اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقع کے عین مطابق اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں حکومت مخالف تحریک چلانے پہ اتفاق رائے کے بعد سیاسی کشیدگی میں شدت آ گئی،حکومتی وزرا کی شعلہ بیانیوں سے قطع نظر طاقت کے مراکز کی طرف سے براہ راست جاری ہونے والے جوابی بیانیہ نے اس جدلیات کی سنگینی کو مزید نمایاں کر دیا،خاص طور پہ شریف خاندان پہ عائد مبینہ سیاسی پابندیوں کو نرم کرانے کی خاطر سابق گورنر سندھ زبیرعمرکی آرمی چیف سے دو ملاقاتوں کی آئی ایس پی آر کی طرف سے تصدیق اسی تناظر کی نہایت اہم پیش رفت دیکھائی دیتی ہے۔
اے پی سی کے فوری بعد نیب کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے دست راست کی گرفتاری کے علاوہ خود مولانا کے نیب میں طلبی نوٹس کی بازگشت نے سیاسی فضا کو پوری طرح سرشار کر دیا،حتّی کہ ریاستی اتھارٹی کے اسی برق رفتار ردعمل نے احتساب کے اداروں کی ساکھ کو گزند پہنچانے کے علاوہ ایک قسم کے منفی تاثر کو جنم دینے میں بھی مدد دی ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ اپوزیشن کی اے پی سی کوئی اتنی بڑی سیاسی سرگرمی تو نہیں تھی جس سے حکومت کو فوری خطرات لاحق ہو جاتے بلکہ اس تحریک کی قوت رفتارکو بڑھانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو مناسب وقت اور وسیع جدوجہد درکار تھی لیکن حکومتی وزراءکی لن ترانیوں اورسرکاری اداروں کے متعین ردعمل نے مہمیز دیکر اسے آناً فاناًً تند و تیز بنا دیا،اس کے علاوہ نوازشریف کی جارحانہ تقریر کی مرکزی دھارے کے میڈیا میں کوریج روکنے کا اعلان اور بعدازاں اس موقف سے پیچھے ہٹنے سے یہی تاثر ملا کہ ذرائع ابلاغ سمیت سیاسی عمل پہ گورنمنٹ کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے،
اندیشہ ہے کہ یہی نفسیاتی پسپائی اپوزیشن پارٹیوںکے حوصلے بڑھانے کا سبب نہ بن جائے،جنرل پرویز مشرف کے آخری ایام میں بھی میڈیا سمیت سیاسی گروہوں کی بے خوف مزاحمت ہی نے بلآخر مطلق العنان آمر کے طاقتور حکومت کو زوال کی دلدل میں دھکیل دیا تھا۔آج وہ باتیں،جنہیں پہلے لوگ سوشل میڈیا پہ ڈالنے سے گھبراتے تھے،مین سٹریم میڈیا پہ ببانگ دہل دہرائی جا رہی ہیں،جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل عبدالغفور حیدری کی طرف سے آزادی مارچ کے دوران فوجی قیادت سے ملاقاتوں کی تفصیلات کا نجی ٹی ویچینلز پہ افشاں اسی رجحان کی نمایاں مثال ہے۔آل پارٹی کانفرنس سے چار دن قبل16 ستمبر کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور دو وفاقی وزراءسمیت کم و بیش ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی لیڈر شپ سے فوجی قیادت کی ملاقات کا ایجنڈا اگرچہ گلگت بلتستان کے متوقع الیکشن سے جڑے نشنل سیکورٹی ایشوز پہ قومی اتفاق رائے کا حصول تھا لیکن بدقسمتی سے سابق وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کے غیر معمولی اثرات نے نشنل سیکورٹی سے وابستہ کوارڈینشن جیسے نازک عمل کو بھی تنازعات کی گرد میں لپیٹ دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی سلامتی پالیسی ملک کو درپیش خطرات کے وسیع تجزیہ اور ان کے تدارک کی جامع منصوبہ بندی پہ محیط رہتی ہے تاہم یہاں قومی سلامتی پالیسی کی تشکیلِ پیہم اور اس پر عمل درآمد کے لئے رہنمائی کا میکانزم ہمیشہ تنازعات میں الجھا رہا کیونکہ بادی النظری میں یہ سیکیورٹی اداکاروں کو سیاسی امور میں گہری مداخلت کا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔اس پوری جدلیات کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے آل پارٹی کانفرنس بلانے کی ٹائمنگ کافی اہمیت کی حامل تھی،
گلگت بلتستان کے مقدر کا فیصلہ ہونے کے موقعہ پہ سیاسی تنازعات کی دھار کو تیز کرنا نہایت سمارٹ مگر خطرناک پیش دستی ثابت ہوئی،چنانچہ اسی اے پی سی کی سرگرانی نے جی بی کے متوقع انتخابات کو زیادہ حساس بنا دیا،اب ہم سب کی بھلائی اسی میں ہو گی کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے بعد ہی وہاں نئے الیکشن کرانے کا منصوبہ تیار کرے بصورت دیگر یہاںجلدی میں کرائے گئے انتخابات کے غیر متوقع نتائج ریاست کی مشکلات بڑھا دیں گے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ اس خطہ میں شفاف انتخابات ہمیشہ قومی تقسیم پہ منتج ہوئے،سنہ1946 کے عام انتخابات تقسیم ہند کا جواز اور سنہ1971 کے منصفانہ الیکشن بنگال کی علیحدگی کا وسیلہ بنے،اس لئے اب جمہوریت کی آبیاری کے ساتھ سیاسی توازن قائم رکھنے کی خاطر ریاست کو نشنل سیکورٹی منجمنٹ کی سائنس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔بالفرض سندھ میں اگر میدان کھلا چھوڑ کے سندھی قوم پرستوں کو سیاسی طاقت کے حصول کی چھوٹ دے دی جائے تو قومی سلامتی کےلئے مہیب مسائل سر اٹھا لیں گے،اس لئے تمام تر قباحتوں کے باوجود وہاں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی برتری مملکت کو سوٹ کرتی رہی۔اسی طرح بلوچستان کے مرکز گریز گروہوں کے لئے اگر سیاسی قوت اور اقتدار تک پہنچنا آسان بنا دیا جائے تو لامحالہ وہ بنگالیوں کی تاریخ دہرا سکتے ہیں
چنانچہ وہاں سیاسی توازن قائم رکھنے کی خاطر مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی سمیت دیگر وفاق پرست گروہوں کا وجود ہمارے لئے کسی غنیمت سے کم نہیں رہا۔گلگت بلتستان میں بھی صورت حال سندھ اور بلوچستان سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہو گی،ہماری سیاست کے قومی دھار میں چونکہ جی بی کی کوئی آواز موجود نہیں اس لئے وہاں کے سیاسی گروہوںکی اصل سوچ سے ہم واقفیت نہیں رکھتے لہذا ہم سب کی بھلائی اسی میں ہو گی کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کے عمل کو ملک میں قومی اتفاق رائے کے حصول کے ساتھ منسلک رکھا جائے کیونکہ الحاق کے عمل کی تکمیل کے لئے صرف جی بی اسمبلی کے انتخابات میں مطلوبہ نتائج کا حصول ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ ان تمام معاملات کو آخر کار پارلیمنٹ میں بھی لانا پڑے گا اورکسی آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے دوتہائی اکثریت لینے کی خاطر پھر انہی دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈرشپ کی حمایت درکار ہوگی جنہیں سسٹم نے منقارزیر پہ رکھا ہوا ہے،
چنانچہ ان حالات میں اتفاق رائے کا حصول پہلے سے زیادہ دشوار ہو جائے گا۔حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ صرف جی بی ہی نہیں پھر آزاد کشمیر کا انضمام بھی ناگزیر ہو جائے گا لیکن ان نازک معاملات کو سلجھانے کی خاطر وسیع تر قومی اتفاق رائے کا امکان بتدریج دور گھٹتا جا رہا ہے۔ہمارے ماحول کی تلخ حقائق یہ بھی ہیں کہ ایک ایسی ریاست،جہاں قومی تعلقات کمزرو ہیں اورجسے وسائل اور انسانی صلاحیتوں کی کمی کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر معاشرتی اور معاشی اکائیوں کی سمت کے تعین کا بحران بھی درپیش ہو۔اب سوال یہ ہے کہ اسے ایک جدید قومی ریاست کے طور پہ کیسے ابھارا جائے،اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہو گی کہ جب فیصلہ سازوں کو علم ہو کہ سماجی و سیاسی ابلاغ کو ہموار بنانے،باصلاحیت رجال کار کی تیاری کا ہدف حاصل کرنے اور قومی کی نظریاتی حدودکا تعین ہمیں استبداد سے نجات دلا سکتا ہے تو وہ قومی اتفاق رائے تک پہچنے میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔
علی ہذالقیاس،اس اذیتناک کشمکش کا ایک مثبت پہلو بھی ہے ،وہ یہ کہ اپوزیش کی سیاسی تحریک جس پہ مذہبی تنازعات کا رنگ غالب دیکھائی دیتا تھا،اب جمہوری نعروں کی نرماہٹ میں ڈھل رہی ہے،بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے حکومت مخالف تحریک کو مذہبی تعصبات کے غلبہ سے بچانے کی خاطرمولانا فضل الرحمں کو قائل کر کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو معمول کے سیاسی وظائف کی طرف لانے میں کامیابی پا لی،بظاہر اس حکومت مخالف تحریک کے غیر مذہبی نام کے تعین پہ اتفاق رائے اور پی ڈی ایم کی تخلیق کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمٰن کے لب و لہجہ میں جمہوریت کی چاشنی ہماری سیاست میں خوشگوار پیش رفت ثابت ہو گی۔جے یو آئی جو شدت کے ساتھ اپنی تحریک کو مذہبی نعروں سے سنوار رہی تھی اب اپنی قوت کو صرف سیاسی جدوجہد پہ مرتکز کر کے قوم کو مزید تقسیم ہونے سے بچا لے گی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ