مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنقید سے قبل شاعر کے تعارف کا رواج اور اس سے پیدا ہونے والے کچھ مسائل
1- تنقید کے اردوئی مطالب بُرے بھلے صحیح غلط کی تمیز کے ہیں جبکہ جدید تنقید اپنے معنی پر بھی حملہ آور ہوئی ہے، اس تنقید کا بنیادی مقصد امکانِ متن کی لامتناہیت کو منظرِ عام پر لانا ہوتا ہے اس کا تعلق ہرگز صحیح یا غلط کی پہچان نہیں ہوتا صحیح اور غلط ایک مذہبی تصور ہے اپنی کلیت میں، دوم صحیح اور غلط کی تفریق متن میں اخلاقی تناظر قائم کر دیتی ہے، دوسرے معنوں میں اخلاق بھی ایک کنڈیشن بن جاتا ہے، کسی بھی کنڈیشن کے زیرِ اثر متن کے امکان کو برائے کار نہیں لایا جا سکتا، متن کے تمام تر امکانات قاری و تنقید نگار و تنقیص نگار کی غیر جانب داری میں پنہاں ہوتے ہیں
ہمارے ہاں یہ عجب رواج ہے کہ تنقید و تنقیص بعد میں پہلے شاعر کی دراز قامتی کے نعرے مارے جاتے ہیں اِس سے قاری کے دماغ میں اُس کا بلند مرتبہ قائم ہو جاتا ہے ، یعنی قارئین پہلے ہی یہ طے کر کے پڑھیں کہ وہ جس کو پڑھنے والے ہیں اسکا کوئی ثانی نہیں، یہی سبب ہے کہ قاری کبھی نقاد کے طور پر سامنے نہیں آتا
یہی سبب ہے کہ کتاب خریدنے والے کتاب پر کوئی ریویو یا رائے نہیں دیتے جبکہ یہ انہیں کا فریضہ ہے،
2-امکانِ معنی کی متناہیت و لامتناہیت کا احاطہ زبان کی اُتم پرکھ سے ممکن ہے فروشندہ جتنی زبان آنے کا مطلب اِس تناظر میں صرف اتنا ہے کہ آپ متن سے فروشندگی ہی نکال سکتے ہیں یعنی نقاد کا علم نقاد کی شناسائی جدید و قدیم عہد سے لازم ہے ورنہ وہ کبھی بھی معنی کے ان مکانات تک نہیں پہنچ سکتا جو اپنی اساس میں ہمیشہ تاریخی و ابدی و ازلی ہوتے ہیں،
3- تعارف سے پیدا ہونے والے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اب اُسے مصنف کی خلاقی بیان کرنی ہے جبکہ جدید عہد کے تقاضے خلاقیت کو پسِ پشت ڈال کر نئے معنی کی تلاش سے وابستہ ہیں، یعنی نقاد نے جب یہ کہہ دیا کہ یہ بہت پہنچا ہوا شاعر ہے تو اب اُسے اپنی تحریر میں اسکے پہنچے ہوئے ہونے کے شواہد پیش کرنے ہیں تو وہ شواہد کے طور پر اسکی بنت پر بات کرتا ہے اسکی صنائع و بدائع پر بات کرنا شروع ہو جاتا ہے (بنت صنائع بدائع پر بھاشن شاعر کی ہنر آوری کی تصدیق کے لئے ہوتا ہے ،، اس سے بھی جو قاری کو پہلا تاثر جاتا ہے وہ کنڈیشن کا ہوتا ہے وہ اسکے اس چلن کے باعث اُس شاعر کو ایک مخصوص کنڈیشن کے تناظر میں پڑھنا شروع کرتا ہے اور ہمیشہ کی طرح محدود معنوں تک محدود رہتا ہے
جبکہ امکانِ معنی لامتناہی ہیں "دریدہ کا یہ کہنا کہ متن سے باہر کچھ نہیں ہے یا متن کے سوا کچھ نہیں ہے ” کا یہی مطلب ہے کہ جو معنا ہے متن میں ہی ہے
متن کے اِس درجہ تہہ دار ہونے کی ایک دلیل وہ تمام تر مذہبی کتابیں ہیں جو جدید عہد میں بھی ریلوینسی رکھتی ہیں اور انکی ریلوینسی کی واحد وجہ انکی شرحیں ہوتی ہیں جو ہمیشہ اپنے عہد کے مطابق ہوتی چلی آ رہی ہیں
اِس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ متن میں امکانِ معنی کی ایک ایسی صورتِ حال پنہاں ہے کہ جو عہد بہ عہد جاواداں ہے جسے فناء نہیں ہے
لفظ متروک بھی ہو جائے تو وہ نئے معنی پہن لیتا ہے اور کسی نہ کسی طرح لغات و کتب میں بہتا رہتا ہے
مثال کے طور جو لفظ متروک ہو جاتا ہے اسکے معنی متروک کے ہوتے ہیں
اور جب بھی کوئی متروک کو اکسپلور کرے گا تو وہ لفظ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ دوبارہ نمودار ہو گا
مگر اِس میں حوالہ متروک ہی رہے گا
جاری ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ