عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نے گزشتہ دنوں ایلس فیض کے فیض کو لکھے خطوط کا ترجمہ پڑھا- ترجمہ معروف ادیب و مترجم سید مظہر جمیل نے کیا ہے- کتابی شکل میں یہ خطوط اکادمی بازیافت نے شایع کیے ہیں- ترجمہ شدہ خطوط مبین مرزا کی ادارت میں شایع ہونے والے ادبی جریدے “مکالمہ” میں قسط وار شایع ہوتے رہے اور اس ترجمے پر سید مظہر جمیل بڑے بڑے ادبیوں سے داد سمیٹتے رہے- سید مظہر جمیل کے غزل کے دو اشعار بھی چلتے چلتے پڑھتے چلیے:
یادش بخیر سایہ فگن گھر ہی اور تھا
لوٹا مسافرت سے تو منظر ہی اور تھا
دیکھا عجیب ربط عناصر کے درمیاں
بدلا جو آسماں تو سمندر ہی اور تھا
ایلس فیض نے یہ خطوط اپنے شوہر فیض احمد فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کرلیے جانے کے بعد لکھنے شروع کیے تھے-
راولپنڈی سازش کیس پاکستان کی تاریخ کے ان مشہور سیاسی مقدمات میں سے ایک ہے جو ہماری ریاست کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکوں کی طرح سے ہے- راولپنڈی سازش کیس کمیونسٹ پاکستان پارٹی پر فوج کے بعض جرنیلوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹانے کی سازش کے الزام میں مارچ 1951ء میں قائم کیا گیا- اس الزام کے تحت شاعر و ادیب فیض احمد فیض 9 مارچ سن 1951ء کو لاہور سے ان کے اپارٹمنٹ سے علی الصبح گرفتار کیے گئے تھے- اس سازش کیس میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل سجاد ظہیر کے ساتھ پارٹی کے پولٹ بیورو کے اراکین سمیت پاکستانی فوج کے افسران بھی نامزد کیے گئے تھے- پاکستان کمیونسٹ پارٹی ، اس کے منظم کردہ فرنٹ جن میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پاکستان ٹریڈ یونینز فیڈریشن، انجمن ترقی پسند مصنفین، پاکستان کسان رابطہ کمیٹی سب پر پابندی لگادی گئی- پارٹی اور اس کے منظم کردہ محاذوں کے دفاتر سیل کردیے گئے اور اس کی قیادت اور کارکنوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے- کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان جریدے پر پابندی لگادی گئی- یہ کیس مارچ 1951ء سے سپیشل ٹربیونل ایکٹ کے تحت چلنا شروع ہوا- یہ کیس 1955ء تک چلتا رہا اور اس وقت ایک آئینی بحران پیدا ہوا، مولوی تمیز الدین اسپیکر دستور ساز اسمبلی نے فیڈرل کورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس کے بعد سپیشل ٹربیونل ایکٹ کی حثیت مشکوک ہوگئی اور فیض صاحب مئی 1955ء میں ضمانت پر رہا ہوگئے- ہائیکورٹ نے بعد ازاں سپیشل ٹربیونل ایکٹ کو ہی سرے سے غیر قانونی قرار دے دیا- 1957ء میں حسین شہید سہروردی جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے اس کیس میں تمام سزا یافتگان کو بے گناہ قرار دلوایا-
فیض احمد فیض جب گرفتار ہوئے تو ان کی عمر 40 سال، ایلس فیض کی عمر36 سال اور دونوں کی شادی کو 13 سال گزرے تھے- ان کی دو بیٹاں تھیں- سلیمہ اور منزہ- سلیمہ کی عمر 9 سال اور منزہ کی عمر محض 6 سال تھی- فیض احمد فیض گرفتاری کے وقت پاکستان ٹائمز لاہور کے ایڈیٹر تھے اور ایلس فیض ان کے ساتھ ادارتی اسٹاف میں شامل تھیں- یہ خواتین اور بچوں کے ایشوز اور پییجز کو دیکھتی تھیں- ان کا ابھی بروبیشن پیریڈ چل رہا تھا اور یہ مستقل نہیں ہوئی تھیں- فیض احمد فیض کرائے پر ایک مکان کی بالائی منزل پر رہا کرتے تھے- فیض احمد فیض پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن، پاکستان پوسٹ ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پولٹ بیورو کے ممبر بھی تھے- جبکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی یہ بانی اراکین میں سے تھے- ان کی اہلیہ ایلس فیض جو کبھی ایلس جارج ہوا کرتی تھیں کی بہن کرسٹوبیل کی شادی معروف ادیب ایم ڈی تاثیر سے ہوئی تھی- ایلس فیض اپنی بہن کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی تھیں، اسی دوران جنگ عظیم دوم شروع ہوگئی تو انہوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور یہیں پر وہ اور فیض احمد فیض محبت میں گرفتار ہوئے- خطوط میں ایلس فیض نے ایک جگہ پر بتایا ہے کہ کیسے امرتسر (ہندوستانی پنجاب) میں ان کی محبت پروان چڑھی تھی- بقول ایلس فیض یہ ان کی زندگی کے یادگار دن تھے- ایلس جب ایلس جارج تھیں تو ان کے والد کی لندن میں کتابوں کی دکان تھی اور وہ برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن تھے- ایلس جارج بھی اسکول کے زمانے سے کمیونسٹ پارٹی آف برطانیہ کی سرگرمیوں میں حصّہ لینے لگی تھیں-
سید مظہر جمیل نے ایلس فیض کے 179 خطوط کا ترجمہ کیا ہے جو اکتیس جولائی انیس اکیاون سے 18 مارچ 1955ء تک وقفے وقفے سے لکھے جاتے رہے- فیض صاحب کی گرفتاری کے زمانے میں ایلس فیض نے کیسے گھر چلایا، کیسے جاب کی اور کیسے دنیاداری نبھائی اور ساتھ ساتھ کیسے انہوں نے اپنی سیاسی و سماجی زندگی کو جاری رکھا، ان خطوط میں یہ سارا احوال سننے کو ملتا ہے اور ہمیں بے اختیار رشک آتا ہے کہ فیض صاحب کتنے خوش قسمت تھے کہ ان کو ایلس فیض جیسا جیون ساتھی میسر آیا-
ایلس فیض نے فیض صاحب کی گرفتاری اور جیل کے پانچ سالوں میں روزانہ اپنے اپارٹمنٹ سے پاکستان ٹائمز کے دفتر تک دس میل کا فاصلہ سائیکل پر طے کیا، جبکہ وہ گٹھیا کے مرض میں بھی مبتلا تھیں- اس دوران وہ دو بیٹیوں کا کیسے خیال کرتیں، ان کی پڑھائی پر کیسے دھیان دیتیں اور زمانے کے سر و گرم کا کیسے ان کو مقابلہ کرنا سکھاتیں اور کیسے اپنے ترقی پسند خیالات کا عملی اطلاق کیا کرتیں تھیں، اس سب کا احوال بھی ہمیں فیض صاحب کے نام خطوط میں ملتا ہے-
ایلس فیض اپنے خطوط میں جہاں مہنگائی کے بڑھ جانے، آٹے کی قیمت میں آگ لگ جانے اور ریلوے مزدوروں کی بڑی ہڑتال کا ذکر کرتی ہیں تو وہیں گوشت، سبزی، صابن اور دیگر چیزوں کے بھاؤ میں بھی اضافہ ہونے کا زکر کرتی ہیں- ساتھ ساتھ فیض کو اپنی تازہ نظم براہ راست کسی رسالے کے مدیر کو بھیجنے پر شکوہ بھی کرتی ہیں- وہ فیض کو بتاتی ہیں کہ ان کی ایک نظم اگر پاکستان ٹائمز یا امرورز میں شایع ہونے کے لیے بھیجی جائے یا نقوش و ادب لطیف یا کہیں اور شایع ہونے کے لیے ان کے زریعے بھیجی جائیں تو فی نظم 25 سے 50 روپے ہاتھ لگ سکتے ہیں اور ان پیسوں سے میزو اور سلیمہ کے دو جوڑے کپڑے آسانی سے آسکتے ہیں- ہمیں ان خطوط کے زریعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فیض سے حیدرآباد جیل میں ملاقات کے لیے ایلس اور بچیوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا اور سب سے بڑھ کر لاہور سے حیدرآباد تک کے سفری اخراجات ،قیام و طعام کے خرچے کے لیے کیسے کیسے پاپڑ پیلنے پڑتے تھے اور جب یہ ملاقات ہوتی تو اس کے بعد کیسے بجٹ میں کٹوتیاں کرنا پڑتی تھیں- اس دوران بھی ایلس فیض نے اپنی اسپرٹ کو کھونے نہیں دیا- اپنی دونوں بچیوں پر باپ کی غیر حاضری سے پیدا اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی- اس دوران سلیمہ اور میزو نے اپنی ماں ایلس کا دکھ اور ہجر کیسے بٹایا، اس کا احوال بھی ان خطوط میں پڑھنے کو ملتا ہے-
میں ان خطوط کو پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ فیض احمد فیض جن کو مارچ کے مہینے میں 1951ء کو صبح کے وقت گھر سے اٹھایا گیا اور تین ماہ تک ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوپائی اور ملاقات کہیں جاکر جون میں فیصل آباد جیل میں ہوئی تھی تو اس سے پہلے فیض کے گھر والوں کی بہت خراب حالت تھی اور پھر جیل میں جب مقدمہ چل رہا تھا تب کس قدر پریشانی تھی تو پورے پاکستان سے جو لوگ جبری گمشدہ ہیں جن میں بلوچستان کے بلوچوں کی تعداد تو باقی صوبوں اور علاقوں سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے معاشی و سماجی حالات باقی علاقوں کے جبری گمشدگان کے خاندانوں کی اکثریت کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہیں تو ان خاندانوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟ ہم تو بس چند تصویروں اور چند ایک وڈیو کلپ سے واقف ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہیں- یا کوئی مجھ جیسے درجن بھر لوگ ہونگے جو ان کے کراچی اور کوئٹہ میں لگے کیمپوں میں پہنچے ہوں گے کو تھوڑا زیادہ معلوم ہوگا، لیکن یہ کتنی بڑی مصیبت اور وبال ہے، اس کی شدت کا بہت کم لوگوں کو اںدازہ ہوگا- ایلس فیض اور ان کی بیٹیوں، ماں اور بڑے بھائی کو یہ معلوم رہا کہ فیض کونسی جیل میں ہیں اور ان سے ملاقاتیں بھی جاری رہیں- اگرچہ فیض کو جیل میں اپنے بڑے بھائی طفیل کی موت کا صدمہ سہنا پڑا- ان کو اپنی انتہائی گہری دوست اور ان کو ترقی پسند تحریک میں لانے والی کامریڈ ادیبہ ڈاکٹر رشیدہ جہاں کی موت کا صدمہ سہنا پڑا اور وہ ان کی تعزیت کرنے ہندوستان جا نہ سکے- فیض صاحب اس لحاظ سے تھوڑے خوش قسمت واقع ہوئے کہ ایک طرف تو انھیں حسین شہید سہروردی، محمود علی قصوری جیسے وکلا میسر رہے اور دوسری طرف جب اسکندر مرزا ان کے درپے تھے اور ان کی رہائی میں روکاوٹ ڈال رہے تھے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنھوں نے ایوب خان سے اپنی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیض صاحب کی رہائی کا سامان کیا- فیض صاحب لاکھوں پاکستانی عوام کی محبتوں کا مرکز بھی تھے- کوئی شبہ نہیں پاکستان کی ایلیٹ اور مڈل کلاس کے ہائی رینکس میں مرد و عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی شاعری کی دیوانی تھی- اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی رہائی کے لیے آوازیں بلند ہورہی تھیں- لیکن آج اکثر جبری گمشدگان فیض جیسی قسمت لیکر پیدا نہیں ہوئے ہیں- پاکستان کی کسی عدالت سے ان کو انصاف نہیں مل رہا ہے- یہاں تک کہ کئی ایک جبری گمشدہ تو ایسے ہیں جن کی جبری گمشدگی کے بعد ان کے ہاں بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہوئی اور نہ انہوں نے اور نہ ان کے بیٹے یا بیٹی نے اپنے باپ کی شکل دیکھی ہے- اور کئی بلوچ “بیٹے” اور “بیٹاں” ایسی ہیں جو اب نوجوانی کی سرحد میں قدم رکھ رہے ہیں اور اپنے باپ کی واپسی کے منتظر ہیں- نجانے کب پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کا خواب پورا ہوگا- کب بنیادی انسانی حقوق کی پامالی سنگین جرائم میں شمار کرکے ذمہ داران کو سزا دی جائے گی-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر