عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اندازہ ہوشمندوں کو تھا اور جو کچھ نوشتہ دیوار ہے اُسے بھانپنے کے لیے کسی بھی سائنس کی ضرورت نہیں۔
پہلی بار ہے کہ ملک کی گیارہ چھوٹی بڑی جماعتیں ایک بیانیے پر کھڑی ہیں۔ سندھ کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی، پنجاب کی بڑی جماعت ن لیگ، خیبر پختونخواہ کی بڑی جماعت جمعیت، عوامی نیشنل پارٹی اور یہاں تک کہ کم عرصے میں نوجوانوں میں جلد جگہ بنانے والی پشتون تحفظ تحریک، بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی جماعت، نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتیں ایک چھتری تلے آ کھڑی ہوئیں ہیں۔
یہ بھی پہلی بار ہے کہ یہ جماعتیں نا صرف اکھٹی ہوئیں ہیں بلکہ ان کا بیانیہ بھی ایک ہے۔ یہ بھی کہ بیانیہ حکومت مخالف ہر گز نہیں ہے۔ یہی وہ اطمینان ہے جو حکومتی صفوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
سیاست کے کھلاڑی اپنی اپنی اننگ کی تیاریوں میں ہیں۔ رنگ میں اترنے سے قبل دونوں اطراف دشمن کو للکارا جا رہا ہے، اور اس بار کھلائے جانے والے کھانے اور پلائی جانے والی چائے تک زیر بحث آ گئی ہے۔
بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لال حویلی کے شیخ صاحب مدد کو نکلے ہیں لیکن وزیراعظم خاموش۔ وزیراعظم مطمئن بھی ہیں اور بے فکر بھی اور ہوں بھی کیوں نہ۔۔۔ آخر اُن کے پیچھے کھڑے ادارے اُن کے محافظ ہیں۔
پہلی بار یہ بھی ہو رہا ہے کہ دفاع کے لیے لائی جانے والی حکومت مدافعت کے لیے دفاعی ادارے کو استعمال کر رہی ہے اور ادارہ اپنے دفاع میں مدافعانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ سیاسی حکومت رابطہ کار پُل نہیں بلکہ قطع تعلق ہے اور نتیجہ عوام اور ادارہ آمنے سامنے ہیں۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کل جماعتی کانفرنس سے اگلے ہی دن کابینہ ڈویژن کا اعلامیہ جاری ہوتا ہے جس میں وزرا اور وفاقی سیکرٹریوں کو پنڈی کو براہ راست رپورٹ کرنے کی ممانعت کی جاتی ہے۔
اور یہ امر بھی اس طور کیا جاتا ہے کہ 1977 کے آئین کے تحت وفاقی سیکرٹریز صرف بالواسطہ طور پر وزارت دفاع کے تحت کام کرنے کے پابند ہیں۔ صحافی سہیل اقبال بھٹی اس پر تفصیلی خبر دے چکے ہیں۔
یوں تو پہلی بار یہ بھی دیکھنے کو آرہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک ایسا بیانیہ لے کر عوام کے پاس جا رہی ہیں جو حکومت مخالف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے اور پہلی بار یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ وسطی پنجاب میں وہ بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔
خیر اب اس بارے اور کیا کہا جا سکتا ہے شاید پہلے پہلے پیار میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اب ہو گا کیا؟ گوالمنڈی کے نواز شریف، نواب شاہ کے آصف زرداری، ڈیرہ اسماعیل خان کے جہاں دیدہ مولانا فضل الرحمن کسی ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔ طاقت کے مراکز کا جلد بازی میں کیا گیا کوئی بھی فیصلہ مزید انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک جانب کپتان اپوزیشن سے کسی بھی طرح کی نرمی برتنے کو تیار نہیں تو دوسری جانب حز ب اختلاف نے چومکھی لڑائی کی تیاری کر لی ہے۔
تمام نگاہیں مارچ میں سینٹ انتخابات پر مرکوز ہیں مگر اس سے قبل اپوزیشن عام انتخابات کے اعلان کا مطالبہ کر سکتی ہے اور امکان موجود ہے کہ نواز شریف دسمبر یا جنوری میں وطن واپس آئیں۔ اگر ایسا ہوا تو اپوزیشن مزید مضبوط ہو گی اور بیانیہ بھی۔
یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ارباب اختیار دو انتہا پسند بیانیوں میں پھنس گئے ہیں۔ اس کا حل کسی ایک کے پاس ہی ہے کہ یا تو ملک کو اس بے یقینی سے نکالا جائے یا یوں عوامی بیانیے کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا جائے جس کا نتیجہ مذید انتشار ہی ہو گا اور ریاست اس کی متحمل کیسے ہو سکتی ہے۔
فیصلہ ساز قوتوں کا اس چومکھی لڑائی میں سب کے سامنے کھڑا ہونے سے گریز ہی ریاست کے لیے اہم ہے۔ کیا سیاسی حکومت عوام اور ریاست کے درمیان پیدا ہونے والی یہ خلیج پاٹنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ