نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور ان کے دلوں میں بٹھانے کے محاذ پر ابھی تک تحریک انصاف حیران کن حد تک چھائی ہوئی تھی۔ نواز شریف صاحب نے مگر اب ذاتی ٹویٹر اکائونٹ بنالیا ہے۔ فیس بک کے ذریعے ’’قوم سے خطاب‘‘ کا راستہ بھی ڈھونڈ لیا۔یوٹیوب پر چھائے محبانِ وطن مؤثر انداز میں انہیں جواب نہیں دے پارہے۔ روایتی میڈیا کو تحریک انصاف نے بہت معتبر شمار ہوتے کالم نگاروں اور اینکر خواتین وحضرات کو ’’لفافہ‘‘ثابت کرتے ہوئے 2014 ہی سے غیر مؤثر بنانا شروع کردیا تھا۔ جولائی 2018کے انتخابات کے بعد اس کی حکومت قائم ہوئی تو فواد چودھری صاحب نے روایتی میڈیا کے ’’بزنس ماڈل‘‘ ہی کو ناکارہ بنادیا۔ سینکڑوں صحافی اس کی وجہ سے بے روزگار ہوئے۔ اپنے اداروں پر ’’بوجھ‘‘ ہوئے اینکرحضرات ’’مالیاتی بحران‘‘ کی نذر ہوکر سکرینوں سے غائب ہوگئے۔ سیاسی لڑائی اس کے بعد سے ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کے میدانو ں ہی میں لڑی جارہی ہے۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف جب سوشل میڈیا پر نمودار ہوتے ہیں تو پنجابی محاورے والے ’’چھاچھو‘‘ جاتے ہیں۔ایسے ’’صحافی‘‘ جنہیں ان کے اپنے محلے میں بھی کوئی جانتا نہیں یوٹیوب پر یاوہ گوئی کرتے ہوئے ان کا ’’مکوٹھپ‘‘ نہیں سکتے۔
نواز شریف کے ’’تخریبی‘‘ پیغام کو روکنے کا واحد راستہ اب فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پر کامل پابندی کی صورت ہی ممکن ہے۔ ہمارے جگری یار چین میں اس پابندی کے باعث راوی چین ہی چین لکھتا نظر آتا ہے۔برادر اسلامی ملک ایران نے بھی اپنے لوگوں کو ان ’’بدعات‘‘ سے بچایا ہوا ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہوچکا ہے کہ موبائل فون کی ایجاد کے بعد سے اسے استعمال کرنے والے اس کم بخت آلے کو محض ٹیلی فون پر گفتگو کے لئے مختص نہیں کرنا چاہتے۔ انہیں چسکہ بھری Chatting بھی درکار ہے۔ چین نے اس خواہش کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ہاں Web چھت ایجاد کرلی۔ لوگوں کا جی بہلانے کے لئے Tik Tok بھی فراہم کردی۔ ہم مگر فیس بک ،ٹویٹر اور یوٹیوب پر کامل پابندی لگانے کے بعد محض چین کی بنائی سوشل میڈیا Apps کو فروغ دیں گے تو عالمی معیشت کے نگہبان ادارے ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ آئی ایم ایف سے ہمیں ستمبر 2022 تک چھ ارب ڈالر کی ’’امدادی رقم‘‘ قسطوں میں وصول کرنا ہے۔
ہم اگر سوشل میڈیا کے حوالے سے گوگل وغیرہ کا دھندا تباہ کرتے نظر آئے تو یہ رقم میسر نہیں ہوگی۔ کڑوے گھونٹ کی طرح لہذا ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کو برداشت کرنا ہوگا۔ اسے ’’تخریب کاری‘‘ کے لئے استعمال کرنے والوں پر اگرچہ کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔ ’’سائبر کرائم‘‘ کے تدارک کے لئے بنائے قوانین کا بھرپور انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔ نواز شریف تاہم لندن میں مقیم ہیں۔ فیس بک کے ذریعے ’’قوم سے خطاب‘‘ فرماتے رہیں گے۔ انہیں زچ کرنے کو تحریک انصاف کے سرکاری اور غیر سرکاری ترجمانوں کی بیان بازی اور Spin Doctoring کافی نہیں۔ انگریزی زبان میں جسے Next Level کہتے ہیں وہاں جانا پڑے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ برطانیہ ہی مطلوبہNext لیول کا اصل میدان ہوسکتا ہے۔ منی لانڈرنگ پر نگاہ رکھنے والوں نے ابھی تک جو تحقیق کی وہ اس ملک کو اس جرم کا کیپٹل بناکر دکھاتی ہے۔ پانامہ پیپرز کی طرح حال ہی میں برطانوی بینکوں نے اپنے کھاتوں کی جو تفصیل امریکی حکومت کو فراہم کی وہ منظرعام پر آچکی ہے۔
اس کی بدولت ہزارہا ایسے کھاتوں کی نشاندہی ہوگئی ہے جن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ڈالرLaunder ہوتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ کے چند نیک دل صحافی یہ مہم چلارہے ہیں کہ ان کی حکومت پاکستان جیسے ممالک کی حکمران اشرافیہ کی جانب سے برتی منی لانڈرنگ پر نگاہ رکھے۔ ان کی مہم سے مجبور ہوکر تھریسامے نے بطور وزیر اعظم Unexplained Wealth والا قانون متعارف کروایا تھا۔ اس قانون کی بدولت برطانوی حکومت کو یہ اختیار مل گیا کہ اس کے ہاں خریدی کسی بھی جائیداد کے لئے صرف ہوئی رقوم کے ’’اصل ذرائع‘‘ کی بابت سوالات اٹھائے۔ ان سوالات کے اطمینان بخش جوابات نہ ملیں تو مشتبہ جائیداد کو بحق سرکار ضبط کیا جاسکتا ہے۔ اس کی نیلامی سے حاصل ہوئی رقم برطانوی خزانے میں چلی جائے گی۔
پاکستان جیسے ممالک کو اگرچہ یہ سہولت بھی فراہم کردی گئی ہے کہ وہ اگر برطانوی عدالتوں میں یہ ثابت کردیں کہ فلاں شخص نے فلاں جائیداد حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خریدی ہے تو اس کی فروخت سے حاصل ہوئی رقم کا وافر حصہ اس کے خزانے میں ڈال دیا جائے۔ مذکورہ قانون کے اطلاق سے قبل برطانیہ بھی ان تین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کو شکایت لگائی کہ پاکستان منی لانڈرنگ پر مؤثر انداز میں قابو پانے کو آمادہ نہیں۔ اس کی وجہ سے ہم FATF کی گرے لسٹ میں ڈال دئیے گئے تھے۔ اس فہرست سے باہر آنے کے لئے حال ہی میں پاکستان نے آٹھ قوانین اپنی پارلیمان سے انتہائی عجلت میں منظور کروائے ہیں۔
امید ہے کہ ان قوانین کی منظوری کے بعد پاکستان گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ ہمارے بدخواہ مگر کچھ اور اشارے دے رہے ہیں۔ اصرار ہورہا ہے کہ فقط ’’منی لانڈرنگ‘‘ ہی مسئلہ نہیں تھا۔ اصل سوال ’’دہشت گردی‘‘ کی سرمایہ کاری کے بارے میں اٹھائے گئے تھے۔ ’’دہشت گردی‘‘ اور اس کی ’’سرمایہ کاری‘‘ کا ذکر ہوتا ہے تو میرا جھکی ذہن یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر یہ دونوں اتنے ہی ’’گھنائونے‘‘ جرائم تھے تو قطر کے شہر دوحہ میں ان دنوں ملابرادر اینڈ کمپنی کے اتنے ناز نخرے کیوں اٹھائے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا محتاج پاکستان مگر یہ سوال اٹھا نہیں سکتا۔ ہم بلکہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا کریڈٹ لیتے ہوئے عالمی معیشت کے نگہبان اداروں سے ’’خیر‘‘ کے طلب گار ہیں۔
اس کالم کا موضوع مگر نواز شریف اور ان کی جانب سے سوشل میڈیا کا جارحانہ استعمال ہے۔ نواز شریف صاحب کو آصف سعید کھوسہ صاحب نے ’’سسیلین مافیا‘‘ کہتے ہوئے اقامہ کی بنیاد پر وزیر اعظم کے منصب سے فارغ کروادیا تھا۔ ’’صادق اور امین’’’ ثابت نہ ہونے کے سبب وہ تاحیات کسی بھی منتخب ادارے کے رکن بننے کے لئے نااہل بھی ٹھہرائے گئے۔ یہ حادثہ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین صاحب کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ان کے خلاف نیب نے مگر مقدمات قائم نہ کئے۔ ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ کا حساب کتاب نہ ہوا۔ نواز شریف کے خلاف البتہ ایسے مقدمات دائر ہوئے۔ ان کے نتیجے میں احتساب عدالت سے سزا پانے کے بعد وہ جیل بھیج دئے گئے۔
اس کے بعد ’’تاریخ ساز‘‘ واقعہ یہ بھی ہوا کہ جیل میں بیمار ہوئے نواز شریف کو عدالت اور وفاقی حکومت نے علاج کروانے لندن بھیج دیا۔ امید تھی کہ وہ چار ہفتوں میں اپنا علاج کروانے کے بعد جیل واپس لوٹ آئیں گے۔ وہ مگر دس مہینوں سے لندن ہی میں مقیم ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اب انہیں ’’اشتہاری‘‘ قرار دینے کی تیاری کررہی ہے۔ عمران حکومت کے لئے سیاسی ہی نہیں ’’اخلاقی‘‘ اعتبار سے بھی اب لازم ہوگیا ہے کہ شہزاد اکبر صاحب کی ذہانت وفطانت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے برطانوی حکومت سے باقاعدہ رجوع کرے۔
واجد ضیاء جیسے ’’ہیروں‘‘ نے بہت لگن سے سراغ لگایا کہ لاہور کی ’’گوالمنڈی‘‘ سے ابھرے نواز شریف نے اپنے اقتدار واختیار کو استعمال کرتے ہوئے بے رحم انداز میں دولت کے انبار جمع کئے۔ یہ تمام حقائق برطانوی عدالتوں کے روبرو رکھے جائیں ۔ نواز شریف کی مبینہ بدعنوانیاں ہر حوالے سے کامل آزاد شمار ہوتی عدالتوں کے روبرو ثابت ہوگئیں تو ’’عدالت سے سزا یافتہ بھگوڑے‘‘ کو ہتھکڑی لگا کر جہاز میں بٹھاکر پاکستان بھیجنا لازمی ہوجائے گا۔ مذکورہ بالا اقدامات کو ٹھوس انداز میں بروئے کار لائے بغیر نواز شریف کو اب محض پراپیگنڈے کے ذریعے زچ کرنا ممکن نہیں رہا۔
یہ پراپیگنڈہ کرتے ہوئے بھی خدارا یادرکھیں کہ نواز شریف لاہور کی ’’گوالمنڈی‘‘ کے رہائشی کبھی نہیں رہے۔ ان کے والد اور دیگر بزرگوں نے قیام پاکستان سے کئی برس قبل لاہور کی ’’رام گلی‘‘ میں ایک شاندار مکان تعمیر کیا تھا۔ یہ گلی لاہور کے سرکلرروڈ پر واقع ہے۔ دہلی دروازے سے شاہ محمد غوث کے مزار سے گزرتے ہوئے برانڈرتھ روڈ کی جانب چلیں تو آپ کے بائیں ہاتھ یہ گلی آتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل یہ علاقہ لاہور کا ’’پوش‘‘ علاقہ شمار ہوتا تھا۔ جو سڑک اس طرف جاتی ہے اسے ’’کیلیاں والی سڑک‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ وہاں کیلوں کے بے تحاشہ درخت تھے۔ ’’رام گلی‘‘ سے شریف خاندان بعدازاں ماڈل ٹائون منتقل ہوگیا تھا۔ ’’گوالمنڈی‘‘ اس خاندان کا رہائشی علاقہ کبھی نہیں رہا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر