ارشد وحید چوہدری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹروے کے اندوہناک سانحے کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ خواتین اور بچوں کے تحفظ کیلئے خصوصی قوانین بنائے جائیں، زیادتی کے ملزمان کو سرعام پھانسی دی جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے خود بھی یہ اعلان کیا کہ جلد ایسا قانون لایا جائے گا جس کے تحت اس گھناؤنے جرم میں ملوث درندوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے، ان کو نامرد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ کیا پاکستان میں ناکافی قوانین مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں تو اس کا جواب قطعی نفی میں ہے، المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں قوانین بنانے والے ہوں یا ان پہ عمل درآمد کرنے والے، تفتیشی افسران ہوں یا عدالت میں بحث کرنیوالے وکلاء، حتیٰ کہ مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز کی اکثریت قوانین سے نابلد ہے جس کا خمیازہ خواتین اور بچوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسا ہی ایک قانون پارلیمان نے اکتوبر 2016میں خواتین اور بچوں کو جنسی درندوں سے محفوظ بنانے کیلئے منظور کیا، اس قانون کو فوجداری ترمیمی قانون (ریپ سے متعلقہ جرائم) ایکٹ 2016کا نام دیا گیا تھا۔ یہ اک جامع اور مؤثر قانون ہے جس میں نہ صرف ریپ اور زیادتی کے ملزمان کیلئے موت کی سزا مقرر کی گئی بلکہ اس میں متاثرہ خاتون، بچے یا بچی کا بیان ریکارڈ کرنے، میڈیکل اور شواہد اکھٹے کرنے سمیت ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس قانون کے ڈرافٹ کی تیاری کیلئے سابق مشیر قانون بیرسٹر ظفراللہ کے ساتھ معاونت کرنیوالے جیورسٹ شرافت اے چوہدری نے بتایا کہ دوسال قبل بلوچستان میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی ایک ورکشاپ سے خطاب کے دوران جب انہوں نے اس قانون کے مختلف پہلوؤں پہ تفصیلی گفتگو کی تو ورکشاپ کے بعد ایک جج نے ان سے استفسار کیا کہ یہ قانون کب منظور ہوا ہے، کہتے میں ہکا بکا رہ گیا اور متعلقہ جج سے پوچھا تو آپ ریپ اور زیادتی کے مقدمات کی سماعت میں کس قانون کا اطلاق کر رہے تھے تو جج نے جواب دیا کہ وہ تو سال 2002کے فوجداری ترمیمی قانون کو سامنے رکھ کرفیصلے صادر فرما رہے ہیں جس پر وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گئے اور جج صاحب کو بتایا کہ وہ قانون تو کب کا ختم بھی ہو چکا۔ جہاں زیادتی اور ریپ کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز کی معلومات کا یہ عالم ہو وہاں عام شہری کہیں کہ ملک میں رائج قوانین ریپ اور زیادتی کے مجرموں کو سزا دینے کیلئے ناکافی ہیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ سال 2016میں پاکستان پینل کوڈ 1860، کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898اور قانون شہادت 1984میں اس قانون کے ذریعے کی گئی ترامیم میں وہ تمام خلا پر کر دئیے گئے تھے جو ریپ یا زیادتی کے کسی بھی ملزم کو سزا سے بچ جانے میں مدد گارتھے، اس قانون میں اس گھناؤنے جرم میں ملوث ملزم کیلئے سزائے موت مقرر کی گئی، جو ترامیم اس میں شامل کی گئیں ان کے تحت متاثرہ خاتون، بچے یا بچی کو مقدمہ درج کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت نہیں بلکہ پولیس خود متاثرہ فریق کے پاس جائے گی، اس قانون میں یہ بھی درج کیا گیا کہ بچی، لڑکی یا خاتون سے زیادتی کی صورت میں پولیس کی خاتون افسر بیان ریکارڈ کرنے ساتھ جائے گی اور متاثرہ فریق کی قریبی عزیزہ کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کیا جائے گا، اس میں ریپ کے شکار کی شناخت ظاہر نہ کرنے پہ پابندی عائد کی گئی اور خلاف ورزی کی صورت میں تین سال کی سزا بھی مقرر کی گئی۔ اس قانون کے تحت ملزمان کو فائدہ پہچانے کیلئے تفتیش میں گڑ بڑ کرنے یا اس میں نقائص چھوڑنے والے تفتیشی حکام کیلئے بھی تین سال قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی۔
عام طور پہ صرف ریپ یا زیادتی کے شکار کا میڈیکل ہوتا ہے لیکن اس قانون کے تحت ملزم کا زبردستی میڈیکل کرانے کا بھی ذکر کیا گیا تاکہ وہ موقع پہ پکڑے جانے پہ شواہد کو ضائع نہ کر سکے، ایسے کیسز میں اکثر کہا جاتا تھا کہ مخصوص ڈاکٹر ہی میڈیکل ایگزامینیشن کریگا لیکن اس قانون میں درج کیا گیا کہ کوئی بھی رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر وقت ضائع کئے بغیر فوری میڈیکل ایگزامینشین کرے گا اور متاثرہ خاتون کی صورت میں خاتون میڈیکل پریکٹیشنر میڈیکل ایگزامینیشن کرے گی۔
اس میں حکومت کی طرف سے متاثرہ فریق کو مفت قانونی امداد کی فراہمی کی شق بھی درج کی گئی ہے جبکہ زیادتی یا ریپ کے ٹرائل کو (ان کیمرا) تین ماہ میں نمٹانے کی پابندی بھی عائد کی گئی جس دوران متاثرہ فریق کا بیان وڈیو لنک پہ بھی لیا جا سکتا ہے، گواہان کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ان کے بیانات بھی وڈیو لنک پہ لینے کا ذکر شامل ہے۔
اسی قانون میں طے کیا گیا کہ عمر قید کی صورت میں شواہد کی بنیاد پہ کم سے کم سزا 10سال ہوگی اور زیادہ سے زیادہ 25سال دی جائے گی اور عمر قید کی سزا کو تبدیل نہیں کیا جا سکے گا جبکہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو بھی چھ ماہ میں نمٹانا ہوگا۔ اس قانون میں زیادتی یا ریپ کرنے والوں کی کیٹیگریز الگ بیان کر کے بھی سزائے موت مقرر کی گئی ہے۔ اب جہاں تک سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ ہے تو قانونی ماہرین کے مطابق اس کیلئے بھی کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں بلکہ جیل مینوئل کے تحت سزائے موت کے مجرم کی پھانسی پہ عملدرآمد کا تمام اختیار جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہوتا ہے ۔
اگر سپرنٹنڈنٹ جیل چاہے تو وہ کسی بھی ملزم کو کسی چوراہے پہ پھانسی دینے کا بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔ سال 2016میں ایکٹ کا درجہ پانے والے اس قانون کی موجودگی میں یہ بحث غیرضروری ہے کہ زیادتی اورریپ کے ملزمان کو سزا دینے کیلئے قوانین موجود نہیں، اصل مسئلہ قانون کا نہیں بلکہ سال 2016میں منظور کیے گئے فوجداری ترمیمی قانون (ریپ سے متعلقہ جرائم) ایکٹ 2016پہ مکمل عمل درآمد کا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ