ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے پاکستان کی اصلاح کا اگر بغورجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی نئی اصلاح نہیں ہے۔ یہ بھی سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کا تسلسل ہی ہے ۔تھوڑا سا
پاکستان کی سیاست میں جنرل ایوب خان کے دور حکمرانی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔جب بھی کبھی سیاسی دور حکومت اور فوجی عہد کا موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ فوجی عہد جنرل ایوب خان کا ہوتا ہے۔ایوب خان کے عہد حکمرانی کے دس سال پورے ہونے پر ایک جشن منایا گیا جو کم وبیش ایک سال تک جاری رہا۔سرکاری دفاتر ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور ابلاغ کے دیگر زرائع سے ایک ہی نعرہ
The Great Decade Of Development and Reform
زبان زد عام رہا۔
ایک سال تک ایوبی عہد کے کارنامےعوام کو سناے گئے۔فیلڈ مارشل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک جنگ شروع ہوگئی۔ایک سے بڑھ کے ایک قصیدہ خواں نے اپنے جوہر دکھاے۔اخبارات نے جنرل ایوب کے دس سالہ دور حکومت کو مافوق الفطرت ثابت کرنے کے لیئے خصوصی ایڈیشن شائع کیے۔اس عہد زریں کے فضائل بیان کرنے کے لیے وہ شور اٹھا کہ الامان کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی بالکل ویسے ہی جیسے دو سال قبل نئے پاکستان کے نعرے کے شور نے عوام کو کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کردیا۔جس طرح موجودہ عہد میں نئے پاکستان کے فضائل عام آدمی کو سمجھ نہیں آرہے بالکل اسی طرح اس دور میں بھی عوام کی حیرانی دیدنی تھی۔
حالات کی بدقسمتی دیکھیےجب جنرل ایوب کے قصیدہ خواں عوام کو گزشتہ دس سال میں ہونے والی ترقی کے متعلق بتانے اور سمجھانے میں مصروف تھے اس وقت ہی روزمرہ کی اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔دال، چاول، آٹا اور چینی سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام کو مشکلات سے دوچار کردیا۔بات صرف مہنگائی پر نہیں رکی بلکہ ان بنیادی ضروریات کی قلت بھی شروع ہوگئی۔آٹا اور میدہ کی قیمتوں میں اضافہ پر کراچی میں بیکری والوں نے بطور احتجاج ایک دن کی ہڑتال کردی۔اسی طرح چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور قلت کے سبب کراچی اور لاہور میں راشن بندی کردی گئی۔راشن بندی کے اس فیصلے پر مرکزی وزیر تجارت نواب عبدالغفور خان ہوتی پر بہت سی الزام تراشیاں ہوئیں اور عوام نے ان کو چینی چور کا لقب دے دیا۔
قارئین نئے پاکستان کے حالات کا موازنہ ایوبی عہد سے کریں اور سوچیں کہ کیا فرق ہے ۔کم وبیش وہی حالات عوام کو آج بھی درپیش ہیں جو کہ جنرل ایوب کے دور میں درپیش تھے۔اس دور میں بھی چینی چور حکومتی اہم وزیر تھا اس بار بھی عوام کی نظروں میں چینی چور اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ایوبی عہد اور نئے پاکستان میں چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ان ادوار میں ہونے والی کسی بھی ترقی کی نفی کرنے کا جواز رکھتی ہیں۔جنرل ایوب کے دس سالہ دور حکمرانی اور کپتان کے دور حکمرانی میں ایک فرق بہرحال موجود ہے اور وہ یہ کہ عوامی مقبولیت کا جو گراف ایوب خان نے دس سالہ حکمرانی کے بعد کھویا تھا وہ موجودہ حکومت نے محض دو سال میں کھو دیا ہے۔
حکمران اشرافیہ ان کے سرپرستوں اور خیر خواہوں کو گزشتہ ستر سالوں سے یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ عوام کا مسلئہ آئینی پیچدگیاں نہیں بلکہ روزگار کا حصول اور بنیادی ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ہے۔پشاور بی آر ٹی ہو یا لاہور کی میٹرو ان سے کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرنے والااور نا ہی بے روزگار کو روزگار فراہم ہونے والا ہے۔ملکی ترقی کے لیے یہ منصوبے بھی ضروری ہوں گے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ عام آدمی کو امن وامان ، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولیات سے غرض ہے۔دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کے فیصلہ سے حکومت نے کس کے دل جیتنے کی کوشش کی ہے اس پر ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا۔
مستقبل میں جب بھی موجودہ حکومت کی کارکردگی پر لکھا جائے گا تو یہ بات بھی ضرور لکھی جائے گی کہ یہ شائد اپنی نوعیت کی واحد حکومت تھی جس نے پٹرول کی قیمت کم کرکے بھی عوام کی بددعائیں لیں اور پٹرول کی قیمت بڑھا کر بھی بددعائیں لیں۔اس سے زیادہ بہتر کارکردگی اور کیا ہوگی کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود 55 روپے والی چینی 110 میں فروخت ہونے لگی اور گندم کے خودکفیل ملک کو بالآخر گندم باہر سے منگوانی پڑی ۔روزگار کے انتخابی وعدے پر بنی گالہ سے وزیراعظم ہاوس پہنچنے والے کپتان نے بے روزگاری کو عوام کا مقدر بنا دیا۔پچاس لاکھ گھروں کے وعدے کے برعکس سروں پر موجود سائباں چھن جانے کا ڈر پیدا ہوگیا ہے ۔اور آفرین ہے ایک جوش وجذبے کے ساتھ حکمرانی بھی جاری ہے اور قصیدہ خوانوں کا کامیابی کا شور بھی جاری ہے
شاہ ایران نے ایک بار انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے اردگرد موجود حواریوں نے مجھے کبھی اپنی عوام کے حقیقی حالات نہیں بتائے ہر بار مجھے یہی بتایا گیا کہ ملک میں امن وسکون اور عوام خوشحال ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اپنی عوام سے دور ہوتا گیا ان کے مسائل سے بے خبر رہا۔بالآخر جب مجھے حالات کا علم ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور میں اپنی عوام کو کھو چکا تھا۔یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ اس شاہ ایران کے ہیں جو عوام کے دلوں پر راج کرتا تھا۔مگر جب عوام نے ساتھ چھوڑا تو نا تخت کام آیا اور نا ہی تاج۔بس یہی سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک عوام خوشحال ہے تو اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تخت نشین کون ہے اور جب عوام تنگدستی کا شکار ہوتی ہے تو بھی اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اب تخت نشین کون ہے اور وہ بڑی بے رحمی کے ساتھ تخت اور تاج چھین لیتی ہے۔
نئے پاکستان کے بادشاہو اگر تخت اور تاج سلامت رکھنے ہیں تو عوام کی خبر لو۔عوام کی نئے پاکستان کے بیانیے سے وابستگی آئے روز کم ہورہی ہے اگر بالکل ہی ختم ہوگئی تو پھر کیا ہوگا۔اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں آپ بھلے طاقتور ہوں مگر ابدی حقیقت یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کچھ اور نہیں صرف اور صرف عوام ہے۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر