دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب جُرم بھی فینٹسی بن جائے ۔۔۔عفت حسن رضوی

میرا مشاہدہ ہے کہ جنسی جرائم کے ملزم پکڑے جائیں تو پولیس یا کیمرے کے سامنے ایک جملہ بے ساختگی میں لازمی بولتے ہیں،

عفت حسن رضوی

کوئی مذہب نہیں کہتا کہ تم مرد ہو طاقت رکھتے ہو، کیوں نہ عورتوں اور بچوں کے لیے قہر بن جاؤ۔ لیکن چند جرائم کو مردانگی سے جوڑنا بھی لگ بھگ ہر معاشرے کا حصہ ہے۔

‘میرے نانا ابو کہتے تھے جیل بنی ہی مردوں کے لیے ہے‘ یہ الفاظ لڑکی کو ریپ اور قتل کی دھمکیاں دینے والے ایک ملزم کے ہیں۔ ملزم اپنی وحشت کے ہاتھوں تنگ آکر جو دھمکیاں ذاتی پیغام کی صورت متاثرہ لڑکی کو بھیجتا تھا وہ اب سوشل میڈیا پر گردش  کر رہی ہیں۔ نوجوان ملزم اب پولیس کی حراست میں ہے لیکن اس کے لکھے یہ الفاظ آزاد ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی حقیقت تو یہی ہے۔

گناہ، جرم اور ناقابل قبول کام کی نفی ہر معاشرے میں ہے۔کوئی مذہب نہیں کہتا کہ عورتوں یا بچوں کا ریپ کرو، یا یہ بھی نہیں کہتا کہ تم مرد ہو طاقت رکھتے ہو، کیوں نہ عورتوں اور بچوں کے لیے قہر بن جاؤ۔ لیکن چند جرائم کو مردانگی سے جوڑنا بھی لگ بھگ ہر معاشرے کا حصہ ہے۔ وہ اور بات ہے کہ کچھ معاشروں نے مردانگی کے ایسے اظہار کو قوانین کی بندشوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اک ذرا گرین سگنل دیں پھر دیکھیں کیسے یہ مہذب معاشرے بگاڑکی جانب جاتے ہیں۔

اسلحہ مرد کا زیور ہے تو جیل جانا اس کی مردانگی پر مہر ہے۔ بیوی کا دوست یا مددگار ہونا  کمزور مرد کی نشانی ہے، زن مریدی گالی ہے۔ عورت سے منسلک معاملات میں غیرت کا جوش مارنا بہادری کا مظاہرہ ہے اور طیش میں آ کر غیرت کی وجہ سے قتل تک کر دینا خاندانی روایات کی پاس داری ہے۔ ان معاملات میں روایات و ثقافت اور جرم کے درمیان تھوڑا ہی فرق رہ جاتا ہے۔

بلوں سے تازہ تازہ نکلے سنپولے خود رو تو ہیں نہیں۔ ان کے گھروں میں جھانکیں تو سہی پھر دیکھیں کیسے کیسے سانپ پھن پھیلائے ملیں گے۔ یہ سانپ ایسے والدین کی صورت بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے بے رحمی اور سفاکیت کا زہر اپنے بچوں کو گُھٹی میں پلا رکھا ہے۔ تربیت کا یہ نقص کسی خاص و عام یا امیر غریب کے فرق کے بغیر کہیں بھی موجود ہو سکتا ہے اور ایک سے ہی گل کھلاتا ہے۔

معاشرہ ایسے ہی افراد کا تو مجموعہ ہے۔ ایک جزو کا جائزہ لیجیے،کُل خرابے کی وجہ آپ ہی سمجھ آجائے گی۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی بدقماش بیٹے کی ماں سے اس کے بیٹے کی غیر اخلاقی یا غیر قانونی حرکتوں کا ذکر کیجیے، تو وہ منہ نوچنے کو دوڑے گی۔ جس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کی مجرمانہ ذہنیت کی حوصلہ افزائی کی ہو اس باپ کا رد عمل بھی کیا ہوگا یہ آپ خود تصور کرلیں۔

ریپ کے واقعات پر اتنے واویلے کے باوجود ایک عجیب معاشرتی بے حسی سی ہے۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ  کا بیان، شہباز گل کی مبارکبادیں، شہباز شریف کا اسمبلی میں یہ کہنا کہ جہاں ریپ ہوا وہ موٹر وے نواز شریف نے بنائی، ریپ کے معاملات کی بحث کے دوران ممبر اسمبلی محسن داوڑ کی ذومعنی ہنسی یا پھر اداکارہ عفت عمر کا ریپ کی سزا نامردی پر ہونے والی بحث کو انتہائی گھٹیا مزاح سے جوڑنا، یہ سب وہ  معاشرتی رویہ ہے جو برسوں سے چلا آرہا  ہے۔ جہاں اب تک جنسی جرائم میں کھینچ تان کر کہیں نا کہیں سے عورت کی بدچلنی کی رپورٹ آہی جاتی تھی۔ اور عوت بدچلن ثابت ہوجائے تو مرد کی جنسی زیادتی ایک طے شدہ نارمل ہے۔ آج بھی زنا بالجبر کا واقعہ رپورٹ ہو تو تھانیدار کا پہلا شک عورت کے چال چلن پر ہی ہوتا ہے۔

ریپ کے تمام ملزمان کے بیانات کا ملکی سطح پر کوئی ریکارڈ مرتب ہونا چاہیے۔ ان کے تفتیشی اور بعد میں عدالت کے سامنے دیے گئے بیانات، ریپ کی بیان کردہ وجوہات اور ریپ سے پہلے درپیش حالات سب کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ تاکہ یہ تو طے کرسکیں کہ مجرم ایسے گھناؤنے فعل  کی جانب کیوں آیا۔ کیا صرف مخلوط تعلیمی ادارے ہی وجہ ہیں یا پھر آوے کا آوا ہی بگڑ رہا ہے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ جنسی جرائم کے ملزم پکڑے جائیں تو پولیس یا کیمرے کے سامنے ایک جملہ بے ساختگی میں لازمی بولتے ہیں، ‘سر بس غلطی ہوگئی معاف کردیں‘۔   اتنے بہیمانہ ظلم کو کوئی ‘غلطی‘ کیسے بول سکتا ہے؟ ضرور بول سکتا ہے کیونکہ جہاں عورتوں کو کچلنا معاشرتی طور پر عام سی بات ہو وہاں ان سے جنسی زبردستی کرنا بس غلطی ہی کہلائے گی۔

شہروں سے ذرا باہر  دیہاتوں کی جانب نکل کر تو دیکھیں۔ عورت کی صحت چاہے جواب دے جائے لیکن کثیر الاولاد ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔ گھر میں چاہے فاقے پڑ رہے ہوں لیکن اسلحہ رکھنا ضروری ہے۔ جس کی نظروں سے گھر سے باہر کی عورتیں محفوظ نہ ہوں اُس کا گھر کی عورتوں پر کڑی نظر رکھنا اولین فرض ہے۔ اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر گھر کی لڑکیوں کو بلی چڑھانا ان کی غیرت کی معراج ہے۔ یہ سب کا سب معاشرت کا حصہ ہے اور  معمولی سی باتیں ہیں۔

کتنے ہی معاملات ہیں کہ جہاں معاشرہ کہتا ہے یہ تو ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آرہا ہے، یہ تو کچھ بھی نہیں۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی اب یہی بہتر وقت ہے کہ جرائم کو معاشرتی روایات سے الگ کریں۔ جب ظلم، بے حسی اور سفاکیت کا ہر روپ  مرد کی ذات سے جوڑ رکھا ہو تو ان سے خیر کی امید کیونکر لگائی جائے؟ جب تک اپنی عزت سنبھالنے بلکہ پورے خاندان کی غیرت کی ٹوکری اپنے سر پہ لادنے کا بوجھ صرف عورت پر رکھا جائے گا اور جب تک مرد کی قہر آلود نگاہیں اس کی وجاہت کہلائیں گی، تب تک ہتھکڑی لگنا اور جیل جانا یہاں تک کہ عورت کو  جنسی درندگی کا نشانہ بنانا بھی بعض مردوں کی فینٹسی بنی رہے گی۔

About The Author