فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو اور اگر کوئی غلطی ہوجائے تو سوری میں پہل کرلو۔ اسکول میں گھروں میں بھی بچوں کو یہی بتایا جاتا ہے کہ آپس میں مل جل کر رہیں اگر ایکدوسرے سے لڑائی ہوجائے تو سوری کرلیں معافی مانگ لیں بات ختم کردیں۔
دیکھا ہوگا چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے ہوئے اگر لڑتے ہیں تو تھوڑی دیر میں معافی تلافی کرکے واپس ساتھ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ تو معصوم ہوتے ہیں ۔ جب بھی بہن بھائیوں کی لڑائی ہوتی ہے تو صلح صفائی کے لیے ماں باپ بہن بھائیوں کو ایکدوسرے سے معافی منگواتے ہیں دل چاہے نہ چاہے معافی مانگ لو۔
جبکہ بات اگر میاں بیوی کے رشتے کی ہو تو وہاں بھی معافیاں تلافیاں رشتے کو بچانے میں کام آجاتی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے وہاں بھی معافیاں مانگنا بیوی کی ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے کبھی تصفیوں کے لیے خاندانی جھگڑوں کے لیے صلح کے لیے معافیوں کے لیے پنجایتیں جرگے بیٹھ جاتے ہیں۔
کبھی عدالتوں میں کبھی عدالتوں کے باہر صلح نامے اور معافیاں تلافیاں ہوتی ہیں ۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں معافی مانگنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ احساس شرمندگی کا ڈر ہوتا ہے اب ماہر نفسیات کو کیا اندازہ کہ ہر بات پر معافی مانگ لینا تو ہمارے قومی مزاج کا وطیرہ ہے۔
کچھ ہوجائے بس معافی مانگ لو اور بات ختم کچھ بھی کہدو اس کے بعد شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بیان جاری کردو زیادہ ہو تو ایک آدھ ٹویٹ بھی کردو ورنہ ٹی وی پر آکر مخالفین کی دھجیاں بکھیردو ساتھ میں یہ بھی کہدو میرے اس بیان کا مقصد یہ تو نہیں تھا اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں لو جی چٹکیوں میں بات ختم ۔ زندگی کے اس قدر جھمیلوں میں کس کو یاد رہنا کہ کیا ہواتھا کیا کہا تھا روز ایک نیا ہنگامہ روز ایک نیا تماشہ دل اور نظر کے لیے موجود ہے ۔
موٹروے حادثے میں جہاں رات گئے ایک معصوم عورت اس بے خبری میں لٹ گئی کہ شاید اس شہر کے محافظ جاگ رہے ہونگے مگر وہ تواب تک حدود ہی ناپ رہے ہیں اور شاید حدود ہی ناپتے رہینگے۔
لیکن اس کم نصیب کو کونسا اندازہ تھا کہ اس پر ایسی قیامت ٹوٹ پڑیگی جہاں درندگی اپنی تمام حدیں پار کرگئی۔ وہیں سی سی پی او صاحب کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ واقعی جہاں دن دہاڑے عورت نہ بچے محفوظ وہاں ایسے کسی عورت نے اندھیرے سنسان رستے پر سفر کی ٹھانی اور اگر ٹھان بھی لی تھی تو گاری کا پٹرول چیک کرنا تھا اب بھلا یہ کیا بات ہوئی منہ اٹھا کر جب دل چاہے بچوں کو لیکر اکیلی نکل پڑو ۔
تاہم یہ بھی ان کا بڑاپن ہے کہ انہوں نے ماں بہنوں بیٹیوں سے اپنے بیان پر معافی مانگ لی حالانکہ ان کو معافی مانگنے کی کیا ضرورت تھی مگر پھر بھی انہوں نے معافی مانگ لی ۔ اسمبلی میں شہباز شریف اس قدر شدت جذبات سے مغلوب تھے کہ انہوں نے سانحہ موٹر وے کی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس سیالکوٹ موٹروے پر یہ ہولناک واقعہ پیش آیا وہ نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن نے بنائی تھی اور ان کے اس بیان پر جس قدر زور و شور سے مسلم لیگ ن کی اسمبلی میں موجود قیادت نے تالیاں پیٹی اور ثابت کیا کہ لیڈر کی محبت کیا ہوتی ہے۔
ویسے بھی سانحات کا کیا ہے ہوتے رہتے ہیں جیسے ماڈل ٹاؤن ہوگیا تھا مگر قوم کے علم میں اضافے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سیالکوٹ موٹر وے نواز شریف نے بنائی تھی اور یہ جاننا ہرگز بھی بلکل بھی ضروری نہیں کہ اسی راستے پر سات سال سے مرکزی ملزم ڈکیتیوں کی وارداتیں کرتا پھرتا رہا ہے ہاں یہ جاننا مگر ضروری ہے کہ شہباز شریف نے بھی اپنے بیان پر قوم سے صدق دل سے معافی مانگ لی ہے کیونکہ معافی مانگ لینے میں تو ویسے بھی بڑائی ہے۔ اس حادثے پربھی جس قدرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کبھی مراد سعید اسمبلی میں ہاتھ لہرا لہرا کر بتارہے تھے کہ حادثہ موٹر وے پر پیش ہی نہیں آیا لیکن ان کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ بہرحال حادثہ پیش آچکا ہے ۔
ہر تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر اپوزیشن کے لتے لینے والے فیاض الحسن چوہان نے جس قدر سنجیدگی سے مرکزی ملزم کے بارے میں ٹی وی پر بیان جاری کیا کہ بس دو دن میں مرکزی ملزم کو پکڑلینگے اس پر صرف سر ہی دھن سکتے جبکہ جب تک میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں عابد ملہی جیمز بانڈ کی طرح پنجاب پولیس کو چکمے دے رہا ہے ۔
کہیں شہباز گل انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کے ڈی این اے میچ کرنے پر پنجاب پولیس کو شاباش جاری کرنے کا ٹویٹ پوسٹ کررہے ہیں۔
لیکن ان کی خدمت میں عرض ہے کہ سانحہ موٹر وے نے بھی روک نہیں لیا ہے عزتوں کولٹنے سے لاہور میں ایک بیوی کو اس کے شوہر کے سامنے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا ہے اس پر بھی کوئی معذرت خواہانہ ٹویٹ کر ہی سکتے ہیں کیونکہ معذرت ہی تو ہے ۔
کہیں پنجاب حکومت کی معذرت خواہانہ پریس کانفرنسیں ہورہی ہیں تو کہیں ہچکولے کھاتی اپوزیشن استعفی مانگتی نظر آتی ہے۔ کہیں استعفوں پر بحث جاری ہے کہیں سزاؤں پر ہاں لیکن معافیوں اور معزرتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے کیونکہ معافی مانگنا تو بہت ضروری ہے۔
اب کیا ہوگیا اگر ندا یاسر نے بھی معصوم مروہ کے مجبور سے والدین سے پوچھ لیا کہ بچی کی کیا حالت تھی کس حال میں تھی کیا ہوا تھا ظاہر ہے غلطی تو ان غریب ماں باپ کی ہے نا جو ٹی وی پر پہنچ گئے بچی تو نہیں رہی اب سوال تو پوچھنا ہی ہیں۔
لیکن ندا نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے معافی مانگ لی ہے ورنہ اتنا ریٹنگ والا شو ہے کیا ضرورت پڑی تھی کہ موافی مانگتے پھریں۔
تو بس پھر حادثہ ہو بیان ہو یا پھر کوئی ٹی وی شو ہو معافی ہی تو ہے معذرت ہی تو کرنی ہے تو مانگ لو معافی کس کو یاد رہنا کہ کیا ہوا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر