جولائی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول بھٹو زرداری کے بتائے گئے دھماکہ خیز اِنکشافات سچ ہیں یا جھوٹ؟ ۔۔۔ امام بخش

جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو اُن کے دور میں کافر اور غدار کہتے تھے، وہ آج ہمارے ساتھ ہیں اور وہ انھیں شہید مانتے ہیں۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں۔

امام بخش 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ بلاول بھٹو زرداری کو سخت ناپسند کرتے ہیں یا پھر دل و جان سے چاہتے ہیں لیکن پاکستانی ہونے کے ناتے اِن کی 17 ستمبر 2020ء کو پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی تقریر ضرور سنیں۔ اِس تقریر میں بہت زیادہ پوشیدہ راز طشتِ ازبام ہوئے ہیں۔ یہ تقریر سُننے کے بعد آسانی کے ساتھ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت، عدلیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہے؟ اِن کرداروں میں کون آئین و قانون کی پیروی کر رہا ہے اور کون آئین و قانون کو پاؤں تلے روند رہا ہے؟ اِس تقریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کتنی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور وہ اپنا مافی الضمیر جرات و بہادری کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مزیدبرآں، اندھی نفرت اور عقیدت کی عینک اُتار کر جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کے برعکس ایک ذمہ دار شہری کے طور پر یہ تحقیق بھی ضرور کریں کہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سچ پر مبنی ہے یا پھر فقط جھوٹ۔

بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا متن مندرجہ ذیل ہے:

پاکستان پیپلز پارٹی کو شہداء کی جماعت سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے خاندان کو ریاست نے ایک ایک کر کے شہید کیا ہے۔ میرے نانا کو پھانسی پر چڑھایا گیا، میرے ایک ماموں میر مرتضٰی بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر شہید کیا گیا۔ میرے دوسرے ماموں میر شاہ نواز بھٹو، جو ابھی فقط ستائیس سال کے تھے، زہر دے کر شہید کیا گیا۔ میری والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو راولپنڈی میں بم دھماکے سے شہید کیا گیا۔

جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو اُن کے دور میں کافر اور غدار کہتے تھے، وہ آج ہمارے ساتھ ہیں اور وہ انھیں شہید مانتے ہیں۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں۔

وہ لوگ آج ہمارے ساتھ ہیں، جو میری والدہ سے کہتے تھے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں، اس کے علاوہ وہ لوگ بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو اُنھیں کرپٹ کہتے تھے، آج وہ لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید مانتے ہیں۔

جو لوگ میرے نانا اور میری والدہ کے ساتھ تھے اور آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم اُن لوگوں کے شکر گذار ہیں اور اُن کی جدوجہد کو سلام کرتے ہیں۔

ہم پر حملے ہوتے ہیں اور میڈیا پر ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے شہیدوں کی کردار کشی بھی کی جاتی ہے۔ ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ کبھی ہم کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی ناکام ہوتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہار جیت اَللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ تمام مشکلات کے باوجود ہم اپنے مؤقف اور منشور پر قائم ہیں۔ آج جو ٹوٹی پھوٹی اور کمزور سی جمہوریت، تھوڑی سی میڈیا کی آزادی اور مزدوروں و کسانوں کے حقوق بھلے کاغذوں پر ہی سہی لیکن موجود ہیں۔ یہ سب اس جدوجہد کا نتیجہ ہیں، جو محنت اور قربانیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے دی ہیں۔

آج پاکستان ایک ایسے دور سے گذر رہا ہے جہاں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست میں رہتے ہیں لیکن “ریاست مدینہ” کا یہ حال ہے کہ جس میں ملک کے سب سے مشہور موٹروے پر ایک عورت کے ساتھ اپنے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے لیکن اُس عورت کو تحفظ دلانا جن کی ذمہ داری ہے بلکہ پورے ملک کی عورتوں کو یقین دلانا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، وہ ریپ کرنے والے ملزموں کی بجائے متاثرہ خاتون پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ حیرت یہ ہے جو لوگ متاثرہ خاتون پر سوال اُٹھاتے ہیں، اُن کا دفاع کرنے کے لیے ملک کے وزراء، مشیران، معاونین خصوصی کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم بھی آ جاتے ہیں۔

آپ کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو لیکن آج “ریاستِ مدینہ” کی یہ صورت حال ہے کہ پورا ملک بارش اور سیلاب سے متاثر ہے۔ صوبہ سندھ میں پچیس لاکھ متاثرین کے علاوہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بارش اور سیلاب کے متاثرین موجود ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے گھر اور فصلیں تباہ ہو چکیں ہیں لیکن ہمارے میڈیا پر اِن متاثرین کے لیے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔2011ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بارش اور سیلاب آیا تھا تو وفاق نے صفِ اوّل کا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وطن کارڈ بھی جاری کیا تھا۔ لیکن آج اس ریاست مدینہ میں سیلاب متاثرین بے یار و مددگار ہیں اور کوئی ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ہم اپنے ملک کو مدینہ کی ریاست کہتے ہیں لیکن ہمیں اہم ترین قانون سازی بھی آزاد ماحول میں نہیں کرنے دی جاتی۔ آج قومی اسمبلی میں جو قانون سازی ہوئی ہے، وہ آئین اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کر کے کی گئی ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ اسپیکر دوبارہ گنتی کا مطالبہ تک نہیں مانتے۔ اگر ہمارے ووٹ نہیں گنے جائیں گے اور ہماری آواز نہیں سنی جائے گی تو ہمارے ایسی سیاسی جماعتیں بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گی کہ آخر ہم کب تک اس پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست میں بولنے کی آزادی تھی لیکن ہماری ریاست میں قائد حزب اختلاف اور حزب اختلاف کے ارکان کے لیے زیادہ سخت پابندیاں ہیں۔ اور تو اور یہاں تو نام نہاد حکمرانوں کے پاس بھی بولنے کی آزادی نہیں ہے۔

جب ہم مدینہ کی ریاست کی طرف دیکھتے ہیں تو انصاف کے لیے ہم عدالت کی طرف دیکھتے ہیں۔ اِسلام نے ہر مرد و عورت اور مسلم غیر مسلم شہری کو حق دیا ہے لیکن ہمارے نئے پاکستان میں ہر طبقے کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔

جو میڈیا مالکان ہماری جمہوری حکومت کو دھمکی دیتے تھے کہ ہم حکومتیں بناتے ہیں اور ہم ہی حکومتیں گراتے ہیں، وہ آج پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

کل جو اس سے پہلے سلیکٹیڈ ہوتے تھے، دوسری سیاست کے عادی تھے وہ بھی آج انقلاب، انصاف، عوام اور ووٹ کی عزت کے نعرے لگانے پر مجبور ہیں۔

مجھے آج آپ سب (وکلاء تنظیمیں، سیاسی جماعتیں اور میڈیا) کے سامنے ایک شکوہ کرنا ہے، میرے دائیں بائیں بیٹھے سب صاحبان سے میں نے پوچھنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے دوران جب ایک آزادانہ مؤقف پیش کیا تو کیا آپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مؤقف کا ساتھ دیا یا پھر آزاد عدلیہ کے نام پر آپ لوگوں نے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت میں نہ چاہتے ہوئے بھی عدلیہ کو آمرانہ ادارہ بنا دیا؟

میں پوچھنا چاہوں گا کہ دھاندلی، آمریت، سلیکشن، میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سب کچھ پانامہ اسکینڈل کے بعد شروع ہوا؟

جب ہم اینٹ سے اینٹ بجانے نکلے تھے تو آپ سب لوگوں نے ہمیں کہا تھا کہ ہم صرف اپنی کرپشن بچانے کے لیے بیانات دیتے ہیں۔

اب جب ہم شور ڈالتے ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی نشانے پر ہیں تو ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارے ساتھ بہت سی سیاسی جماعتیں اور آوازیں ہیں۔ لیکن ایک وقت تھا جب ہم کہہ رہے تھے کہ 1973ء کے آئین کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بحال کرنے کی پاداش میں پاکستان پیپلز پارٹی ایسی قومی جماعت کو سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ایک صوبے تک محدود کیا جا رہا ہے تو ہمیں نہیں سنا گیا۔

چارٹر آف ڈیموکریسی پر ہم نے بہت کام کیا تھا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں یہ طے تھا کہ ججز کیسے تعینات ہوں گے اور ایک آئینی عدالت ہو گی، جس میں سب صوبوں کی نمائندگی ہو گی۔ جب موقع تھا اس وقت ہمارا ساتھ نہیں دیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 1973ء کے آئین کی بحالی کے لیے 30 سال تک تحریک چلائی، جس جدوجہد کی وجہ سے وہ شہید ہوئی۔ اٹھارہویں ترمیم میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پارلیمان اور بار کونسل کے نمائندوں کی مشاورت سے ججز کی تعیناتی ہو گی، جسے “اُنھوں” نے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ معزز جوڈیشری ممبران اور سیاسی جماعتوں نے بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا تھا۔

میں سو فیصد متفق ہوں کہ اُنیسویں ترمیم زبردستی پارلیمنٹ سے منظور کروائی گئی تھی۔ ایک ادارے کی طرف سے صاف دھمکی دی گئی تھی۔ دھمکی یہ تھی کہ 1973ء کے آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ اگر قانون سازی زور اور زبردستی سے کی جائے گی تو اُس قانون سازی اور پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جیسے ہمارا سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کہتا ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔

ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور عوام کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارویں ترمیم کو بحال ہونا چاہیے۔ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں عوام کا سب سے زیادہ کردار ہونا چاہیئے۔ اس کے علاوہ بار فورمز، بار کونسل اور جوڈیشری کی شراکت ضروری ہے۔ اُنیسوی ترمیم کالعدم ہونی چاہیئے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کا آج کا جو طریقہ کار ہے یہ میں دو سال کی عمر سے دیکھ رہا ہوں، اپنی والدہ کے ساتھ عدالتوں اور جیلوں کو دو سال کی عمر سے دیکھ رہا ہوں۔ اُن پر کرپشن کے کیا کیا مقدمات نہیں بنائے گئے۔ شکر الحمدللہ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات میں باعزت بری ہوئیں مگر افسوس ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں تھیں۔

اگر آپ اس ملک کے ہر سیاستدان کو عدالت، دباؤ اور ڈنڈے کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں تو کوشش کر لیں لیکن یہ کمپنی نہیں چلے گی۔

ہم انسانی حقوق اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اِس کے بغیر سیاستدان، وکلاء اور صحافی اپنا کام نہیں کر سکتے۔

ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ 2020ء میں ریاستِ مدینہ میں آپ ایک کتاب نہیں لکھ سکتے، ایک ٹویٹ نہیں کر سکتے، ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر آپ آزادی کے ساتھ ایک انٹرویو نہیں دے سکتے ورنہ آپ کا انٹرویو کٹ جائے گا۔ یہ زندہ قوموں کا طریقہ نہیں ہے۔

میری پارٹی اور خاندان نے اب تک بہت قربانیاں دی ہیں۔ اب ہم اپنے خون کا حساب چاہتے ہیں۔ اس خون سے دستور بنا ہے اور ہم نے اس دستور کو بچانا ہے۔

نشانہ 1973ء کا آئین ہو، اٹھارہویں ترمیم ہو، این ایف ایوارڈ ہو، صوبوں کے وسائل ہوں یا پھر عوام کے انسانی حقوق ہوں، پاکستان پیپلز پارٹی ان سب پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

چند روز بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں اس ہائبرڈ رجیم کو جواب دینا پڑے گا۔ پہلے پارلیمنٹ اور پھر ملک کو آزاد کرائیں گے۔

نوٹ: بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ “ماضی کی فاش غلطیوں کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیئے۔ پوری قوم معترف ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے خاندان نے یقیناً جمہوریت کے لیے جو قربانیاں دیں، وہ انتہا کی تھیں۔ آپ کو وہ جج بھی یاد ہوں گے، جنہوں نے کہا بھٹو کا فیصلہ دباؤ میں کیا تھا”۔

یاد رہے کہ ماضی میں نواز شریف اور شہباز شریف جھوٹے الزامات لگانے اور مقدمات بنانے پر آصف علی زرداری سے بارہا معافیاں مانگ چکے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کی 17 ستمبر 2020ء کو پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی تقریر سُننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

%d bloggers like this: