نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جدید طرز صحافت… اسلامیہ یونیورسٹی کی میڈیا ورکشاپ ۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

تربیتی میڈیا ورکشاپ کا انعقاد اسلامیہ یونیورسٹی کا ایک اچھا فیصلہ ہے.علم کی طرح تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گذشتہ دنوں جناح ہال رحیم یار خان میں ایک میگا میڈیا تربیتی ورکشاب ہوئی جس کا انعقاد اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یار خان اور پریس کلب بہاول پور کے اشتراک سے کیا تھا. ورکنگ جرنلسٹس کے لیے ہونے والی اس ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کا انتہائی اہم حصہ ہونے کے باعث یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کے اہم طبقات ، سول سوسائٹی کی تعلیم اور ٹریننگ کا اہتمام کرے ۔صحافیوں کے لیے جدید طرز صحافت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد میرا ایک خواب تھا. جسے عملی جامہ پہنانے میں پریس کلب بہاول پور کا تعاون و معاونت کامیابی کی بنیاد بنا. رحیم یار خان کی بھر پور ورکشاپ نے یونیوسٹی کے ویژن کی سپورٹ کرکے ہمارے حوصلے مزید بڑھا دیئے ہیں. یہی وجہ ہے یونیورسٹی نےذمہ داری کو احسن انداز میں نبھایا۔ صحافیوں کے لیے تربیتی ورکشاپ کے اس سلسلے کو آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا. ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یار خان کے صدر ڈاکٹر ممتاز مونس نے کہا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کی رحیم یار خان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ان خدمات اور صحافیوں کے تربیتی ورکشاپ کے انعقاد پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے وائس چانسلر کی بصیرت کو سراہا اور محبتوں کو اپنے مخصوص انداز میں سلامِ عقیدت پیش کیا۔ صدر پریس کلب بہاول پور نصیر احمد ناصر نے جامعہ اسلامیہ بہاول پور اور بہاول پور پریس کلب کے مابین ہونے والی ایک مفاہمتی یادداشت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی کا صحافیوں کے بچوں تعیلم کے حصول میں رعایتی پیکیج دینے کے علاوہ خود اعلی تعیلم حاصل کرنے والے صحافیوں کے لیے دل اور قواعد کو نرم کرکے داخلے، وظائف وغیرہ کے لیے عملی اقدامات سے متعلق آگاہ کیا۔ سیکریٹری جنرل پریس کلب بہاول پور محبتیں بانٹنے والےبغلگیر بلوچ اور دوستوں کو باہم جوڑنے والےمیجک بلوچ میرا مطلب ریاض احمد بلوچ جوکہ ورکشاپ اور تقریبات کے اسٹیج سیکرٹری بھی تھے.انہوں نے فوکل پرسن ٹریننگ پروگرام ڈاکٹر محمد شہزاد رانا ، ڈائریکٹر میڈیا یونیورسٹی شہزاد احمد خالد کے ہمراہ مل کر ورکشاپ کو کامیابی اور خوبصورتی دونوں سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا.ذاتی نمود و نمائش سے دور بھاگنے والے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ سے تعلق رکھنے والے محترم جاوید اقبال ہمیشہ کی طرح پردے کے پیچھے بیٹھ کر بہت کچھ کیا.

تربیتی میڈیا ورکشاپ کا انعقاد اسلامیہ یونیورسٹی کا ایک اچھا فیصلہ ہے.علم کی طرح تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے. اس کے دروزاے کبھی بند نہیں ہوتے. بند ہونے بھی نہیں چاہئیں اور بند کرنے بھی نہیں چاہئیں.سیکھنے والوں کے لیے پورا جہان پڑا ہے. تربیتی ورکشاپوں سے کون، کیا، کتنا اور کس قدر سیکھتا ہے اس کا انحصار سیکھنے والوں کی سوچ جستجو، مشن اور کاز کے ساتھ وابستگی اور محبت پر ہوتا ہے. ریت کے ٹیلے سے آپ کس طرح اور کتنی ریت اٹھا کر جا سکتے ہیں. پانی کے تالاب سے آپ کتنا پانی بھر کر لاتے ہیں اور اس ریت اور پانی کو آپ کس طرح اپنے کس استعمال میں لاتے ہیں. یہ آپ پر منحصر ہے. ورکشاپ، ریت اور پانی کی افادیت ہر شخص کے لیے اس کی سوچ اور عمل کے مطابق مختلف ہے. بہرحال اسلامیہ یونیورسٹی نے تربیتی ورکشاپ میں اسلام آباد، لاہور، ملتان بہاول پور وغیرہ سے مختلف ریسورس پرسنز کو ایک جگہ جمع کرکے بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے.تمام ریسورس پرسنز محترم نذیرخالد، خرم علی مہران، ڈاکٹر سیدہ زینب علی، پروفیسر قدرت اللہ شہاب،محبوب چودھری، عثمان شاہد وغیرہ نے اپنے اپنے موضوعات پر سیر حاصل لیکچر دیئے. نذیر خالد صاحب دعا اور دوا دونوں کے ذریعے کام کرتے ہیں. بڑے نفیس اور محبتوں بھرے ملنسار انسان سے اٹھتے بیٹھتے گفتگو کرنے کے علاوہ خاموشی خاموشی کے دوران بھی کچھ نہ کچھ سیکھا جا سکتا ہے. بھٹی سے نکلی ہوئی پختہ صاف ستھری اینٹ کی طرح یہ ریٹائرڈ لوگ بھی بڑے کام کی چیز ہوتے ہیں. ویسے بھٹیوں سے کچھ گھنگھر اینٹیں اور کافی نیم پختہ اینٹیں بھی نکلتی ہیں.لیکن یاد رکھیں ان میں سے کوئی بھی رائیگاں نہیں جاتی حتیکہ بھٹی کی کیری بھی کام آتی ہے.بقول سئیں امجد فاروق ڈاھا بس انسان کو کام کرنے اور کام کروانے والا بننا چاہئیے. حالات کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے اور آگے بڑھنے کی جستجو ہی کامیابی کی بنیاد اور کنجی ہے. اسلامی یونیورسٹی نے رسمی کے ساتھ غیر رسمی تعلیم کی طرح رسمی تربیت کے ساتھ غیر رسمی تربیت کا جو عمل کیا ہے. یقینا یہ معاشرے میں علم، تعلیم وتربیت، اصلاح اور فلاح کا عمل ہے. باہمی کوآرڈینیشن اور تعاون سے معاشرے کے سدھار کا ایک مشن اور تحریک ہے.صلاحیتوں کو بیدار کرکے زیادہ کارآمد بنانے کی ایک مہم ہے.ذمہ داریوں کے احساس کو طاقت ور، قابل بھروسہ اور قابل عزت بنانے کا ٹانک ہے. میرے ضلع رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نوجوان ہونے کے باوجود خاصے برد بار قسم کے آفیسر ہیں.دھیمے انداز میں نپی تلی اور بڑی اچھی تقریر کرتے ہیں. جو شخص شاعر ہوتا ہے وہ کسی حد تک حساس بھی ضرور ہوتا ہے.محترم نیبل جاوید اور جمیل احمد جمیل کے درجے کا ملنسار نہ سہی مگر صاحب احساس اور صاحب فکر ضرور ہے. روح کے بھی پاکیزہ آدمی لگتے ہیں. میرے کسان دوستوں کو ان سے شکوہ ہے کہ کسان موصوف کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں. یہی وجہ ہے کہ ایگریکلچر ایڈوائزی کی میٹنگ گذشتہ کئی ماہ سے التواء کا شکار ہیں.خیر چھوڑیں یہ بات فی سبیل اللہ راستے میں آ گئی تھی. اس پر پھر بات کریں گے. ہم میڈیا کی تربیتی ورکشاپ کاذکر کر رہے تھے. ڈپٹی کمشنر کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ اس طرح کی مثبت سرگرمیوں کے لیے ضلعی انتظامیہ کے دل اور دروازے دونوں کھلے ہوئے ہیں.

وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب اور ان کی ٹیم نے دو تین دن کا کام ایک دن میں کرکے خوب عزت کمائی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے درپیش مسائل کی مجبوریوں کے باوجود اتنا کچھ کر لینا بھی بڑی بات ہے.میں اسے وائس چانسلر کی فراغدلی سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ انیشیٹیو لیا اور اسے کامیاب کرکے دکھایا.اس تربیتی ورکشاپ میں ضلع رحیم یار خان کے ایک سو سے زائد صحافی شریک ہوئے. ویسے وطن عزیز میں دو تین دن کا کام ایک دن میں کرنے یا کروانے کا یہ سلسلہ کم از کم سرائیکی وسیب میں بہت پرانا ہے. انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور رحیم یار خان میں مصروفیات سے بھرپور دن گزارا ورکشاپ کے علاوہ کئی دیگر پروگراموں میں شریک ہوئے رحیم یار خان کیمپس کا دورہ کیا ضلع کے علم دوست ڈپٹی کمشنر علی شہزاد سے ملے. نے کہا ہے کہ رحیم یار خان کیمپس سرائیکی وسیب جنوبی پنجاب، سندھ اوربلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ ایک سال کے مختصر عرصے میں اساتذہ، طلبہ وطالبات اور شعبہ جات کی تعداد دو گنا کردی گئی ہے۔ حالیہ داخلوں میں 1300سے زائد طلبہ وطالبات نے داخلہ لیاجو ایک ریکارڈ ہے۔ اس وقت کیمپس میں طلبہ وطالبات کی تعداد 2500ہوگئی ہے۔ ہمارے ہاں بلوچستان اور سندھ کے ملحقہ علاقوں کے طلبہ وطالبات بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مقامی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم ان کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے رحیم یار خان کیمپس میں نئے شعبہ جات قائم کئے گئے اور نئی فیکلٹی کی تعیناتی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کیمپس کی اپ گریڈیشن کے لیے بھی اقدامات جاری ہیں۔ تمام لیبارٹریوں کوجدید سازو سامان سے لیس کیا جارہا ے۔طلباء اور فیکلٹی کے غیرمعمولی تعداد کے پیش نظر ہاسٹل اور بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائی گا اور میڈیکل کی سہولیات بھی بڑھائی جائیں گی۔ جامعہ اسلامیہ کے 33فیصد سے زائد طلبہ وطالبات وظائف سے مستفید ہوتے ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں روپے کے وظائف مہیا کر رہی ہے اور رحیم یار خان کے طلباء وطالبات بھی بڑی تعداد میں یقینا ان وظائف سے مستفید ہوں گے۔

About The Author