نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جہاں دانہ ’خاکی‘ سے مل کر گل و گلزار ہوتا ہے ۔۔۔مطیع اللہ جان

شہباز شریف اور آصف زرداری صاحب کے ساتھ وہی ہوا ہے، جو ’عوامی مینڈیٹ کا بار بار سودا‘ کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

مطیع اللہ جان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہباز شریف اور آصف زرداری صاحب کے ساتھ وہی ہوا ہے، جو ’عوامی مینڈیٹ کا بار بار سودا‘ کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

یقین کیجیے! شہباز شریف صاحب شاید اب بھی سمجھتے ہوں گے کہ وہ وزارت عظمیٰ سے مزید قریب ہو گئے ہیں کہ دانہ ‘خاکی‘سے مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کا شکریہ! ان کی سیاست و قیادت مزید ‘کتنی تبدیلی‘ لے کر آتی۔ لوگوں کا کیا ہے کہنے دیں، لوگوں کی اپنی مجبوری ہے۔ آج کل تو بس پس پردہ ملاقاتوں کا چرچا ہے۔ عمران خان کی ان ملاقاتوں پر بطور وزیراعظم بے پروائی اور خاموشی ان کے سیاسی اور جمہوری سوچ و افکار کی عکاس بھی ہے۔ کہاں وہ ‘پردہ رکھنے والے‘ سیاسی رہنما، جو بظاہر عوامی ووٹ سے اپنی سویلین حکومتوں کی ‘اصلی طاقت‘ کا نام لیتے شرماتے تھے اور کہتے تھے ‘ہم با اختیار ہیں اور عوام کی طاقت‘ سے آئے ہیں۔ اور کہاں اب عمران خان صاحب کی خود ‘اپنی حکومت‘، جس کی بالا دستی کا بھانڈا خود ‘طاقتور ادارے‘ نے پھوڑ دیا ہے۔

یوں تو مرحوم محمد خان جونیجو بھی اپنی حکومت کو جمہوری حکومت کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن موجودہ حکومت کے معروف وزیر شیخ رشید آج کل بڑے فخر سے اپنی اور عمران خان صاحب کی ‘سیاسی بالادستی‘ کی تشہیر ہر دوسرے ٹی وی چینل پر کرتے پائے جاتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل اسلم بیگ کے مشہور ساتھیوں حمید گل اور اسد درانی کی فائلوں کو جھاڑ پونچھ کر ایک بار پھر شیخ صاحب کے سامنے رکھا جا رہا ہے مگر ظاہر ہے ترجمے کے ساتھ۔

سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ اب اس حکومت سے بھی ‘بڑے ادارے‘ نے برملا اپنی ‘مرکزی سیاسی حیثیت‘ کا اقرار کرواتے ہوئے کچھ سیاسی ملاقاتوں کا حال بزبان خود ساختہ فرزند راولپنڈی بیان کر دیا ہے۔ شیخ رشید صاحب کی فرمانبرداری اپنی جگہ لیکن اب فوج کے ترجمان کی طرف سے ایسی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی سرکاری طور پر تصدیق کے بعد ایک ووٹر کو اپنی ووٹ کی پرچی کی ساتھ، جو اصولی طور پر کرنا چاہیے، وہ ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔

پہلے تو ہم جیسے بھی افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے احترام میں آرمی چیف کا ذکر کرنے سے گریز کرتے تھے مگر اب جبکہ فوج کے ترجمان نے ازخود ہی بات نکالی ہے تو اسے ابھی بھی احترام کے ساتھ ذرا دور تک لے جاتے ہیں۔ ان دیکھی چائے اور بسکٹوں کا ذائقہ ابھی منہ میں باقی ہے۔

جمیعت علمائے اسلام کے مولانا غفور حیدری کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں کہا کہ فوج نواز شریف کے ساتھ، جو کر رہی ہے، مولانا کی جماعت اس کے بیچ میں نہ آئے۔ اب غفور حیدری صاحب کے اس بیان کا جواب ملکی سلامتی و دفاع کے ترجمان کی طرف سے آنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔

جو ‘بیت بازی‘ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے سے شروع ہوئی، اس کا اختتام آخر کہاں جا کر ہو گا؟ اعلامیے میں تو محض ‘فوج اور خفیہ اداروں کی سیاست میں مداخلت ختم کرنے کا ایک معصومانہ مطالبہ‘ کیا گیا تھا۔  فوج کے ترجمان کی طرف سے ‘جوابی شعر‘ نے تو نہ صرف اس مداخلت کے ثبوت فراہم کر دیے بلکہ یہ بھی ایک طرح سے واضح کر دیا کہ ایسا سب کچھ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

خوابوں میں بھی امریکا اور برطانیہ کی مثالیں دینے والے وزیراعظم اور ان ملکوں میں ’کورسز کرنے والے‘ وہ حالیہ واقعہ بھول گئے، جس میں امریکی افواج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے ٹی وی پر آ کر قوم سے محض اس لیے معافی مانگی کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے ایک ہجوم کو صدر ٹرمپ کے راستے سے زبردستی ہٹانے کے دوران وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تصاویر میں نظر آ رہے تھے۔

عوام پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کے قتل کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی بے رخی پر احتجاج کر رہا تھے۔ جنرل مارک ملی کے مطابق ہجوم کو منتشر کرنے کے دوران ان کا تصاویر میں صدر ٹرمپ کے ساتھ نظر آنا ان کے سیاست میں ملوث ہونے کا تاثر دے رہا تھا، جس کے لیے وہ امریکی عوام سے معافی مانگتے ہیں۔

ہمارے اعلی افسران امریکا کے دفاعی اداروں میں کورسز کے بعد پاکستان میں اعلی عہدوں پر ترقی تو پا لیتے ہیں مگر اس سوچ اور فکر کا مظاہرہ نہیں کرتے، جو امریکا یا برطانیہ کے اعلی عسکری قیادت کا طرہ امتیاز ہے۔

ہماری قوم کی اوقات تو یہ ہے کہ چند سیاستدانوں کے ذریعے ٹی وی پر سیاست اور جمہوریت کا چہرہ ‘داغدار‘ کیا جاتا ہے۔ ایسے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر اپنے حلف کے برخلاف سیاسی سرگرمیاں کی جاتی ہیں اور جب کوئی اس پر صدائے احتجاج بلند کرتا ہے تو ان کے خلاف ‘غداری اور ملک دشمنی‘ کے مقدمات بنائے اور ان میں سزائیں سنائی جاتی ہیں، جرات مند ججوں کو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔

ایسے میں وزیراعظم عمران خان کتنے فخر سے کہتے ہیں کہ اپوزیشن فوج کے اس لیے خلاف ہے کہ فوج ان کی کرپشن پکڑتی ہے۔ کیا اسی منطق پر عمران خان کی بطور سیاستدان اور وزیر اعظم فوج سے محبت کو بھی پرکھا جائے گا؟ مجھے تو یہ مجبوری یا کمزوری لگتی ہے، جو ایک وزیراعظم کو ایسے بیانات کی طرف راغب کرتی ہے۔

مجھے ایسے وزیراعظم کے نزدیک عوام کے ووٹ کی پرچی کی اہمیت بہت کم لگتی ہے، جن کے نزدیک کسی آرمی چیف سے ملاقات ہی اقتدار کا واحد راستہ ہو۔ یہ سوچ ماضی میں ان کے سیاسی مخالفین نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتوں کی بھی رہی ہے، جن کو دیر سے سہی مگر اب شاید سمجھ آ گئی ہو یا شاید اب بھی نہ آئی ہو۔ شاید اس لیے کہ بلاول بھٹو ابھی بھی صرف شیخ رشید کی سطح پر آ کر ردعمل دے رہے ہیں، جن کی عدم موجودگی میں وہ شاید آرمی چیف سے اب بھی ملاقات کے لیے تیار رہیں گے۔

اسی طرح شہباز شریف کے لیے بھی آرمی چیف سے ‘وہی والی قومی سلامتی‘ سے متعلق ملاقات میں کوئی حرج نہیں۔ تو یہ ہے ہماری قومی سیاسی قیادت، جس کو بار بار ‘اس کی اوقات‘ یاد دلائی جاتی ہے۔ اب تو آرمی چیف سے ہی اپیل کی جا سکتی ہے کہ ایسی ملاقاتوں کے لیے ملاقاتیوں کا کچھ تو معیار مقرر کر دیں اور اگر ایسے ملتے رہنا ہے تو پھر وزیر دفاع پرویز خٹک صاحب کا کیا قصور ہے؟ بس ایک بار دفتر میں بلا کر اپنے ٹیبل کی سامنے والی کرسی پر بیٹھا کر آئی ایس پی آر سے تصویر جاری کروا دیں۔ یہ حسرت تو نہ رہے گی کہ ہمارے ایٹمی ملک پاکستان کے وزیر دفاع کو آپ نے کبھی ملاقات کے قابل ہی نہ سمجھا۔

وزیر اعظم صاحب کا حکم بھی تو شاید سویلین افسران پر زیادہ چلتا ہے۔ اسی لیے صرف ان کو فوجی افسران سے براہ راست رابطوں سے روکا گیا ہے۔ اب خان صاحب کیا افواج پاکستان کے سربراہان کو وزیر دفاع پرویز خٹک کی موجودگی میں یا کم از کم وزارت دفاع کے ذریعے ہی سیاستدانوں سے ملاقات کا پابند بنائیں گے؟ اور اگر بلاول بھٹو اور شہباز شریف کو آرمی چیف سے ‘قومی سلامتی‘ کی بابت ملنا ہو گا تو انہیں پرویز خٹک صاحب کی اجازت درکار ہو گی؟ اگر نہیں تو افسر شاہی کے لیے مذکورہ کاغذی حکم ناموں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

آخر میں میری یہ تجویر ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اگر اپنی اور عوام کے ووٹ کی ‘اتنی عزت‘ کروانے کے بعد بھی فوج یا اس کے نمائندوں سے ‘قومی سلامتی‘ کے نام پر وزیر دفاع اور وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں ملاقاتوں پر تیار ہیں، تو پھر جیل جاتے چیخیں نہ ماریں۔

About The Author