شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب طبلچی سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آرمی چیف کے ساتھ مریم نواز اور نواز شریف کے حوالے سے ملاقات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں طبلچی اس لئیے کہ ان میں سے کوئی ایک شخص بھی سرکاری ملازم جس نے حلف اٹھایا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اس کے سیاسی معاملات زیر بحث لانے پر اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا مطالبہ نہیں کر رہا جو زورآور ہے اس سے سوال کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اور جس کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے جواب طلب کئے جا رہے ہیں تو اس سے مجھے خلیل جبران کی ایک حکایت یاد آ گئی ہے۔ آپ بھی لطف اندوز ہوں
ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار سمندر کی طرف سفر کرتا ہوا سڑک کے کنا رے ایک سرائے میں پہنچا ۔ وہ اترا اور سمندر کی جانب سفر کرنے والے سواروں کی طرح رات اور انسانیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا۔
رات کے وقت جب تمام لوگ سو رہے تھے ایک چور آیا اور مسافر کا گھوڑا چرا لے گیا۔
صبح وہ آدمی اٹھا تو دیکھا اس کا گھوڑا چوری ہو گیا ہے ۔وہ گھوڑا چرائے جانے پر بیحد غمگین ہوا اور نیز اس بات پر اسے بے حد افسوس ہوا کہ ایک انسان نے اپنے دل کو گھوڑا چرانے کے خیال سے ملوث کیا۔
تب سرائے کے دوسرے مسافر آئے اور اس کے گرد کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے ۔
پہلے آدمی نے کہا کہ
"کیا یہ تمہاری حماقت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا ”
دوسرے نے کہا
"اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی۔”
تیسرے نے کہا
"اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے ”
چوتھے نے کہا
"صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں ”
تب مسافر بے حد حیران ہوا آخر کار چلایا
"میرے دوستو ! کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوا رہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہو گیا ہے لیکن عجوبہ یہ ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کہ متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا۔!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ