نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دنوں کے بعد ہفتے کے روز فیس بک کھولی تو وہاں سرمدؔصہبائی نے اپنی ایک تازہ غزل لگائی ہوئی تھی۔ اسے دیکھنے کے بعد رات گئے تک اس کے طلسم میں کھویا رہا۔ مذکورہ غزل نے چونکا دینے کے علاوہ کافی طمانیت اس وجہ سے بھی فراہم کی کہ سرمدؔ صاحب میرے دیرینہ دوستوں میں شامل ہیں۔ کئی حوالوں سے وہ میرے اُستاد نہیں تو ہر صورت رہ نما تو ہیں۔ زندگی میں کچھ نہ کچھ کرنے کی تڑپ کے بے چین دنوں میں بے تحاشہ گھنٹے ان کے ساتھ بیٹھ کر طویل گفتگو میں گزارے ہیں۔ ادب ان ملاقاتوں کا کلیدی موضوع رہا۔ ہمارے مابین ان ملاقاتوں میں انتہائی رنج کے ساتھ اتفاق یہ تسلیم کرنے پر ہوتا کہ شعر و شاعری اور نثر وغیرہ کے حوالے سے ہمارے ہاں فقط اب جگالی ہوتی ہے۔ ذراہٹ کے والے رویے کے ساتھ کوئی نئی بات سامنے نہیں آتی۔
بالآخر میں تو رزق کمانے کی مجبوری سے ہار کر روزانہ صحافت کی نذر ہوگیا۔ سرمدؔصاحب البتہ تخلیقی سفرپر ڈٹے رہے۔ کلاسیکی شاعری کو قطعاََ رد کرنے کے بجائے انہوں نے میرؔ اور غالبؔ کو ازسر نو دریافت کرنے کی ٹھان لی اور اب اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں اساتذہ کے متعارف کردہ اسلوب کے تقاضوں اور ڈھانچوں کی کامل پیروی کرتے ہوئے بھی وہ بات کہنے کا ڈھنگ ڈھونڈ لیا ہے جو آج کے حالات کی بابت مسلسل غور کرتے لوگوں کے ذہنوں پر حاوی رہتی ہے۔ جو غزل میں نے پڑھی اس کا پہلا شعر ہی ’’دائم خزاں‘‘ کا ماتم کرتا ہے جس میں کئی ’’گلستان ٹھہرے‘‘ ہوئے ہیں۔ دوسرا شعر کمال مہارت سے آج کے روایتی اور سوشل میڈیا پر مسلط فروعات وہیجان کا اعتراف کرتے ہوئے ’’آنکھوں سے پنہاں‘‘ مناظر کا ذکر کرتا ہے۔
یہ ’’مناظر‘‘ مگر بیان نہیں ہوا رہے کیونکہ ’’ایک سائے کی تہہ میں سرپٹختی ہے صدا- چشمۂ لب پر ہیں کیا سنگ گراں ٹھہرئے ہوئے‘‘۔ کسی انجانے خوف کے ’’سائے‘‘ میں ’’سرپٹختی صدا‘‘ کی اذیت ہر ہفتے کے پانچ دن صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کی خاطر برداشت کرنا ہوتی ہے۔ سب باتوں کے باوجود فیضؔ صاحب کے بقول ’’وہ بات‘‘ مگر اَن کہی ہی رہ جاتی ہے۔ اَن کہی باتوں کے اس موسم میں چند روز قبل ’’ستاروں کی چال‘‘ کا ذکر ہوگیا تھا۔ امریکہ میں مقیم ایک محقق نے اس جانب راغب کیا۔ بنیادی طور پر وہ اسلامی تاریخ کا طالب علم ہے۔ زیادہ توجہ یہ دریافت کرنے پرمرکوز رکھتا ہے کہ ابنِ سینا، ابنِ رشد یا غزالی جیسے مفکرین کن موضوعات کو کونسے دلائل کے ساتھ اجاگر کرنے میں مصروف رہے تھے۔ فلسفے کا طالب علم ہوتے ہوئے مجھے اس کی تحقیق بہت حیران کرتی ہے۔ میں اسے سوشل میڈیا پر بہت اشتیاق سے Follow کرتا ہوں۔ آج سے چند ہفتے قبل اس نے کافی تحقیق کے بعد یاد دلایا کہ عباسی خلفاء کو 1258سے کئی برس قبل درباری نجومیوں نے تواترسے متنبہ کرنا شروع کردیا تھا کہ مشتری اور زحل جب ایک خاص مقام پر یکجا ہوں گے تو ان کی سلطنت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بالآخر وہ درست ثابت ہوئے۔
ان دو سیاروں کا ملاپ ’’نظام کہنہ‘‘ کے لئے جو بربادی لاتا ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ محقق نے محض یاد دلایا کہ 2020 کے دسمبر میں ایک بار پھر یہ دونوں سیارے یکجا ہورہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ میں نے اس کی تحقیق کو اس کالم میں چسکہ فروشی کے لئے بیان کردیا تو میرے کئی دوست اس گماں میں مبتلا ہوگئے کہ میں شاید ’’ستاروں کی چال‘‘ کو سنجیدگی سے لینا شروع ہوگیا ہوں۔ حقیقت جبکہ یہ رہی کہ میں زحل اور مشتری کے دسمبر میں متوقع ملاپ کا عباسی خلافت کے تناظر میں ذکرکرنے کے بعد ستاروں کی چال کی بابت لاتعلق ہوگیا تھا۔
ذاتی حوالے سے میرے ’’مشتری اور زحل‘‘ گزشتہ دو تین برسوں سے مسلسل ’’ملاپ‘‘ کی حالت ہی میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد جو عالم طاری ہے اسے بھی سرمدؔ صاحب نے اپنی تازہ غزل میں بیان کردیا ہے۔ جو شعر اس کی ترجمانی کرتا ہے وہ کچھ یوں ہے:’’دل پر اب الہام اترتے ہیں عذابوں کی طرح-ہیں سروں پر کیسے کیسے آسمان ٹھہرے ہوئے‘‘۔ میرے دل پر بھی جو ’’الہام‘‘ ان دنوں نازل ہو رہے ہیں وہ ’’عذاب‘‘ اس وجہ سے بھی محسوس ہوتے ہیں کہ انہیں بیان کرنے کا حوصلہ نہیں۔ بہرحال ’’ستاروں کی چال‘‘ کے بارے میں میرے دل میں مبینہ طور پر اُمڈی دلچسپی کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے ایک مہربان قاری نے یوٹیوب کے ذریعے ایک ٹی وی پروگرام بھیجا ہے۔ ایک صاحب ہیں غنی جاوید۔ وہ غالباََ علم نجوم پر اپنی دسترس کے سبب ’’پروفیسر‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ ہر ہفتے ایک ٹی وی نیٹ ورک پر ستاروں کی چال کے حوالے سے ملکی اور غیر ملکی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا۔ مجھے ان کا پروگرام دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔یہ رائے دینے کے لہذا قابل نہیں کہ ستاروں کی چال کے حوالے سے ان کی مہارت کا کیا عالم ہے۔
ان کے تازہ ترین پروگرام کی جو کلپ مجھے وصول ہوئی وہ یہ دعویٰ کررہی تھی کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری سیاست کے حوالے سے فارغ ہوچکے ہیں۔ شہباز شریف بھی اکتوبر کے آغاز سے شدید مشکلات کی زد میں آجائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے لئے بھی راوی ہر گز چین نہیں لکھ رہا۔ 7جنوری2021کے روز سے بلکہ عمران خان صاحب کے لئے گلیاں سنجیاں ہوجائیں گی۔ وہ انتہائی اطمینان سے بہت با اختیار ہوکر اپنی حکومت کی آئینی مدت مکمل کرلیں گے۔ غنی جاوید صاحب کی پیش گوئی نے اس پروگرام کی خاتون اینکر کو بہت شاداں کیا۔ بہت فخر سے انہوں نے انکشاف یہ بھی کیا کہ وہ عمران خان صاحب کی انتخابی مہم چلاتی رہی ہیں۔وہ خوش تھیں کہ ان کی محنت اور لگن رائیگاں ہوتی نظر نہیں آرہی۔اس ملک کا سیاسی سفر مگر 2023 کے بعد بھی جاری رہنا ہے۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا ’’مستقبل‘‘ جاننے کی کوشش ہوئی۔ غنی جاوید صاحب بضد رہے کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال رہ نما کی پیدائش کے دن اور وقت ایک نہیں پانچ طاقت ور ستارے ان کے مخالف گھر میں موجود تھے۔ ان ستاروں کے نام انہوں نے نہیں لئے مگر ’’نحس ستاروں‘‘ کا یہ ہجوم غنی جاوید کو قائل کرچکا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے لئے ملکی سیاست میں اہم کردار کرنے کی گنجائش موجود نہیں۔ علم نجوم سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے میں اس ضمن میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔بلاول بھٹو زرداری کی پیدائش کے دن کے حوالے سے البتہ ایک اہم بات یاد آگئی ۔ وہ ستمبر 1988کے کسی دن پیدا ہوئے تھے۔ اس برس کے مئی میں جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ آئینی اعتبار سے اس برطرفی کے 90 دنوں میں نئے انتخابات ہونے چاہیے تھے۔ جنرل صاحب مگر اس ضمن میں اعلان کرنے کے بارے میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔
اکثر لوگوں کو یہ شبہ ہوا کہ شاید ایک اور ’’ریفرنڈم‘‘ کی بدولت وہ ملک میں ’’اسلامی نظام‘‘ کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے 1973 کے آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن عزیز کے ’’امیر المومنین‘‘ بن جائیں گے۔ جدید زمانے میں اسے ’’صدارتی نظام‘‘ کہا جاتا ہے۔ گومگو کے اس موسم میں اگست 1988آگیا۔ میں ان دنوں The Nation کے اسلام آباد دفتر کا بیوروچیف تھا۔ مجھے خبر ملی کہ جنرل ضیاء کو ’’ایجنسیوں‘‘ نے خبردی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو امید سے ہیں۔ ان کے ہاں بچے کی پیدائش غالباََ نومبر 1988 میں ہوگی۔ ’’ریفرنڈم‘‘ یا ’’نئے انتخابات‘‘ کے لئے لہذا نومبر 1988کا انتظار کیا جائے۔ میری خبر کے ذرائع مصدقہ تھے۔ اسے لکھنے سے لیکن میں جھجک رہا تھا۔کسی بھی خاتون کا حاملہ ہونا مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافی کے لئے ایک بہت ہی ’’نجی‘‘ معاملہ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش کا وقت مگر سیاسی حوالے سے اہمیت اختیارکرچکا تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے محترمہ کی ایک ذاتی خاتون دوست سے رابطہ کیا۔ انہیں ’’اپنی’’خبر‘‘ سنانے کے بعد اس کی تصدیق چاہی اور ساتھ ہی یہ اجازت بھی کہ میں اسے شائع کرسکتا ہوں کہ یا نہیں۔ مجھے نہ صرف اجازت مل گئی بلکہ فرمائش یہ بھی آئی کہ میں چاہوں تو یہ ’’خبر‘‘ کسی غیر ملکی اخبار کے ساتھ بھی شیئر کرسکتا ہوں۔
12 آگسٽ 1988 کے روز The Nation کے صفحہ اوّل پر میں نے وہ خبر چھاپ دی۔ جوش جذبات میں یہ بڑھک بھی لگادی کہ ’’ایجنسیوں‘‘ نے جنرل صاحب کو محترمہ کے حوالے سے غلط اطلاع فراہم کی ہے۔ خبر چھپ گئی تو میری بدقسمتی یہ ہوئی کہ عین ایک روز بعد جنرل صاحب نے ’’نوائے وقت‘‘ اور The Nation کو ایک طویل انٹرویو کے لئے طلب کرلیا۔ میں بھی انٹرویو کرنے والوں کے پینل میں شامل تھا۔ مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے جنرل صاحب نے اپنے طیش پر قابو پاتے ہوئے مجھے بتایا کہ میری لکھی خبر ’’غلط‘‘ ہے۔ میں نے بحث سے گریز کیا۔ انٹرویو کے بعد کھانے کی میز کی جانب جاتے ہوئے لیکن بریگیڈئر صدیق سالک مرحوم سے سرگوشی میں اصرار کیا کہ میری خبردرست ہے کوئی شرط لگالیں۔ بریگیڈئر صاحب نے شرط لگادی۔ میں ستمبر1988میں یہ شرط جیت گیا مگر جنرل ضیاء اور بریگیڈئر صاحب 17اگست کے حادثے کا شکار ہوچکے تھے۔ اس ’’خبر‘‘ کے تناظر میں محض یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری کی پیدائش کا دن ذاتی طورپر اُن کے لئے سعدتھا یا نحس اس بحث سے قطع نظر ان کی والدہ کو وزیر اعظم بنانے کا سبب ضرور ہوا تھا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ