اشفاق نمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاس اینجل کے مشہور ڈاکٹر ابراہام ہیں جنہوں نے انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی کوشش کی اس کے لیے انہوں نے موت کے قریب لوگوں پر مختلف تجربات کیے انہوں نے پانچ سالوں میں بارہ سو تجربات کیے ان تجربات کو کرنے کے لیے انہوں نے شیشے کے باکس کا ایک انتہائی حساس ترازو بنایا وہ قریب المرگ مریض کو اس شیشے کے باکس میں ترازو پر لٹا دیتے تھے پہلے وہ مریض کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتے پھر مریض کے جسم کا وزن کرتے اور اس کے بعد وہ اس مریض کے مرنے کا انتظار کرتے مریض کے مرنے کے فورن بعد ہی اس کا وزن نوٹ کر لیتے ڈاکٹر ابراہام نے ایسے ہی سینکڑوں تجربات کیے ان تجربات کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے ڈاکٹر ابراہام کا کہنا تھا کہ انسانی روح اس 21 گرام آکسیجن کا نام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں، درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے اور موت کی ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مر جاتے ہیں اور انسان فوت ہوجاتا ہے
ذرا غور کریں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ 21 گرام کتنے ہوتے ہیں؟
21 گرام ریت کی چھے چٹکیاں یا پانج ٹشو پیپر ہوتے ہیں ہماری بس اتنی سی اوقات ہے لیکن ہم 21 گرام کے انسان خود کو کائنات کا خدا سمجھتے ہیں
یہاں میرا ایک سوال ہے کہ اگر ہماری روح کا وزن 21 گرام ہے تو ان 21 گراموں میں ہماری خواہشوں کا وزن کتنا ہو گا؟ اس میں ہماری نفرتیں، ہماری ہیراپھیری اور ہماری گردن کی اکڑ ،ہمارے غرور کا وزن کتنا ہو گا؟
کہا جاتا ہے کہ تبت کے لوگ 21 گراموں کی اس زندگی کو موم سمجھتے ہیں یہ لوگ صبح کے وقت موم کے دس بیس مجسمے بناتے ہیں ان میں ہر مجسمہ ان کی کسی نا کسی خواہش کی نمائندگی کرتا ہے دن کو سورج کی تپش میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ مجسمے پگھلتے ہیں شام تک ان کے دروازے پر موم کے چند آنسؤں کی سوا کچھ نہیں بچتا یہ لوگ ان آنسوؤں کو دیکھتے ہیں اور اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ میری ساری خواہشیں کہاں گئیں اور اس کے بعد ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں
ہم 21 گرام کے انسان جو اپنے آپ کو کروڑوں انسانوں کا خدا سمجھتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ زمانہ ہمارا ملازم ہے اور اس بات کو ہم بالکل بھول جاتے ہیں بس ایک ہچکی سے ہمارے اختیار ہمارا غرور سب کچھ موم کی طرح پگھل جاۓ گا اور جب یہ 21 گرام ہمارے جسم سے نکل جائے گی تو ہم مٹی کی سلوں تلے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائیں گے اور 21 گرام کا کوئی دوسرا انسان ہماری جگہ لے لے گا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر