مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکی انتخابات اور سول وار کی وارننگ ۔۔۔ رانا محبوب اختر

اس سے پہلے ہم تِلک چاڑھی پر کوزی حلیم کھا چکے تھے۔حلیم کو اچھے نمبروں اور ربڑی کو رعایتی نمبر دے کر پاس کیا۔
رانا محبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہذیب کی عمارت فرد کی آزادی کے تصور پر کھڑی ہے۔ ایک شخص ایک ووٹ اور عوام کی free will سے بننے والی حکومت جائز ہوتی ہے۔منڈی بھی فرد کے آزادانہ انتخاب کے حق سے جڑی ہوئی ہے۔ صارف بادشاہ ہے اور اس کا انتخاب حتمی ہے۔تریمتائیت یا feminism کی تحریک جمہوریت کی وجہ سے سو سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی تحریک بن گئی ہے۔فرد کی منشاء کی حتمیت کا مطلب یہ ہے کہ فرد اپنے آپ کو جانتا ہے اور درست فیصلہ کرنے کے لئے عقل سے کام لیتا ہے۔ذات کے عرفان کی بات صدیوں پرانی ہے۔لیکن کیا فرد اپنے آپ کو جانتا ہے اور آزادانہ فیصلے کرنے کا آخری اختیار رکھتا ہے؟ سماج اور DNA فرد پر حکم چلاتے ہیں تو پھر آزادی کیا ہے؟شاعروں کے شاعر میر نے کہا:
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ڈیلفی میں اپالو کے مندر کے باہر لکھا ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو۔آرٹ آف وار کے مصنف، سن زو نے کہا ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں کو جاننا بھی اہم ہے۔حدیث ِپاک ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو جانتا ہے اپنے رب کو جانتا ہے۔صوفی، سنت اور سادھو من کو کھوجتے تھے اب یہ کام سائنس دان کرتے ہیں۔صوفی روحانیت میں ڈوب کر سوال کرتا اور جواب دینے کی بجائے چپ سادھ لیتا ہے۔سانئس دان بولتا ہے۔سائنسی فارمولے کی زبان میں سمجھاتا ہے کہ سانئس دان کی آگاہی اور صوفی کی آگہی میں آگ مشترک ہے۔سانئس نے نئے آدمی کو اک عجب مخمصے سے دوچار کر دیا ہے کہ اب انسان کے اندر کی دنیا کو باہر رکھے کمپیوٹراور ایلگورتھم فرد سے زیادہ جانتے ہیں۔انسان کی نئی تعریف یہ ہے کہ وہ biochemical algorithmہے اور اس کے جذبات کاتجزیہ ایسی مشینیں کرتی ہیں جو جذبات سے عاری ہیں۔ باہر کی مشینیں ہمارے باطن کو ہم سے بہتر جانتی ہیں۔مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیک نے انسان کے اندر کی دنیا کا black box کھول دیا ہے۔اخلاقیات بھی اب سائنسدانوں اورانجینئرز کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔خودکار کاروں کے حادثے میں کار کے مالک یا سڑک پار کرتے معصوم بچوں میں سے کس کی جان بچانی ہے یہ فیصلہ کار کی منطق کرے گی جسے ایک سوفٹ وئیر انجینئر لکھتا ہے۔گویا انجینئرز اب فلسفیانہ اور اخلاقیات کے سوالوں کے جواب لکھتے ہیںاور فرد مشینوں کے نرغے میں ہے۔انسان کو hack کیا جا سکتا ہے۔اس لئے مشینوں پر اربوں انسانوں کے بائیوکیمیکل ایلگورتھمز کا ڈیٹا رکھنے والے کارپوریٹ لیڈرز کے لئے نئی اخلاقیات ضروری ہے۔ہمیں ہم سے بہتر جاننے والے اگر ہٹلر ہوں تو کیا تماشا ہو۔حکومتیں ڈیٹا خرید کر انسانی آزادی اور منشاء کو اپنا تابع ِ محمل بنا سکتی ہیں۔ٹیکنالوجی کی آمریت میں جاسوسی کے لئے آدمی منکر نکیر بن سکتے ہیں۔نطشے نے مہا بیانیے کی موت کے بعد نئی اخلاقیات پر زور دیا تھا ۔اب جمہور اور جمہوریت کو ٹیکنالوجی سے خطرہ ہے کہ فرد اور اس کی آزادی کا پرانا تصور منہدم ہو رہا ہے۔ یوال نوح ہراری ان خطرات سے خبردار کرتا ہے۔وہ نطشے کی طرح دنیا کو درپیش خطرات کی چتاونی دیتا ہے۔فطرت اور جبلت کے جبر کے زندانی کو ٹیکنالوجی کی غلامی مقدر ہے!!ایسے میں برتر اخلاقی اقدار، بڑھیا قیادت اور عالمی تعاون کی ضرورت جتنی آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی!
عذاب یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت قیادت کا بحران ہے۔قحط الرجال ہے۔امریکہ میں صدر ٹرمپ حکمران ہیں ۔امریکی میڈیا کے مطابق انھوں نے اپنے عہدِصدارت میں کوئی بیس ہزار جھوٹ بولے ہیں۔برازیل میں بولسینارو جیسا رجعت پسند حکمران ہے جس نے ماحولیات سے لے کر تانیثیت تک ہر ماڈرن حقیقت کا مذاق اڑایا ہے۔چومسکی بولسینارو کو ٹرمپ کا clone کہتے ہیں ۔مشرقِ وسطی کے بڑے ملک مصر میں سسی کی آمریت فرعونوں کی یاد دلاتی ہے۔مصر اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نوجوانوں کی اکثریت بوڑھوں سے زیادہ رجعت پسند ہے۔بھارت میں نریندرا مودی نے بھارتی سیکولرازم کی درخشاں روایت کو تباہ کر دیا ہے۔کشمیر پر قبضے کو زیادہ متشدد بنایا ہے اور مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر مسلم انتہا پسندی کے مقابلے میں ہندو انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے کا خطرناک متبادل بیانیہ تشکیل دیا ہے۔یورپ ہنگری کے اربان ہیں۔اٹلی میں ماتیو سالوینی مہاجرین کو سمندر میں ڈوبتا دیکھ کر مزہ لیتے ہیں۔برطانیہ میں بورس جانسن بریکسٹ کے لیڈر ہیں اور اگر وہ ناکام ہوئے تو نیجل فراج جیسا آدمی برطانیہ کا رہنما بن سکتا ہے۔ برطانیہ اپنی تاریخ میں قیادت کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے بعد امریکہ کا دم چھلہ بننے جا رہا ہے!رجعت پسندی کی عالمی لہر اور عالمی قیادت کی تنگ نظری کو ٹیکنالوجی کے عروج اور AIکے امکانی ٹیک اور سے ملا کر دیکھیں تو پریشان کن صورتِ حال سامنے آتی ہے!عالمی سطح پر قیادت کا خطرناک خلاء ہے جس سے سرمایہ دارانہ اخلاقیات کے گرو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 2016میں صدر ٹرمپ کی جیت میں روسی مداخلت کی بازگشت سنائی دی تھی۔یہ جمہوریت پر حملہ تھا۔ اس پس منظر میں 2020 کے امریکی انتخابات کے متنازعہ بننے کا امکان ہے کہ صدر ٹرمپ دھاندلی کا شور کر رہے ہیں اور نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی بات کرتے ہیں!!
قحط الرجال، قہرالرجال کو جنم دیتا ہے۔مہابیانیوں کی موت کے بعد بڑی کہانیاں مر گئی ہے.انسان کے علاوہ کوئی آئیدیل نہیں بچا اور انسان پر مشینوں کی حکمرانی کا امکان ہے۔دل کی دنیا پہ ویرانی کا سایہ ہے۔اقبال نے کہا تھا:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
نوح ہراری کا خیال ہے کہ دنیا کو اس وقت ایٹمی تباہی ، ماحولیاتی آفتوں اور مصنوعی ذہانت یا AI جیسے تین عالمی خطرات کا سامنا ہے۔فلسفی اور ماہر لسانیات نوم چومسکی کے مطابق ان تین خطرات کے علاوہ دنیا کو اس وقت رجعت پسند آمروں سے خطرہ ہے۔نیو سٹیٹسمین کو ایک حالیہ انٹرویو میں چومسکی نے کہا کہ ان کی 91 سالہ زندگی میں اس نے اس طرح سے دنیا کو تباہی کے دہانے پر کبھی نہیں دیکھا۔1930 کی دہائی میں جرمنی اور ہٹلر کے تناظر میں امریکی فوجی قیادت کا خیال تھا کہ دنیا امریکی اور جرمن کیمپوں میں بٹ جائے گی۔لیکن کرہ ارض کی مکمل تباہی کا امکان نہ تھا۔اس وقت ٹرمپ، بولسینارو، اربان، سسی، بورس جانسن اور نریندرا مودی جیسے رہنماء دنیا کو بڑی تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں۔ایک لیڈر کی سب سے بڑی خوبی prescienceیا سمت نمائی ہوتی ہے اور یہ رہنماء اپنی تنگ نظری کی وجہ سے خضرِراہ بننیکی صلاحیت نہیں رکھتے۔چومسکی نے امریکہ کے 22صدارتی انتخابات دیکھے ہیں۔لیکن اس کے لئے 2020کی مہم بہت پریشان کن ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔امریکی فوج کے دو سابقہ اعلی افسروں نے جائنٹ چیفس آف سٹاف کو ایک خط میں ان کی آئینی ذمہ داریاں یاد دلائی ہیں۔کہ اگر ہارنے کے بعد صدر ٹرمپ سفید محل نہیں چھوڑتے تو 82nd Airborne Division کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں طاقت کا استعمال کر کے ہٹا دیں۔امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر ٹرمپ نے ایسا کیا تو امریکہ میں سول وار ہو سکتی ہے۔یہ دور کی کوڑی نہیں ہے کہ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کی ماڈل وار گیمز اس طرف اشارہ کرتی ہیں۔اگر امریکہ میں ایسا ہوا تو یہ ہماری دنیا کے لئے بری خبر ہوگی۔ایٹمی جنگ ، ماحولیاتی آلودگی اور انسانوں پر ٹیکنالوجی کے قبضے جیسے خطرات بین الاقوامیت یا معدومیت یعنی internationalisn or extinction کا منظر نامہ بنا رہے ہیں۔اس تناظر میں دنیا کو ایڈنائر، یوشیدا، ولی برانڈت اور گورباچوف جیسے لیڈروں کی دانش کی ضرورت ہے۔رہنما جو اپنی انا کے اسیر نہ ہوں یا شاید جو بائیڈن جو دانش مندی سے سمت نمائی کر سکیں۔ مشکلات کے باوجود غار کے سرے پر ہلکی سی روشنی ہے !
تائیوان کی ڈیجیٹل منسٹر ، آڈری ٹینگ کی نظم دعا کی صورت ہے:
When we see internet of things, lets make it an internet of beings.
When we see virtual reality, lets make it a shared reality.
انسان کو معدومیت کا خطرہ ہے۔سفید محل میں "دھندلکا” ہے۔ہوا کے رخ پر اک دیا جلتا ہے اور وادئ سلیکان کے اس دیئے کو اخلاقیات کی لو اونچی کرنے کی ضرورت ہے :
نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے، ہوا چل رہی ہے!

%d bloggers like this: