جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین کرام،، وطن عزیز میں بلاشبہ پولیس کی شہرت کوئی اچھی نہیں ہے.جس کی بہت ساری وجوہات ہیں. یہ ایک علیحدہ موضوع ہے. جس پر پھر بات کریں گے. لیکن اس کا یہ بھی مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پولیس میں اچھی شہرت اور مثبت سوچ کے حامل لوگ نہیں ہیں. بلاشبہ سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کی طرح بہت سارے لوگ ہوں گے جنھیں میں اور آپ نہیں جانتے. پنجاب پولیس کے چند بڑے آفیسران میں اندرونی باہمی سرد جنگ کوئی نئی اور ڈھکی چھپی بات نہیں ہے.عمر شیخ کی لاہور تعیناتی کے ساتھ ہی کچھ سیاسی اور کچھ محکمانہ لوگوں کو بے حد تکلیف ہوئی ہے. ہنوز اندر اندر پیچ دار قسم کی مروڑیں اٹھ رہی ہیں. میری شیخ عمر یا اس کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ ذاتی شناسائی اور میل جول نہیں ہے.لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ میں خان پور ضلع رحیم یار ڄان سے تعلق رکھنے والے شیخ عمر اور اس کے خاندان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا. شیخ عمر ایک شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے اصلاح پسند پولیس آفیسر ہیں. صاف گو آدمی اور قدرے سخت قسم کا مزاج رکھتے ہیں.قانون شکنی اور لاپرواہی پر پولیس ملازمین کو سزا دینے کے حوالے سے شہرت یافتہ ہیں. تحقیقی اور کھوجی قسم کے آفیسر ہیں.اکثر ایسے آفیسرز اپنے علاقے اور رشتے داروں میں عموما بے فیض سمجھے جاتے ہیں.عمر شیخ پولیس میں ریفارمز کے زبردست حامی ہیں. جس کا اندازہ آپ ان کے ان خیالات اور سوچ سے کر سکتے ہیں.
گذشتہ دنوں پبلک نیوز پر روف کلاسرا اور عامر متین کے پروگرام مقابل میں CCPO عمر شیخ کی ایک تجویز بہت زبردست تھی جس کا تعلق پولیس ریفارمز سے تھا ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں عموما مس کنڈکٹ کے اتنے بڑے مالی فائدے لے لئیے جاتے ہیں کہ دو تین ماہ کی معطلی یعنی مع تنخواہ لائن حاضر سے انہیں فرق نہیں پڑتا کچھ کیسیز میں ایس ایچ او نے دو کروڑ روپے رشوت لے کر تین ماہ کی برطرفی کو بہتر ڈیل سمجھا اور تین ماہ بعد واپس آ گیا ۔ اس لئیے صرف ایک اصول کی ضرورت ہے جیسے فوج میں ہے کہ کسی بھی مس کنڈکٹ پر اسے نوکری سے ڈسمس کیا جائے اور کورٹ مارشل کیا جائے تو پولیس میں خود بخود اصلاحات ہو جائیں گی ۔ اگر صرف یہ قانون پاس کر دیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ پولیس گردی میں کتنی حد تک کمی ہو جائے گی.
محمد عمر شیخ کی جانب سے آرمی کورٹ مارشل کی طرح پولیس کورٹ مارشل کی تجویز یقینا وقت کی اشد ضرورت ہے.محکمہ پولیس میں اس طرح کی اصلاحات کیے بغیر اصلاح مشکل ہے. دراصل پولیس کے مسلسل سیاسی استعمال نے نہ صرف ادارے کی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے. بلکہ اس کے خاصی تعداد میں آفیسران اور اہکاروں میں اس سوچ کو جنم دیا ہے کہ وہ ادارے کی بجائے شخصیات کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں. قانون کو موثر اور طاقت ور رکھنے کے لیے قانون کی پاسداری اور اس کی حاکمیت کو فوقیت دینا ہوگی. معاشرے میں جملہ خرابیوں کی روک تھام کرنے کےلیے اور امن و سکون کے قیام کے لیے میرٹ اور انصاف بے حد ضروری ہے. جس چیز کا نام انصاف ہے سچی بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں اس کی خاصی کمی ہے بلکہ بعض اوقات تو فقدان دکھائی دیتا ہے. قانون شکنی کے دادے نظریہ ضرورت نے بڑا بیڑا غرق کیا ہے.
میں اکثر حقائق کی بنیاد پر پولیس کے خلاف لکھتا ہوں.پولیس والوں کے ساتھ دوستی اور میل جول رکھنا بھی میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے.کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس والوں کے ساتھ زیادہ میل جول اور قربت اچھے خاصے آدمی کو آہستہ آہستہ چٹی دلال بنا دیتی ہے. لیکن میں کسی بھی ادارے میں موجود کسی اچھے انسان کے اور اس کی اچھی اجتماعی اصلاحی اور فلاحی سوچ کو اجاگر کرنے میں کنجوسی بھی ہرگز نہیں کرتا.میرے جیسے قلم کے مزدوروں نے سیاست کے لیس دار ماحول کے ان بڑے آفیسروں سے کیا لینا ہے. گذشتہ دنوں موٹر وے زیادتی کیس کے حوالے سے عمر شیخ کے ایک بیان کے ایک حصے پر قوم کی اکثریت ان پر چڑھ دوڑی اور انہیں بہت کچھ کہہ ڈالا. میں عمر شیخ کا ہرگز ہرگز دفاع کرنے نہیں جا رہا. لیکن اتنی ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی شخص کے بیان کو اس کے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اس کے مخصوص حصے کو لے کر کسی پر چڑھ دوڑنے کی سوچ اور رویہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے.اگر غیر جانبدارارنہ طور پر دیکھا جائے تو سماجی و معاشرتی خرابیوں کے ہم سب لوگ ذمہ دار ہیں. کیا معاشرے کے ایک اچھے فرد اور ملک کے ایک قانون پسند شہری کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریاں دیانت داری سے پوری کر رہے ہیں.آزادی اظہار رائے کے حامیوں کو دوسروں کی رائے، خیالات،خدشات، سوالات وغیرہ پر جذباتی غصے کی بجائے تحمل کے ساتھ اس پر غور کرنا چاہئیے. معاشرتی اصلاح کے لیے رویوں میں یہ تبدیلی بھی ضروری ہے.خیر چھوڑیں اس بحث سے بات اور طرف نکل جائے گی. اب تو عمر شیخ نے اپنے بیان کی قوم سے معافی بھی مانگ لی ہے. ہم واپس اپنے آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں.
عمر شیخ نے دو تین روز قبل اپنے آفس میں سائلین کی طرف سے پولیس اہلکاروں سے متعلق دی جانے والی درخواستوں پر متعلقہ اہلکاروں کو طلب کر لیا. ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایماندار محنتی اور فرض شناس آفیسر کو ڈرنے کی ضرورت نہیں. ہمارا کام شہریوں کے مسائل حل کرنا اور ان کی داد رسی کو یقینی بنانا ہے. ناقص تفتیش ناروا سلوک اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی پر کوئی اہلکار معافی کے مستحق نہیں. کچھ مخصوص سوچ کا حامل طبقہ پولیس میں احتساب کو سپوتاژ کرنا چاہتا ہے.
محترم قارئین کرام،، سی سی پی او لاہورعمر شیخ کی یہ آخری بات انتہائی قابل غور ہے. اس کے اندر بہت کچھ آ جاتا ہے.اگر واقعی احتساب حکومت اور حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہے اور وہ کچھ کرنے جا رہے ہیں تو میرا خیال ہے کہ اس چیز کو سپورٹ کرنا چاہئیے نہ کہ مختلف واقعات کا سہارا لے کر احتسابی عمل کے لیے متعین اچھی شہرت کے حامل آفیسران کے خلاف بغیر سوچے سمجھے طوفان کھڑا کر دیا جائے. جھوٹے فریب کار اور کرپٹ لوگوں کی جانب سے اٹھائے گئے اکثر طوفان محض گرد کی مانند اٹھتے ہیں پھیلتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں.
پولیس کو کسی سیاسی جماعت کا تابعدار ہونے کی بجائے صرف اور صرف قانون کا تابعدار، پاسدار اورمحافظ ہی ہونا چاہئیے.حکمرانوں کو اور ہمیں عمر شیخ جیسے ریفارمر سوچ کے حامل پولیس آفیسرز کی قدر کرنی چاہئیے. پولیس اصلاحات وقت کی اشد ضرورت ہیں. سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے بغیر اصلاح بہت مشکل ہے.میرے نزدیک توحقیقی تبدیلی کی بنیاد اور نطقہ آغاز بھی یہی ہے. یہ سو فیصد سچ ہے کہ بہت سارے جرائم میں پولیس کی کالی بھیڑیں شامل ہیں اور کئی جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ان کی پارٹنر شپ ہے.شیخ صاحب تفتیشیوں کو جب تفتیشی اخراجات نہیں ملیں گے تو تفتیشن ناقص ہی ہوگی. بلکہ چمک کی وجہ سے جانبدارانہ ہو جائے گی. لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس ملازمین کے مسائل بھی حل کیے جائیں. تھانے اور تھانے کی گاڑیوں کو مافیاز کے خرچے پر چلانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا.پولیس میں ڈونرز سسٹم بھی نہیں ہونا چاہئیے. جب ہم خرابیوں کو اچھے اچھے لباس پہنا کر بٹھائیں گے تو وہ اور ان کا اثر بڑھے گا . تھانے داروں اور تھانوں کے اندر گُھس بیٹھی مرئی اور غیرمرئی خرابیوں کی کڑے احتساب کے بغیر صفائی اور اصلاح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.محکمہ پولیس کے ارباب اختیار اور حکمرانوں کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کے ان الفاظ کو گہرائی سے سمجھنے اور اصلاح کی ضرورت ہے. ملک میں پولیس قبضہ گروپ بن گیا.افسروں کو معاف کرنے کی روش چھوڑیں.جب پولیس قبضہ گروپ بن جائے تو موٹر وے جیسے واقعات ہوتے رہیں گے.اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو چیف جسٹس کے یہ الفاظ بھی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی سوچ اور کردار سے مطابقت اور ہم آہنگی رکھتے ہیں.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ