گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے میں میڈیا کا جو بنیادی کردار تھا وہ اب تقریبا” ختم ہو چکا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہوئی جب ہمارے ملک میں اخبارات اور ریڈیو ٹی وی محدود تعداد میں تھے تو ہم سوچ رہے تھے کہ کبھی ان کی تعداد زیادہ ہوگی تو معاشرے میں بہت عمدہ مثبت تبدیلیاں رونما ہونگی۔اس خوش فہمی کی وجہ یہ تھی کہ ہم مغربی ملکوں کے میڈیا کو دیکھتے جو بڑا اہم کردار ادا کر رہا تھا تو ہم یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ میڈیا کی آذادی کے بعد ایسا کچھ ہمارے معاشرے میں ہونے جا رہا ہے۔
ملک میں سب سے پہلے اخبارات کے چھاپنے پر پابندی نرم کی گئی اور ملک کے طول و عرض میں لا تعداد مقامی سطح کے اخبارات اچانک سیلاب کی طرح پھیلنے لگے۔ ایک ایک شھر میں سو سو سے زیادہ اخبارات کے ڈیکلیریشن حاصل کر لیے گیے۔ مزے کی بات یہ ہے اخبارات چھاپنے کے لیے کوئی تعلیم کا معیار یا تجربے کی ضرورت نہیں تھی۔
بس آپ نے درخواست دی اور جھٹ منظوری لے کر میدان میں کود پڑے۔ ان اخبارات کے مدیروں کے پاس نہ تو کوئی مقصد تھا نہ معاشرے کا سدھار۔ اخبارات کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس کے مالک کو حکومت کے اعلی عہدے داروں تک رسائی حاصل ہو کچھ ناجایز مراعات حاصل کرے اور معاشرے میں وہ ایک معزز انسان کہلاے۔ اس کھینچا تانی میں ایک شھر کے درجنوں اخبارات کے پاس خبریں حاصل کرنے کے ذرائع نہیں تھے نہ ہی کوالیفائیڈ سٹاف ۔۔بس جو مفت میں کام کرنے ساتھ چل پڑا جی بسم اللہ ۔۔
کسی جگہ سے ان نو وارد حضرات کو پتہ چلا کہ معاشرے کا سدھار گند اچھالنے میں ہے چنانچہ گندگی کے مین ہول کے ڈھکن کھول دیے گیے اور وہ دھول اڑائی گئی کہ شاید ملک کے اندر گندگی کا سیلاب امنڈ پڑا ہو۔ ہمارے بھائی خود ہی تفتیش اور خود ہی فیصلے صادر کرنے لگے۔ کسی کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ خبر میں ایک پاکیزگی ہوتی ہے جس کو لکھنے کے لیے تمام متعلقہ افراد کا موقف لینا پڑتا ہے اور اس میں اپنے راے دینا حرام ہے۔
اب آپ بڑے سے بڑا اخبار دیکھ لیں ہمارے صحافی کچھ غیر مصدقہ ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر اپنی راے اور خواہشات کو اس میں شامل کر کے خبر بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ سیکڑوں سال کے تجربےکے بعد صحافت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ آپ خبر کو اصلی شکل میں بغیر اپنے جذبات اور راے شامل کیے چھاپیں یا نشر کریں ہاں اس خبر سے متعلق جو راے آپ دینا چاہتے ہیں اس کے لیے علیحدہ ایڈیٹوریل پیج موجود ہے اس میں آپ اس خبر کا پوسٹ مارٹم کریں اپنے راےدیں یا جو بھی کہنا چاہتے ہیں وہ کہیں۔ابھی آذادی صحافت کا یہ دور ختم نہیں ہوا تھا کہ ہماری سرکار نے پراییویٹ ریڈیو ٹی وی چینلز قایم کرنے کی اجازت دے دی۔
پرائیویٹ ریڈیو ٹی وی چینلز کھولنا کروڑوں اور اربوں روپے کا کام ہے چنانچہ اس میں ہمارے ارب پتی گھرانے اپنی دولت کے بل بوتے پر کود پڑے اور میڈیا کو بے تحاشہ کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ ان چینلز میں راے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ غیر ممالک بھی شامل ہو گیے اور ایک اودھم مچ گیا۔الیکٹرانک میڈیا واضع طور پر کیمپ بنا کے بیٹھ گیا کچھ حکومت کے حق میں اور کچھ اس کے خلاف۔کچھ نے اپنے مذھبی چینل کھول لیے۔ اس طرح عوام اور صحافت زمین کے نیچے چلے گیے اب ان ناخداوں کا راج شروع ہو گیا۔کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ بیچ میں سوشل میڈیا کود پڑا اور اس نے سارے پرانے میڈیا کی مٹی پلید کر کے رکھ دی۔
لیکن سوشل میڈیا پر بھی لکھنے کے لیے آپ کو کسی تعلیم کی ضرورت نہیں آپ کوئی بھی پوسٹ بغیر سوچے سمجھے لگا دیتے ہیں چاہے وہ آپ کے ملک کو تباہ کرے قوم کے خلاف ہو یا اخلاقیات اور مذھب کو نقصان پہنچاے۔ سوشل میڈیا پر سیل cell بن گیے اور نفرت کی بھٹیاں نیا پراڈکٹ بنانے لگیں۔ آج کل ہم ایسی ایسی گالیاں لکھی ہوئی شکل میں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے احاطہ خیال میں بھی نہ تھی۔لیکن قسمت کی بات ہے کسی نے پہلی جنگ عظیم دیکھی کسی نے دوسری۔کوئی میڈیا بلیک آوٹ میں زندگی گزار گیا اور ہم کو میڈیا کی چکاچوند نے ایسا بے حال کر دیا کہ آنکھیں کھولیں تو سورج سوا نیزے پر اور بند کریں تو گھپ اندھیری رات۔۔ یہ ہے ہماری قسمت۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ