مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب میں گائے کے لئے محبت اور اسے ایک حسین جانور کے طور پر دیکھا جاتا ہے، قربانی کے دنوں میں بھی زیادہ تر لوگوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے جانور کی قربانی کریں جو خوبصورت ہو مگر انکے ہاں خوبصورتی سفید رنگ کا نام ہے یہ ہمیشہ سفید رنگ کے جانور کو خوبصورت سمجھتے ہیں، چنگڑ اوڈ بھیل میگھ اور دیگر اقوام کے سرخ چہروں والے سانولے گلی کوچوں میں دکھائی دیتے ہیں، نسلی و تاریخی طور پر انکی رنگت سیاہ ہے یا سیاہ مائل، سرائیکی کے پُرانے ادب میں محبوب کو سانولا کہا گیا سانولا بنیادی طور پر سیاہ مائل کو کہا جاتا ہے، ساول سبزے اور سبز مائل کو بھی کہا جاتا ہے، سانول داڑھی کے پہلے بالوں کو بھی کہا جاتا ہے، سانول ماتھے کے بھورے اور باریک بالوں کو بھی کہا جاتا ہے، ساول اُس سبزے کو بھی کہا جاتا ہے جو پھوٹ رہا ہوتا ہے ، مگر سانول کے قریب ترین زیادہ حقیقی معنی وہی ہیں جو سرائیکی کے عظیم شعراء بروئے کار لاتے رہے
یہ سیاہ مائل رنگت والے سرخ چہروں سے میری مراد کیا ہے ؟
جب سانولے گورا رنگ کرنے والی کریمیں لگاتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انکے گال اور چہرے سرخ ہو جاتے ہیں بجائے سفید ہونے کے، آخر ان میں رنگت کی یہ احساسِ کمتری کیوں پائی جاتی ہے ؟
گائے جو دودھ بھی کم دیتی ہے جسے پالنا بھی مشکل ہے جس کے نخرے بھی نہیں اٹھائے جا سکتے اس کے لئے اتنی محبت کیوں؟ کیونکہ اسکی رنگت انکی رنگت سے الگ ہوتی ہے، جبکہ بھینس دودھ بھی زیادہ دیتی ہے نازبرداری کرنے کا بھی نہیں کہتی، اور رنگت میں بھی میل کھاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے لئے بھینس ماتا کا کوئی تصور موجود نہیں ۔۔ البتہ گائے ماتا کا ہے
قربانی گاہ میں گائے کی قربانی کو پسند کرنے کی ایک دلچسپ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک یہ ایک مقدس جانور ہے، جہاں اسکے مقدس ہونے کی وجہ سے اسے پسند کیا جاتا ہے، شوق سے پالا جاتا ہے اسکے ساتھ ساتھ اسکا زبح کر دیا جانا کسی نوعیت کا تاریخی غصہ بھی ہو سکتا ہے، اور مذہبی کدورت بھی
دونوں صورتوں میں اچھوت، اور شودروں کے یہ عوامل چاہے اسلامی شکل اختیار کر چکے ہوں مگر انکی وجوہات تاریخی ہی رہتی ہیں، برہمنوں نے ایک ایسے جانور کو مقدس جانور قرار دے دیا جن سے اسکا براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا
جانور پالنا ھل جوتنا ذراعت یہ سب شودروں کا کام تھا، اگر اچھوت اور شودروں میں سے کوئی کسی جانور کو مقدس ترین جانور کا درجہ دینا چاہتا تو وہ یقیاََ بھینس کو دیتا کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر دودھ دیتی ہے، اس کے گوبر سے آگ جلائی جا سکتی ہے، اسکے گوبر کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے،
دودھ کو سرائیکی وسیب ایک مقدس چیز سمجھتا ہے یعنی دودھ کی قسم بہت بڑی قسم ہوتی ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی سر پر قرآن اٹھا لے،
دودھ کیونکہ برہمنوں کے ہاں مقدس تھا اسی لئے شیولنگ کو دودھ پلایا جاتا ہے ۔۔
جو کہ ایک زیان کے سوا اور کچھ نہیں، دودھ کے مقدس ہونے کی وجہ اس کی رنگت ہے کم از کم سانولوں کی دنیا میں تو یہی لگتا ہے
برہمن اور اس سانولی دنیا میں دودھ بھینس کا ہو یا گائے کا دونوں ہی مقدس ہیں مگر جانوروں میں تفریق رنگ و نسل کے اعتبار سے کی جاتی ہے، اور اس تفریق میں سب سے زیادہ پریفرینس گائے کو ہی دی جاتی ہے
اور اسکی سب سے بڑی وجہ اسکی رنگت ہے
رنگت کی احساسِ کمتری کی بہت ساری وجوہات ہیں اس خطے میں سب سے بڑی وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ برہمن شاہی ہے برہمن گورے تھے ہٹے کٹے تھے لاشعوری طور پر یہاں کے لوگوں میں سفید رنگ کے لئے محبت دراصل انہیں لاشعوری مثالیہ قبول کرنے کی کڑی ہے
یہ سانولے گورا ہونا پسند کرتے ہیں یہ سانولے گوروں کی ہر بنائی ہوئی ہر چیز کو بھی اسی لئے قبول کرنا خود پر فرض سمجھتے ہیں کیونکہ لاشعوری طور پر سانولے اسے تسلیم کر چکے ہیں کہ گورا ہونا ہی دیوتا ہونا ہے دیوتا بھی گورے تھے، اور مجھے تو لگتا ہے انکے لاشعور میں یہ بات بھی موجود ہو سکتی ہے کہ گورا ہو جانے کے بعد آدمی دیوتا بن جاتا ہے یعنی جتنے بھی دیوتا تھے وہ دیوتا تھے ہی اس لئے کیونکہ وہ گورے تھے
جاری ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر