ذوالفقارعلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی معاشرے کی اقدار کو تشکیل دینے میں معاشی سر گرمیوں سے وابستہ کار و بار اور اُن کی نوعیت بہت اہم ہوتی ہے۔ آج کی دُنیا میں زیادہ تر کارو بار سرحدوں کے محتاج نہیں رہے جس کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے کار و بار کی ترویج کے لیے اشتہار بازی کا سہارا لیتی ہیں اس مد میں کثیر رقم بھی خرچ کی جاتی ہے۔
اب آئیے جائزہ لیتے ہیں اس کثیر رقم کو خرچ کرنے کے بعد مختلف پراڈکٹ تشہیربازی کے ذریعے کس طرح ہماری سوسائیٹی کے نفسیات کو تشکیل دیتی ہیں اور اُن کا اثر ہماری نفسیات، اخلاقیات اور اقدار پر کس طرح پڑ رہا ہے۔ کسی بھی پروڈکٹ کا اشتہار دیکھیں تو اُس میں ایک چیز بہت کامن ہوتی ہے وہ یہ کہ کمپنی اپنی پراڈکٹ کی خصوصیات کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے بلکہ شدید مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہے۔ مثلاً آپ کسی کمپنی کے باڈی سپرے کے اشتہار کو دیکھیں، جوں ہی آپ اپنی باڈی کو سپرے سے معطر کرتے ہیں تو بہت ساری وحشی حسیناوں کا جمگھٹا آپ پر ٹوٹ پڑتا ہے اور آپ کے لیے جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا حقیقی طور پر ممکن ہے۔
اسی طرح آپ کسی کمپنی کی ڈرنک کا اشتہار دیکھیں تو اس ڈرنک کو پینے کے بعد آپ ٹارزن بن جاتے ہیں اور آپ کے اندر انرجی کی لہر دوڑ جاتی ہے پھر آپ جو کارنامہ انجام دینا چاہیں دے سکتے ہیں مگر وہی برانڈ جب ہم پیتے ہیں تو ہمیں بالکل کوئی انرجی کا جھٹکا نہیں لگتا بل کہ اُس کے مضر اثرات ہوتے ہیں۔
پھر آپ مختلف ڈیٹرجنٹ اور سرف کے اشتہار دیکھیں تو آپ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ ہر قسم کے داغ پناہ مانگتے نظر آتے ہیں اور بچوں کو گندگی کے ڈھیر میں لتھڑا ہوا دکھا کر ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ دو چھٹانک سرف سے کپڑے پہلے سے بھی صاف نظر آئیں گے کیا ایسا حقیقی طور پر ممکن ہے میرا خیال ہے یہ سفید جھوٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
اسی طرح کاسمیٹکس پراڈکٹ کے اشتہار دیکھیں تو آپ کو لگے گا خوب صورتی آپ کی مُٹھی میں بند ہے بس مُٹھی کھولی اور آپ کا چہرہ اور جسم دمکنے اور چمکنے لگیں گے۔
اس خوب صورتی کو حاصل کر لینے کے بعد ہر کوئی آپ پہ مر مٹنے کے لیے بے تاب نظر آئیگا۔ آپ آگے آگے اور محبت کا پیاسا شخص پیچھے پیچھے۔ وہ چاہے تو اُسے سیر کر دو چاہے تو دروازے کی کُنڈی لگا کے اس کو باہر پگھلتا چھوڑ دو۔ کیا ایسا حقیقت میں بھی ہوتا ہے۔ جہاں میں رہتا ہوں ادھر تو نہیں ہوتا بل کہ مختلف کریموں کے مکسچر سے میں نے کئی لوگوں کو جلدی بیماریوں کا شکار ہوتے دیکھا۔
ایسے ہی مختلف کوکنگ آئل سے آپ گھر کے کھانوں کی لذت کو بڑھا کر بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو اپنا فریفتہ بنا سکتے ہیں۔ جونہی آپ آئل یا گھی کا تڑکا لگائیں باقی گھر میں موجود لوگوں کے ناک کے نتھنے پھولنے لگتے ہیں اور وہ دیوانہ وار کھانے پہ لپکنے اور جھپٹنے لگتے ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کو جو میسج جاتا ہے اس کے اثرات کا آپکو شاید اندازہ نہ ہو مگر وہ حقیقی زندگی میں بھیانک طریقے سے آپ پر عیاں ہو گا۔کبھی موٹاپے کی شکل میں کبھی بد تمیزی کی شکل میں۔
اب آئس کریم والوں کے اشتہار دیکھیں تو بہت ہی عجیب قسم کی حرکتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جس طریقے سے آئس کریم کی سٹک کو پکڑ کر منہ میں ٹھونسا جاتا ہے میری توبہ! ولگیریٹی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس سے ہماری اقدار کو کس طرح کی تقویت ملتی ہے اس کا بھی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ موبائل کی کمپنیوں کے اشتہار دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ سیلفی کے جنون میں کیا کیا نہیں کیا جا رہا ہوتا۔ حقیقی زندگی میں یہی سیلفی سیلفی کھیلتے کتنے لوگ اب تک جان سے گئے۔ اگر ہم اُسی موبائل سے سیلفی لیں تو کہاں پچاس میگا پکسل اور کہاں ہماری ٹوٹی پھٹی تصویر۔!
اسی طرح آن لائن خریداری کے نام پہ جو جو دھوکے ہم نے کھائے ہیں الحفیظ الامان۔ جو کچھ دکھایا جاتا ہے جب وہ منگوایا جاتا ہے تو جو دل ناتواں پہ گزرتی ہے وہ وہ جانے جس تن لاگے۔ ایک دفعہ ہمیں بھی آن لائن خریداری کا شوق چڑھا اور ہم نے کچھ شرٹس سلیکٹ کرکے آرڈر بُک کروادیا۔ جب مال وصول پایا اور اُس کو زیب تن کیا تو جو جگ ہنسائی ہوئی بس نہ ہی پوچھو۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن کو ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سُنتے ہیں مگر پھر بھی ہم اُف تک نہیں کرتے۔ ہمارے گھروں میں جھوٹ ہم پہ مسلط کیا جاتا ہے اور ہم اپنی فیملی کے ساتھ دیکھ دیکھ کر اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ دن رات جھوٹ سُننے، جھوٹ دیکھنے، جھوٹ کھانے اور جھوٹ پہننے کے بعد کس سطح پر پہنچے گا یا پہنچ چُکا ہے اس کا اندازہ اپنے ارد گرد کے روزمرہ واقعات و مشاہدات سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ پیسہ کمانے کے لیے ہر قسم کا جھوٹ بولنا ہماری روایت بن چُکا ہے۔ ملاوٹ، دو نمبری، جھوٹ، دھوکا دہی اور بے حسی ہمارے چاروں طرف ہمارا منہ چڑاتی رہتی ہے اور ہم اپنا منہ پھیر کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
دولت کمانے کے لیے اس حد تک جانا اور اس کو بیچنے کیلئے انسانوں کو بطور مال commodity سمجھ کر استعمال کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ ہم سچ مُچ اپنی اپنی وحشتوں کا شکار ہو کر اپنے آپ کو نوچے جا رہے ہیں اور ہماری گلی سڑی لاشوں سے پورا معاشرہ بدبو دار ہوتا جا رہا ہے مگر ہم پھر بھی آواز نہیں اُٹھاتے بل کہ ہمیشہ ایڈجسمنٹ کرکے حالات کو اور خرابی کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ تبھی تو کہیں گدھے کا گوشت بکتا ہے، کہیں مُردار جانوروں کے تیل کی فیکٹریاں پکڑی جاتی ہیں، کہیں آدم خوروں کو ٹی وی کی سکرینوں پر دکھایا جاتا ہے، کہیں تھانوں کے سامنے عورتوں کو شلواروں کے بغیر فریاد کرتے ہوئے چشم کُشا منظر دیکھنے کو ملتے ہیں، کہیں تیزاب کے ڈرموں میں بچوں کی سڑتی گلتی لاشوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، کہیں معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس ہماری روح کو جھنجھوڑتے ہیں، کہیں مریضوں کے گُردے نکال لینے کے واقعے پر ہم کچھ دیر کے لیے پریشان ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں، کہیں دھماکوں میں انسانی جسموں کے چیتھڑے ہوتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں تو کہیں بلیک میلنگ کے قصے سن کر اپنا وقت گُزارتے ہیں۔
یہ سب واقعات کچھ دھائیاں پہلے تو نہیں ہوتے تھے شاید اس وقت مہذب کمپنیوں کی بھوک، ہر چیز کو بیچنے کی ہوس اور کارو بار کی نوعیت اس طرح کی نہ تھی جیسے آج ہمیں بذریعہ اشتہار بازی دکھائی جاتی ہے اور ان کمپنیوں کے پیچھے چُھپا غیر مہذب سرمایہ دار اور اُس کی اخلاقی کجی نہیں تھی۔ جسے ایڈمنسٹریشن توسکھا دی جاتی ہے مگر انسانیت نہیں سکھائی جاتی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ