشرے کے عام طبقات جس بدحالی کا شکار ہیں وہ وہی جانتے ہیں، تبدیلی کی قربان گاہ پر نچلے طبقات کی بلی چڑھائی جارہی ہے۔
سیاست میں الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں رکھا، آپ حکومت کی توجہ کسی مسئلہ پر دلائیں یا کسی معاملے پر تنقید کریں منہ پھاڑ کر گالیاں دینے والا لشکر دندناتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔
کاش ہمارے حکمران اہل دانش اور زعمائے ملت وقت نکال کر اس نفسا نفسی، عدم برداشت، علم دشمنی اور دوسرے مسائل کا حل تلاش کر سکیں،
نیلے آسمان کے نیچے بائیس تئیس کروڑ کی آبادی میں سے کوئی ہے جو جا کر اہل اقتدارکو بتائے۔
حضور! بس زندہ رہنے کا حق دے دیجئے لوگوں پر برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے گریز کیجئے۔
کاش کوئی جا کر کہہ دے۔

About The Author