دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی کشمکش کی نئی راہیں۔۔۔اسلم اعوان

تاہم گورنمنٹ جمہوری طریقوں سے اپوزیشن کو انگیج کر کے اس تصادم کو ٹال سکتی ہے جو ہمارے ادارہ جاتی نظام اور جمہوریت کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے اتفاق رائے تک پہنچنے کے فیصلے نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بظاہر ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر کی جانے والی متنازع قانون سازی کو پس منظر میںدھکیل دیا ہے۔ گویا اب قوم ایک ایسی غیر معمولی سیاسی کشمکش کی طرف بڑھ رہی ہے جو اگرچہ سیاسی عدم استحکام کو بڑھائے گی لیکن یہی پیش دستی شاید پیراڈیم شفٹ کے تقاضوں کی تکمیل کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں انسانی اقدار اور وسیع تر عوامی مفادات کی نگہبانی کا فرض نبھانے کے برعکس اپنی آخری حقیقت میں ریاستی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مہنگا ترین تنظیمی ڈھانچہ اور بقا کے تقاضے ہمہ وقت انہیں سودے بازی پہ آمادہ رکھتے ہیں؛ چنانچہ وہ اعلیٰ ترین قومی مقاصد کی خاطر جماعتی وجود اور شخصی لیڈرشپ کو قربان کرنے کے بجائے بالآخر ملکی یا عوامی مفادات کو ہی سیاست کی بھینٹ چڑھانے میں عافیت تلاش کرتی ہیں لیکن ہماری سیاست کی ٹرین اُس وقت تک پٹڑی پہ نہیں چڑھ سکتی جب تک اسے پارٹی پالیٹکس کے تقاضوں سے ماورا ہو کے سوچنے والی ایسی دلیر اور بے غرض لیڈرشپ نہیں ملتی جو زندگی کے اعلیٰ ترین مقاصد کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جائے۔ یہ سچ ہے کہ جن لوگوں نے جدوجہد کا ثمر خود اپنی زندگی میں دیکھنے کی آرزوئیں پال رکھی ہوں وہ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے، قوموں کا حوصلہ بڑھانے والے کارنامے وہی لوگ سر انجام دے سکتے ہیں جو پارٹی کے تنظیمی اور شخصی مفادات کے حصول کی خواہش سے بے نیاز ہوں۔
اس وقت عالمی حالات کے تناظر میں ہماری مملکت انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہی ہے، سی پیک کو فنانس کرنے والے چینی بینکوں نے سیاسی عدم استحکام کو جواز بنا کے پروجیکٹ کی فنڈنگ روک دی ہے شنید ہے کہ چینی حکومت سی پیک روٹ کے قانونی تحفظ کی خاطر گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ان دونوں تقاضوں کی تکمیل کے لئے حکومت کو اس حوالے سے اپنے روایتی موقف سے پیچھے ہٹنے کے علاوہ وسیع تر قومی اتفاق رائے کی ضرورت تھی کیونکہ گلگت بلتستان کو مملکت کا جز بنانے کیلئے جی بی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بعد آئین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کے لئے اپوزیش جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی مگر دو سالوں پہ محیط پی ٹی آئی گورنمنٹ کی سیاسی پالیسی نے قومی مفاہمت کے ہر امکان کو بعید تر بنا دیا ہے اس لئے ہموار سیاسی عمل کے ذریعے ان مقاصد کا حصول ممکن نظر نہیں آ رہا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عملاً اِس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں بند گلی تک پہنچ چکے ہیں۔ اِس صورتحال سے نکلنے کے لئے اپوزیشن کے پاس تو مزاحمت کا آپشن موجود ہے جسے آزمانے کی وہ اب ٹھان چکی ہے لیکن حکومت کے پاس طاقت کے استعمال کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں جبکہ طاقت کا استعمال خود حکومت کے لئے مہلک ثابت ہو گا؛ چنانچہ قومی بقا کا تقاضا یہی ہے کہ فریقین آئین و قانون کی چھاؤں تلے بیٹھ کے مسائل کو سلجھائیں بصورت دیگر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا؛ تاہم الجھن یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو اگر پاکستان میں ضم کر لیا گیا تو کشمیر کے ہمارے دیرینہ موقف کو ٹھیس پہنچے گی‘ جس کی جزئیات پہ بحث کرنے کی یہاں گنجائش نہیں؛ تاہم بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت غیر معمولی قوانین کی طاقت کو بروئے کار لا کر آئینی ترامیم کا بل منظور کرانے کی راہ اختیار کرنا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مزاحمت کی راہ اپنا کے حکومتی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب آل پارٹیز کانفرنس سے نواز شریف کا خطاب اُس سپاہی کی للکار تھی جو مرنے سے قبل مدمقابل پہ فیصلہ کن وار کا تہیہ کر لیتا ہے؛ چنانچہ ہرگزرتے دن کے ساتھ اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک سیاسی اضطراب کو بڑھانے کے علاوہ گلگت بلتستان کو مملکت کا حصہ بنانے کے امکانات کو دور کرتی جائے گی بلکہ یہ تنازع ہر روز نئی صورتیں اختیار کر کے حکومت کی مشکلیں بڑھاتا رہے گا کیونکہ میاں نواز شریف نے سیاسی مسئلے کو آئینی تنازعے میں بدلنے کی خاطر جس مشکل راہ کا انتخاب کیا، یہی اس وقت کا مقبول ترین بیانیہ ہے۔ اگر جنوب مغرب کے بعد جی بی اور پنجاب میں بھی سیاسی مزاحمت بھڑک اٹھی تو سی پیک منصوبے اور کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا؛ تاہم گورنمنٹ جمہوری طریقوں سے اپوزیشن کو انگیج کر کے اس تصادم کو ٹال سکتی ہے جو ہمارے ادارہ جاتی نظام اور جمہوریت کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
الیکشن 2018ء میںغیر متوقع انتخابی شکست کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن ہی وہ واحد سیاستدان تھے جنہیں یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ تبدیلی کی یہ نئی لہر ایک مہیب استبدادی نظام پہ منتج ہو سکتی ہے اس لئے پہلے انہوں نے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے روکنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا؛ تاہم وہ حالات کے فعال دھارے کا رخ موڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مولانا کو چونکہ اپنی سیاسی بقا کا مسئلہ بھی درپیش تھا اس لئے عمیق ہزیمت کے باوجود وہ چین سے نہ بیٹھے، حتیٰ کہ دوسری بار انہوں نے تنہا پرواز کے ذریعے مخصوص حالات پیدا کرنے کی کوشش میں اسلام آباد میں دھرنا دے کر حکومت گرانے کی ناکام کوشش کی۔ بدقسمتی سے یہ مشق ان کے لئے ایسا ٹریپ ثابت ہوئی جو ایک طرف انہیں سیاست کے مرکزی دھارے سے جدا کرنے کا محرک بنی اور دوسری جانب مخالفین کے لئے ان کی پُرشکوہ سیاسی قوت کا درست تخمینہ لگانے کا موقع بن گئی۔ لیکن منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح مولانا فضل الرحمن نے تمام تر شکر رنجیوں کے باوجود ملک گیر سیاسی جماعتوں سے ربط و تعلق کو برقرار رکھنے کے علاوہ نہایت تیزی کے ساتھ ناکامیوں کے ان صدمات سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کیے۔ان کی بڑھتی ہوئی فعالیت اس امر کی عکاس تھی کہ کسی نہ کسی دن وہ اپنی تراشیدہ الجھنوں پہ قابو پا لیںگے۔ نادیدہ خطرات کا کامل ادراک رکھنے والے مولانا فضل الرحمن نے سیاسی تنہائی سے بچنے کی خاطر پی پی پی اور نواز لیگ سمیت علاقائی جماعتوں کو بھی خود سے منسلک رکھا اوردو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر وہ حکومت مخالف مزاحمتی تحریک اٹھانے کے لئے بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ علی ہٰذا القیاس، موجودہ سیاسی نظام اور اس کی فریب کاریوں سے قطع نظر ہماری سیاست میں میاں نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن ہی اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کے کسی عظیم مقصد کی خاطر سب کچھ کر گزرنے پہ تیار نظر آتے ہیں اور ان کا جارحانہ کردار ہی آخرکار پیش پا افتادہ اپوزیشن کی قوت بن گیا۔ حیرت انگیز طور پہ ہماری سیاست کے یہ تینوں کردار ایک دوسرے کی مزاحمتی سوچ سے توانائی حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ 2018ء کے جنرل الیکشن کے دوران میاں نواز شریف کے مزاحمتی کردار نے مولانا فضل الرحمن جیسے صلح جو سیاستدان کو برسر میدان آنے کی راہ دکھائی۔ اگر نواز شریف بیٹی کے ہمراہ جیل سے مولانا کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید وہ اس قدر شدت کے ساتھ حکومت سے ٹکرانے کی جسارت نہ کرتے۔ مقتدرہ نے کسی نہ کسی طرح نوازشریف کی مزاحمتی سوچوں کو کند کر کے انہیں بیرونِ ملک جانے اور مریم نواز کو خاموش ہونے پہ راضی کر لیا لیکن مولانا فضل الرحمن کی پیہم للکار نے بالآخر میاں نواز شریف اور مریم نواز کو پھر اسی مزاحمت کی طرف واپس پلٹنے پہ مجبور کر دیا جسے تجّ کے وہ دیارِ غیر کو سدھار گئے تھے۔

About The Author