نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکمرانو! علاج گاہ کو دنگل گاہ بننے سے بچائیے۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پرائیویٹ ہسپتال مافیا بھی یہی چاہتا ہے کہ شیخ زاید ہسپتال کے معاملات مزید بگڑیں اور وہ پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ کمائی کر سکیں

گرینڈ ہیلتھ الائنس شیخ زید میڈیکل کالج و ہسپتال رحیم یار خان گزشتہ تین ماہ سے 846 سے زائد ڈیلی ویجز اور ایڈھاک ملازمین تنخواہیں نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں. ارباب اختیار اور متعلقہ ذمہ داروں میں سے کوئی تو سنے سمجھے. جو معاملہ اور بات حل ہونے کے قابل ہے اسے حل کیا جانا چاہئیے. شیخ زاید ہستپال کے ہڑتالی ملازمین کا معاملہ تیسرے سے نکل کر چوتھے مہینے میں داخل ہو چکا ہے.اب تو اس میں ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کی طرح نئی روح بھی آ چکی ہے.میرا خیال ہے کہ نہ صرف مریض کے مطلوبہ تمام ٹیسٹ ہو چکے ہیں بلکہ مسئلے اور بیماری کی تشخیص بھی ہو چکی ہے.دوا دینا اور دعا لینا باقی ہے.رحیم یار خان ملازمین کے مسئلے پر حکمران کنجوسی سے کام لینے کی بجائے فراغ دلی کا مظاہرہ کریں. آئیے ذرا ہڑتالی ملازمین کا معاملہ ان کی اپنی زبانی سنتے ہیں.

گزشتہ دنوں سینکڑوں ہڑٹالی ملازمین، ڈاکٹرز، نرسنگ و پیرامیڈیکل سٹاف نے او پی ڈی سمیت ہسپتال کے بیشتر شعبوں میں کام بند کرکے پرنسپل، ایم ایس اور ہسپتال کے مین گیٹ پر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دیا حکومت پنجاب، اور ہسپتال انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کی گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر امجد علی، ڈاکٹر شبیر وڑائچ، پروفیسرڈاکٹرصلاح الدین عربی، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر معین اختر ملک، وائی ڈی کے صدر ڈاکٹر زنیر اعظم، ڈاکٹر عبدالغفارچوہدری، ڈاکٹر عاطف نواز چانڈیہ، اپیکا کے ضلعی صدر چوہدری محمد بوٹا، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف شاہ نے مشترکہ پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ 846 برطرف ملازمین دس پندرہ سالوں سے اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے جنہیں سابق پرنسپل صاحبان نے مختلف ادوار میں سخت ضرورت اور پبلک کی بہتری کے لیے) سیکشن)(9-رول)(16-شیڈول(5-سیریل نمبر 44 پنچاب میڈیکل اینڈ ہیلتھ انسٹی ٹیوشن ایکٹ 2003اور رولز 2003کے تحت بورڈ آف منیجمنٹ شیخ زید میڈیکل کالج/ہسپتال کی قانونی منظوری کے بعدان ملازمین کی اہلیت،قابلیت اور میڈیکل فٹنس جانچنے کے بعدبھرتی کیا۔

گزشتہ دس گیارہ سالوں سے کلاس فور ملازمین کی بھرتی پر پابندی رہی ہے جس وجہ سے گورنمنٹ کی آسامیوں پر کلاس فور ملازمین کی کنٹریکٹ پر بھرتی نہ ہو سکی ہے اسی طرح دیگر کیٹگریز پر بھی بین رہا ہے یا دوران پراسس بین لگ جاتا رہا ہے۔اسی طرح ہمارے ادارہ شیخ زید ہسپتال جو کہ ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تھا جو بعدازاں ٹیچینگ ہسپتال بن گیا اور اس میں شیخ زید میڈیکل کالج کا بھی اضافہ ہوا اور شیخ زید ٹیچنگ ہسپتال جو کہ تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے جس میں نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے کئی علاقوں سے لاکھوں مریض آتے ہیں میئو ہسپتال لاہور کے بعد پنجاب بھر میں شیخ زید ہسپتال کی OPD ہے جہاں روزانہ 10ہزار مریض آتے ہیں حکومتی یارڈسٹک کے مطابق ہمارے پاس گزشتہ پندرہ سالوں سے 1600سے زائد آسامیاں منظور کی ہیں جو خالی پڑی ہیں اور اس وقت بھی 800ملازمین جن میں ڈاکٹرز،سٹاف نرسز،پیرامیڈیکس اور ہیلتھ سپورٹ سٹاف شامل ہیں سٹاف کی کمی ہے اور یہ تمام آسامیاں خالی پڑی ہیں ملازمین جن کو آج تین ماہ ہو چکے ہیں تنخواہیں نہیں ملی تقریبا چار سو سے زائد ڈیلی ویجز ملازمین کو ادارہ اپنے ریسورسز PLAپرسنل لیجر اکاؤنٹ سے دیتا رہا کرونا وباء کی وجہ سے فنڈ ز کی کمی کا بہانہ بنا کر ملازمین کی تنخواہیں اور ایکسٹینشنز ماہ جون سے روک دی گئی تھی۔

جس پر یہ 800ملازمین متاثر ہوئے اور اپنے حق لینے کی خاطر پرامن احتجاج کا راستہ اپنایا جس پر میڈیکل کالج و ہسپتال کی تمام تنظیموں نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی زیر قیادت مجبوراً احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جو جاری ہے اور ملازمین کی بحالی تک جاری رہے موجودہ و سابقہ ممبران اسمبلی آل پارٹیز کانفرنس شہریوں و سماجی شخصیات کی کاوشوں سے ملازمین کی ایکسٹینشنز کے آرڈر تو ہو گئے لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود ملازمین تاحال تنخواہوں سے محروم ہیں محترم ایم ایس ڈاکٹر آغا توحید احمد اور ڈائریکٹر فنانس کلیم اللہ مہر نے 400 ایڈھاک ملازمین کی تنخواہیں بھی روک دی۔اور321ڈیلی ویجز ملازمین کو بھی PLA اکاؤنٹ خالی ہے کہہ کر تنخواہیں بند کر دی گئی۔اور حکومت سے تنخواہیں دینے کے لیے اسپیشل گرانڈ کا فنڈ مانگ لیا۔اور اسی دوران لیٹر بازی کرتے ہوئے بھرتیوں کو ہی غیر قانونی کہہ ڈالا جس کو بعد میں موصوف نے ایکسٹینشنز بھی دے دی۔یہاں سوال یہ ہے کہ اگر فنڈزکی کمی کا ایشو تھا تو یہ کس کی ذمہ داری تھی۔کیا فنڈز کی کمی اچانک ہو گئی کیا ڈائریکٹر فنانس سویا ہوا تھا کیا یہ اس کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ فنڈ کی کمی ہونے سے پہلے حکمت عملی اختیار کیوں نہ کی گئی زرائع کے مطابق پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طارق احمد نے ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ عامر غازی اور ایڈیشنل سیکرٹری فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ آصف طفیل سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ بورڈ چیئرمین کو انفارم کرکے اس فنڈ سے ان ملازمین کو تنخواہیں چلت کر دیں تب تک حکومت کی طرف سے اسپیشل گرانٹ بھی آ جائے گی۔

اس پر پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طارق احمدنے ڈائریکٹر فنانس سے کہا کہ آپ بورڈ چیئرمین کو انفارم کرکے تنخواہوں کے چیک بنا کر لے آؤ میں سائن کر دو تاکہ ان ملازمین ک تنخواہیں دی جاسکیں اس پر ڈائریکٹر فنانس کلیم اللہ مہر نے بور ڈ چیئر مین کو انفارم کیا کہ پرنسپل مجھ سے غیر قانونی کام چاہتا ہے میں ایسے تنخواہیں جاری نہیں کروں گا جب تک بورڈ چیئرمین تحریری منظوری نہ دے دیں اس پر پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طارق احمد نے بورڈ چیئرمین سے بھی بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں شہر سے باہر ہوں میں ایسے فنڈ دینے کی اجازت نہیں دے سکتا اس کے لیے میٹنگ ضروری ہے اور جب میں آؤں گا تو میٹنگ کروں گا اس پر پرنسپل نے کہا کہ مجھے ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا ہے کہ آپ بورڈ چیئرمین کو انفارم کر کے تنخواہیں چلا دیں اگر آپ فارمل میٹنگ چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے حالات بڑے خراب ہیں ہسپتال کی او پی ڈی اور آپریشن تھیٹر بند پڑیں ہیں آپ ویڈیو لنگ میٹنگ کر لیں لیکن اگلے روز ڈائریکٹر فنانس بغیر منظوری اور بغیر اطلاع دیے ہوئے چھٹی پر چلا گیا۔اس کے بعد یہ پتا چلا کہ بورڈ یہ فنڈ تنخواہوں کے لیے دینا ہی نہیں چاہتا۔اگر یہ فنڈ تنخواہوں کی مد میں دے دیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ حکومت اسپیشل گرانٹ روک لے گی ملازمین مسلسل دو ماہ سے سراپا مگر چیئرمین ڈاکٹر تنویر سلیم باجوہ ایک دفعہ بھی ہسپتال چل کر نہیں ائے منیجمنٹ بورڈ بری طرح ناکام ہے حکومت پنجاب بورڈ کو ختم ایم ایس اور ڈائریکٹر فنانس کا تبادلہ کرتے ہو ملازمین کی تنخواہیں فوری چلت کرے ورنہ ایمرجنسی اور آپریشن تھیئٹر بھی بند کر دیں گے

حکمرانو،، ذرا خدا کا خوف کرو. یہ کیسا طرز حکومت ہے کہ تین ماہ سے تین صوبوں کے سنگھم پر واقع شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان میں ایک تماشہ لگا ہوا ہے. ایسے لگتا ہے کہ ذمہ داران اور حکمران تماش بینی سے لطف انداز ہو رہے ہیں. جس شیخ زاید ہسپتال کو ان 846ملازمین کے علاوہ بھی800کے لگ بھگ مزید مـلازمین کی ضرورت ہے.وہاں سے کئی کئی سالوں سے خدمات سر انجام دینے والوں کو بے روزگار کرنے کا کیا جواز بنتا ہے.گذشتہ سے پیوشتہ روز پرامن ہڑتال کو پرتشد بنانے کے پیچھے جن عناصر کا بھی ہاتھ ہے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے.ملازمین کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہئیے.

ہسپتال کو میدان جنگ یا دنگل گاہ بنا کر غریب مریضوں اور عوام کو تنگ نہ کیا جائے. شیخ زاید ہسپتال اور خواجہ فرید انجینئرنگ میں اگر ملازمین کی بھرتی میرٹ کے برعکس اور غیر قانونی ہوئی ہے تو پھر صرف ملازمین کے ایکشن کیوں?. ان کو بھرتی کرنے والی کمیٹی، بورڈ، چیئرمین اور آپوائنٹمنٹ اتھارٹی کے خلاف بھی کاروائی ہونے چاہئیے. انہیں بھی ملازمت سے فارغ کر دینا چاہئیے. یہ کیسا انصاف ہے بھرتی ہونے والے ملازمین فارغ اور بھرتی کرنے والے کھانے پینے پیٹ بھرنے کے بعد پروموشن پا کر مزید موج میلے کریں. ہسپتال کے معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہونے کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں میری پارلیمنٹ کے نمائندگان اور ضلع کی عوامی پارلیمنٹ کے روح رواں علامہ عبدالروف ربانی سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہنگامی اجلاس بلائیں اور اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں. شہر اور عوام ہسپتال کے بگڑتے ہوئے حالات کے متحمل نہیں ہو سکتے.

پرائیویٹ ہسپتال مافیا بھی یہی چاہتا ہے کہ شیخ زاید ہسپتال کے معاملات مزید بگڑیں اور وہ پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ کمائی کر سکیں.پرائیویٹ ہسپتالوں میں پہلے ہی ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے لوٹ مار عروج پر ہے. ایسی ایسی داستانیں موجود ہیں کہ جنھیں سن کر مسیحائی منہ چھپا کر شرماتی ہے. حکمران بھی ٹرخالوجی پالیسی کو ترک کرکے سنجیدگی سے ملازمین کا مسئلہ ہمدردانہ طور پر حل کریں.
لاہور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ آف پاکستان کو شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان میں مسلسل تین ماہ سے جاری اس ہڑتال اور مسئلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ ذمہ داران اور پنجاب کے حکمرانوں کو طلب کرکے پوچھنا چاہئیے کہ یہ تماشا کیوں لگا رکھا ہے. ہپستال کو میدان جنگ کیوں بنا رکھا ہے. ہسپتال کا مسئلہ اب صرف ہڑتالی ملازمین کا مسئلہ نہیں عوامی مسئلہ بنتا جا رہا ہے. یہ مریضوں کی علاج گاہ ہےکوئی دنگل گاہ نہیں.

About The Author