کراچی: انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنادی۔
عدالت نے ایم کیوایم رہنما رؤف صدیقی سمیت چار افراد کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔ بری ہونے والوں میں ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبد الستار بھی شامل ہیں۔
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے چار ملزمان کو سہولت کاری کا جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی۔ سزا پانے والے سہولت کاروں میں ارشد محمود، فضل، شاہ رخ اور علی احمد شامل ہیں۔
اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما رؤف صدیقی نے کہا کہ باعزت بری ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ سانحہ کے وقت میں نے احتجاجاً وزارت سے استعفیٰ دیا اور سال 2017 میں رضا کارانہ طور پر خود عدالت میں پیش ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں اس مقدمے میں 200 پیشیاں بھگت چکا ہوں، سانحہ بلدیہ میں جاں بحق افراد کا خون رائیگاں نہیں جائے گا میں عدالت میں ہر پیشی پر لواحقین کی چیخیں نہیں بھول سکتا۔
رؤف صدیقی نے کہا کہ کیس کا فیصلہ لواحقین کے لیے اچھی خبر ہے، کیس کی پیروی کرتے ہوئے میرے وکلا نے دن رات محنت کی۔
فیکٹری مالکان نے آتشزدگی کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا تھا۔ فروری2017 میں ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کیس میں ملزمان کے خلاف 400عینی شاہدین اور دیگر نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے تھے۔
گیارہ ستمبر2012 کو ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاون میں259افراد جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی رینجرز پراسیکیوشن نے کی۔ تین تفتیشی افسران تبدیل ہوئے جبکہ 4 سیشن ججز نے سماعت سے معذرت کر لی تھی اور 6 سرکاری وکلا نےدھمکیوں کےباعث مقدمہ چھوڑ دیا تھا۔
واقعے کا مقدمہ پہلےسائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا، مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔
سنہ2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اورعبدالعزیزعدالتی اجازت کے بعد دبئی چلےگئے۔6 فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہےکہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
آگ لگانےکی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ ملزم کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر آگ لگائی۔ 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔
سنہ 2016 میں جے آئی ٹی پر چالان ہوا۔ اسی سال دسمبر میں رحمان بھولا کو بینکاک سے گرفتارکیا گیا۔ کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پرکیس کو انسداد دہشتگردی میں چلایا گیا۔
جنوری 2019کو کیس کےمرکزی ملزم عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سےمکرگئے تھے۔ دوستمبر2020 کو گواہان کےبیانات اوروکلا کےدلائل مکمل ہونے پردہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور