حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، پیپلزپارٹی کی دعوت پر منعقد ہونے والی ”آل پارٹیز کانفرنس” کا اعلامیہ اور لیڈران کی ”گرماگرم ونرما نرم” تقاریر بھی سامنے آچکی ہوں گی۔
جمہوری نظام میں وہ چاہے لولا لنگڑا ہی کیوں نہ ہو سیاسی عمل آگے بڑھتا رہنا ضروری ہے۔ حزب اختلاف چونکہ متبادل قیادت ہوتی ہے اس لئے وہ حکومت پر تنقید کرتی ہے، اس کے کاموں میں سے کج تلاش کرنا، پالیسیوں کو زیربحث لانا اور عوامی مسائل کی زبان بننا اس کا فرض بلکہ یوں کہیں کہ سیاسی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔
یہ لطیفے جنوبی ایشیا میں ہی سننے میں آتے ہیں کہ حکومت کی مخالفت ملک دشمنی ہے، ہمارے یہاں جو چار مارشل لاء ہو گزرے ان میں سے ایک میں حکومت مخالفت کو غداری کہا جاتا تھا، ان دنوں محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت ایجنٹ تک کہا گیا۔
دوسرے مارشل لاء میں حکومت پر تنقید نظریہ پاکستان پر حملہ قرار دیا گیا، یہ نظریہ پاکستان اسی دوسرے مارشل لاء کے وزیراطلاعات جنرل شیر علی خان پٹودی نے تخلیق کیا تھا، اس کی حفاظت کیلئے جماعت اسلامی نے یوم شوکت الاسلام بھی منایا تھا۔
تیسرے مارشل لاء میں حکومت مخالفین کو اسلام دشمن قرار دیا جاتا تھا۔
چوتھے غیراعلانیہ مارشل لاء جسے فقیر راحموں
”جرنیلی جمہوریت” کا نام دیتے ہیں کے دوران حکومت کے مخالفین کو ملک پر بوجھ قرار دیتے ہوئے انہیں سیاسی عمل سے ہمیشہ کیلئے نکال باہر کر دینے کے دعوے ہوتے رہے، پھر کیا ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔
ان دنوں ملک میں مارشل لاء تو نہیں لیکن ”لاء” بھی نہیں ہے۔
حکومت اور اس کے اتحادی صاف شفاف ہیں، باقی سب چور کرپٹ بھارت نواز۔ مجرم، ملزم اور مفرور، یہ انداز تکلم وسیاست ہمیں کیا دے گا، اس پر بھی سر کھپانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہاں سمجھوتہ برانڈ نظام1988ء سے قسطوں میں چل رہا ہے۔
سمجھوتہ کون کس سے کرتا ہے اس پر بات کرنے کیلئے حوصلہ چاہئے جوکہ اب کم ازکم ہمارے پاس نہیں ہے۔
جملہ حقوق کمپنی کے نام محفوظ ہیں۔
اپوزیشن کی اے پی سی کے حوالے سے حکومت کے وزیر، مشیروں، ماہر امراض حیوانات اور اتحادیوں نے پچھلے دو دن سے جو سماں باندھ رکھا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ جیسے1857ء والا ”غدر” پارٹ ٹو برپا ہونے کو ہے
حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہونا ”غدر” پارٹ ٹو ہوسکتا تھا اگر پچھلے دنوں اپوزیشن پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اپنے بیمار اور قیدی ارکان کے علاوہ باقی ارکان کی حاضری کو یقینی بنالیتی۔
اس یقینی وبے یقینی پر عوامی حلقوں یعنی گلی محلوں میں بحث جاری ہے۔
اس بحث کے بیچوں بیچ ہمارے مجاہداعظم سول سپرمیسی جناب نواز شریف کا ٹویٹر اکاؤنٹ سامنے آگیا۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ٹویٹراکاؤنٹ ان کی صاحبزادی مریم نواز کا سوشل میڈیا سیل چلا ئے گا، البتہ اس اکاؤنٹ سے پہلی ٹویٹ ”ووٹ کو عزت دو” کی گئی۔
اس ٹویٹ پر کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی انصافی وزیر سید علی زیدی نے ری ٹویٹ کرتے ہوئے جو لکھا اس کی کسی نے سوائے ان کے ٹائیگرز کے تائید نہیں کی۔
البتہ بہت سارے لوگوں نے ان کی ری ٹویٹ کے جواب میں لکھا
”کراچی والو سن اور سمجھ لو”
ارے یہ بات سے بات نکلتے کہاں تک پہنچ گئی۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اے پی سی کو خاندانی مفادات کے تحفظ کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس میں عدم شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے اس فیصلے پر بائیں بازو کے بچے کھچے عناصر جو کچھ کہہ رہے ہیں تحریر نویس اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس گئے گزرے دور میں ہمارے ملک میں جماعت اسلامی جیسی صالح اصول پسند اور خوددار جماعت موجود ہے۔ کتنی ہے اور کیسے ہے یہ بحث فضول ہی نہیں بلکہ سرخوں کا دلپشوری کرنے کا پروگرام ہے۔
سرکار کے وزیر مشیر، ایک ماہر امراض حیوانات اور چند دیگرز کیساتھ سب ملکر کہہ رہے ہیں کہ
”مفرور نوازشریف کی ملکی معاملات میں مداخلت کے منفی نتائج برآمد ہوں گے”
حزب اختلاف کا کہنا ہے ”حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے جناب شبلی فراز، شہزاد اکبر اور چند دیگرز نے میاں نواز شریف کو دوسرا الطاف حسین قرار دیا ہے۔
فقیر راحموں اس پر سراپا احتجاج ہے، اس کا کہنا ہے کہ الطاف بھائی کا کوئی متبادل نہیں اور یہ بھی کہ توہین الطاف حسین نامنظور۔
یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں!
حکومت تردید کر رہی ہے کہ حالیہ قانون سازی کے عمل میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں موجود مشیروں کو بطور ووٹ شمار نہیں کیا گیا یہ صرف حزب اختلاف کا پروپیگنڈہ ہے۔ فقیر راحموں البتہ اپنی خبر پر قائم بلکہ اس کے درست ہونے پر بضد ہیں۔
اپوزیشن کی اے پی سی کیا کرسکتی ہے یا کیا کر لے گی یہ تو وقت بتائے گا مجھے نہیں لگتا کہ اپوزیشن پارلیمان کا بھریا میلہ چھوڑ کر سڑکوں، گلیوں کی سیاست کا راستہ اپنائے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ متبادل بیانیہ دے۔ داخلی، علاقائی اور عالمی صورتحال پر مؤقف کیساتھ مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت، بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دوسرے مسائل پر دوٹوک انداز میں بات کرے۔
ارباب اختیار سے بھی یہ درخواست ہے کہ وہ تحمل کیساتھ اپوزیشن کی تنقید برداشت کریں۔
سیاسی عمل کوئی کمپنی پروگرام نہیں ہوتا کہ تنقید نہ ہوسکے۔
درست جمہوری انداز میں جدوجہد کرنا حزب اختلاف کا حق ہے۔
رہا سوال ملزم، مجرم، مفرور والی پھبتی کا تو اس ملک میں ایک عدد مفرور باقاعدہ وزیراعظم رہ چکا ہے۔ اس کالم کے قارئین کو یاد ہوگا جب میر جبل خان ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تھے تو ان سطور میں ایک عدالتی فیصلے کا ذکر کیا تھا، جس میں ظفر اللہ جمالی کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔
خیر چھوڑیں حکومت اور اپوزیشن دونوں سے درخواست ہے کہ سیاسی عمل کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنیں، جمہوریت جیسی بھی ہے اس کی گاڑی چلتی رہے تو اچھا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ