یونس رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقول مرزا قلیچ بیگ صاحب کے کتاب قدیم سندھ کے صفحہ نمبر 105سے 126 تک سادات کے حوالے سے لکھتا ہے انجو ی شیرازی سید،مشہدی سید،شکر الاہی سید،مازندانی سید،لودہی سید،سبزواری یا عربشاہی یا میر کی سید،عریضی سید،کاشانی سید،رضوی سید، بخاری سید،میرخانی سید، گیلانی سید ،علوی وغیرہ سید سب اصل میں سب عباسی ہی ہیں)
ہند مختلف مذاہب کا گھر ہے، اس سر زمین نے مختلف مذاہب کو اپنی آغوش میں سما ئے رکھا۔ بہت سے مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی مذہب کے ترویج کیلئے برصغیرکا رخ کیا ، ہندوازم کوبرصغیر کےقدیم مذہب میں شمار کیا جاتا ہے، جین ازم، بدھ ازم، عیسائیت، اور مسلمان ، پارسی اور بہت سے مذاہب اور مختلف مذاہب کے فرقوں نے اس سر زمین کا رخ کیا تھا، مسلمانوں کی تاریخ بھی صدیوں تک محیط ہے۔ بنی امیہ اور عباسی حکمرانوں کے منتخب اراکین یہاں پر حکومت کرتے رہے ہیں ، اور باقاعدہ مسلمانوں کی سلطنت کی بنیاد غوری خاندان نے رکھی تھی ۔ برصغیر پر زیادہ تر ترک، منگول، ایرانی خاندانوں نے حکومت کی تھی، اور انہی کے ساتھ مسلمان عالم فاضل بھی آتے رہے، اور اسلام کی ترویج کرتے رہے۔ اور برصغیر کے مختلف علا قںوں میں پھیلتے گئے، آج آپ کو ہند وستان اور پاکستان کے مخلتف علاقوں میں انہی بزرگوں کےمزارات اور نشانات نظر آنے لگے، مسلمانوں کےمختلف طریقت کے بزرگوں نے برصغیرکا رخ کیا، یہاں ایک بات واضع کرتا چلوں کے بر صغیر پر کسی اہلبیت کے آنے کے شواہد نہیں ملتے اگر کسی کے پاس ثبوت ہو تو معاونت فرمائیں، باقی من گھڑت کہانیوں کی کتابیں ہماری پاس بھری پڑی ہیں، ایران ،عراق اور عرب ممالک میں اہلبیت کے مزارات ہیں ۔باقی برصغیر پر مختلف طریقت کے بزرگان دین تشریف لائے،سمرقند میں نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قثم عباس رضی اللہ تعالی عنہ دین کے تبلیغ کیلئےسمرقند تشریف لائے تھے اور ان کے نام کا خانقاہ بھی ہے،اور ان کا مزار بھی سمرقند میں واقع ہے ، جن کو شاہ زندہ کہا جاتا ہے ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں اسی خاندان کے دوسرے افراد کا ذکر کرتا ہے جس کا نام میر غیاث الدین محمد جو کہ سلطان علاالدین ترمشرین کے دور میں سمرقند تشریف لائے، جو بعد میں سلطان محمد تغلق کے دور میں دہلی تشریف لائے تھے، خلافت ہندوستان، تاریخ ہندوستان، تاریخ فرشتہ، سفر نامہ ابن بطوطہ خلہفہ کے آمد پر متفق ہیں، جنت السندھ میں رحیمداد شیدائی مولائی میں لکھتے ہیں کہ سلطان محمد تغلق نے اپنی بہن کی شادی بھی امیر غیاث الدین محمد عباسی سے کرائی تھی اور سلطا ن فیروز شاھ تغلق نے ان کو مخدومزادہ کا لقب دیا تھا اور ملک سیف الدین جن کا تعلق غوری خاندان سے تھا جن کو خداوندزادہ کا لقب دیا تھا۔ اور ہمارے دانشورون نے لال شہباز قلندر کو بہت سے القاب دیے ہیں، مالوہ، کمبات اور گجرات کے پرگنے سلطان محمد تغلق نے خلیفہ غیاث الدین محمد کو عنایت کیے تھے، تاریخ سندھ میں جب امیر تیمور دہلی پر حملہ کرتا ہے تو ہند کے حکمرانوں کودہلی پیش ہونے کا حکم صادر کرتے ہیں تو مالوہ کے بزرگ میر غیاث الدین محمد عباسی جو کہ فیروز شاہ کے دور میں صدر جہاں تھا، جو اس وقت وزیر اعظم کو کہا جاتا ہے،جن کو سندھ کے نام نہاد دانشوروں نے مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں ،جیسا کہ ملا میر، قلندر۔ لال شہباز، عریضی سبزواری، ابولغیث،میر خانی،مرتضی۔خضر خان،غوث اعظم وغیرہ، مالوہ سےدہلی کے طرف روانہ ہوتے ہیں جو سفر دس دن پر محیط تھا، تو میر غیاث الدین محمد عباسی آقا کریمﷺ کے دربار میں اپنی عزت کیلئے التجاکرتےہیں تو دہلی پہنچنے سےایک دن پہلےحضور کریم ﷺ امیر تیمور کے خواب میں آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کے میر ی اولاد کے ساتھ نرمی اور تعظیم کے ساتھ پیش آنا تو جب میر غیاث الدین محمد عباسیدہلی پہنچے توامیر تیمور ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھتے ہیں ، امیر تیمور تمام مقبوضہ علاقا جات امیر غیاث الدین محمد کے حوالہ کر کے چلے جاتے ہیں پر تاریخ اس کے الٹ نظر آتی ہے کیونکہ جن سادات کو دہلی پر قابض دکھائی دیتے ہیں ان کا کوئی حسب نامہ دکھانے میں ہمارے دانشور ناکام نظر آتے ہیں ، تاریخ ملت میں رقمزار ہے کہ سقوط بغداد کے وقت ابوالقاسم احمد مستنصر جب مصر پہنچتے ہیں تو الملک سلطان بیبرس کو جب ان کے آنے کا علم ہوتا ہے تو وہ شہزادہ کو اپنے اپنے محل میں دعوت ویتے ہیں بات یہاں ختم نہیں ہوتی ان کے استقبال کیلئے سلطان کے عمائدین،قاضی و قضا ،بلکہ یہود اور انصاری تک ان کے جلوس میں شامل تھے، ان کے حسب و نسب کیلئے دربار سجایا جاتاہے، مصر کے قاضی القضاۃ تاج الدین ارکان و سلطان کے روبرو ابوالقاسم احمد مستنصر کے نسبت کے بارے میں عربوں سے شہادتیں لیتے ہیں ، شیخ السلام عزالدین عبدالسلام، قاضی القضاۃ قاضی تاج الدین ، سلطان بیبرس اور عمائدنی ابوالقاسم کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں،اور جب میر غیاث الدین محمد دہلی پہنچتے ہیں تب بھی ناصر الدین ترمذی اور بہت سے مشائخ نے مخدوم ذادہ کےحسب و نسب کے متعلق شہادتیں لیں، جب سلطان مطمئن ہوجاتے ہیں توتب جاکر کے سلطان محمد تغلق نے عباسی خلیفہ کو دہلی آنے کہ اجازت دی، اور یہاں پر بات ہی الٹی نظر آتی ہے، خضر خان کو سادات بناتے ہیں اور اس کے حسب و نسب کے متعلق سب خاموش ہیں ، جب ایک عباسی خاندان کے افراد کیلئے اتنی شہادتیں لی جاتی تھی تو اہلبیت کیلئے اتنی خاموشی کیونکر ؟ تبھی آج کل بر صغیر میں ہر اینٹ کو اٹھائینگے تو اآپ کو سادات ملےگا، پر ان کے حسب و نسب کے بارے میں من گھڑت مفروضے ملینگے، اللہ ہمیں ہدایت دے آمین،، اور خضر خان بن ملک سلیمان کا کوئی نام نہیں ملتا ہے کہ وہ کوئی سادات ہو، کیونکہ بقول تاریخ ہندوستان جلد نمبر 3مولانا ذکا اللہ لکھتے ہیں کے خضرخان بن تغلق تیمور خان بن اسینوغ خان بن د ا ودخان بن بسواقتو خان بن موالکان خان بن چغتائی خان بن چنگیز خان تک پہنچ جاتے ہیں دوسراخضر خان علائالدین خلجی کا وزیر تھا، ،اور تاریخ مبارک شاہی ، تاریخ گجرات، ملتان کی تاریخ بھی سادات ظاہر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں،آئینہ ملتان میں خضر خان ملتانی کےنام سےظاہر کرتے ہیں، تاریخ مبارک شاہی میں القاب ایسے دیتے نظر آرہے ہیں جیسے کسی گمنام سپاہی کیلئے القاب ہوں، اگر خضر خان نام کا کوئی فر د تھا تو ان کا حسب نسب بیان کیا جاتا ، کیا نام ہے، کہاں سے آئے،بس سید صاحب نے گواہی دی ہے تو جناب سید صاحب کون تھے جس سید صاحب کا نام بتاتے ہیں وہ تو بقول منتخب التواریخ اور تاریخ فیروز شاہی کے جلال الدین یا جلال خان میر غیاث الدین کے حاحبادے تھے، ، مبارک شاہی میں جناب مخدوم ،سید السادات، منبع السادات، جلال الحق و الشرع و الدین ، بخاری رضی اللہ عنہ،،،،،یہ کس کے طرف اشارہ ہے،کس کیلئے اتنے القاب ہیں،یہاں تک کہ رضی اللہ عنہ تک القاب پہنچ جاتے ہیں،،، یا تو وہ ہستی اتنے رتبے والا ہوگا جو ہمارے دانشور ان کا نام چپانے میں مصروف ہیں، اگراس وقت کے شخصیتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت اتنے رتبے والا ایک ہی شخص نظر آئےگاا ، وہ خلیفہ ابن خلیفہ میر غیا ث الدین محمد عباسی تھا ، وہ بغداد کا ایک عباسی شہزادہ تھا اور نبی کرم ﷺ کے چچا کے اولاد میں سے تھا،تبھی تو امیر تیمور تمام مقبوضہ علاقہ جات میر غیاث الدین محمد کے حوالے کر جاتا ہے اور ان سے رشتہ داری بھی قائم کر لیتے ہیں اپنی بیٹی گوہر شاد کی نکاح امیر تیمور کے چھوٹےبیٹے مرزا شارخ سے کرتے ہیں،یہاں پر ایک تاریخی غلطی ہوئی ہوگی،کہ شرق الملک سلطان محمود کو مبارک شاہ کا بھتیجا ظاہر کر کے،تاریخ مبارک شاہی میں ہے کےمبارک شاہ اپنے بھتیجے شرق الملک سلطا ن محمود الحسن بھکری کو بھکر، ملتان، سیوہن کی گورنری عطا کرتا ہے، بقول ڈاکٹر علینواز شوق کے کتاب میر معصوم بکھری میں سلطان محمود بکھری کا شجرہ کچھ اس طرح لکھتا ہے، سلطان محمود بن حسین خان بن میر غیا ث الدین محمد عباسی ہے تو جن کا خضر خان ے کوئی تعلق نظر نہیں آتا،اور تاریخ بھی خاموش نظر آرہی ہے، کیونکہ تاریخ ہندوستان کے جلد 3 میں اور تاریخ معصومی کا حوالہ ہے کی جب بابر کابل فتح کرتا ہے تو شہر کی چابیاں پدر خواجہ ابوالمکارم ،امیر غیاث الدین کو دے جاتاہے،مطلب کے امیر غیاث الدین محمد اس وقت تک بھی زندہ تھا،تاریخ معصومی میں سلطان محمود میر صفائی میر عدل شیر قلندر بن حسین خان بن غیاث الدین محمد عباسی ہے مطلب حل یہ ہے کہ عباسی خاندان نے ہی دہلی پر حکمرانی کی تھی جن کو سادات کہا جاتا ہے، ، تاریخ ٰ میں خضر خان کو سادات بنا نے سے خواجہ جہاں کی کہانی یاد آجا تی ہے جو سلطان فیروز شاہ کا سسر تھا، جب سلطان محمد تغلق کا انتقال ہوجاتا ہے تو وہ بھی ایک بچے کو سلطان محمد تغلق کا فرزند بنا کر دہلی پر قابض ہوجا تاہےجب اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے تو وہ سلطان فیروز شاہ کے دربار میں پگڑی گلے میں ڈال کر آجاتے ہیں، ہمارے مورخوں کا بھی یہی حال نظر آرہا ہے، جس طرح خلیفہ ابن خلیفہ میر غیاث محمد کے نام کو مخلتف القاب سے نواز کر کے گمنام بنا نےکی کوششیں کی گئی ہیں تو ان کے اولاد ں کے نام بھی تبدیل کر کے ان کو ا ن کے ماوں کے قوم قبیلے اور اور ان کے علاءقے کے نسبت سے لکھتے ہیں بقول مرزا قلیچ بیگ صاحب کے کتاب قدیم سندھ کے صفحہ نمبر 105سے 126 تک سادات کے حوالے سے لکھتا ہے انجو ی شیرازی سید،مشہدی سید،شکر الاہی سید،مازندانی سید،لودہی سید،سبزواری یا عربشاہی یا میر کی سید،عریضی سید،کاشانی سید،رضوی سید، بخاری سید،میرخانی سید، گیلانی سید ،علوی وغیرہ سید سب اصل میں سب عباسی ہی ہیں، سے یاد کیا جاتا ہے، اقوام الدین کو قاضی قادن بن میر غیاث الدین محمد کے نام سے، جلال الدین بن میر غٰیاث الدین کو میر کلاں،سرخ پوش بخاری، میر بزرگ اور بہت سے القاب، میر غیاث الدین اعتمادولہ دوئم کو آدم شاہ سید علی کو سید علی سرمست،احمد یار خان کو احمد بیگ ، محمد یار خان کو یا ر محمد ، میاں حسن یار خان کو میاں نور محمد شاہ ،میاں محمد مرادیار خان کو مرادیاب خان ، ہمارے دانشوروں نے تاریخ کو اتنا مسخ کیا ہے کے تاریخ کو تاریک بنا کے رکھ دیاہے، جو تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کریگی، ڈاکٹر مبارک علی اپنے کتاب "سندھ تاریخ خاموشی کی آواز” میں لکھتے ہیں کہ سندھ کی تاریخ کے تین نقطہ نظر ہمارے سامنے ہیں۔ ایک اسلامی دوسرا قوم پرستی اور تیسرا سیکولر، ان تینوں نظریا ت کی روشنی میں جب تاریخی واقعات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو اس کی تشریح ایک دوسرے سےمختلف ہوجاتی ہے،جس سے پڑھنے والوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کون سی تاریخ سچی ہے اور کون سی جھوٹی، فیصلہ خود کریں،
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ