حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب نواز شریف کی جماعت کا مؤقف ہے کہ وہ علاج کیلئے لندن گئے، اس کی اجازت انہیں عدالت نے دی تھی، اب واپسی تبھی ہوگی جب وہ مکمل طور پر صحت مند ہوں گے۔
وہ جن دنوں لاہور سنٹرل جیل یا سروسز ہسپتال میں علاج کیلئے داخل تھے ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر بیماری کی میراتھن ریس نشریات جاری رہیں۔
ملک سے باہر گئے تو ابتدائی چند دنوں میں ان کی طبی مشاورت کی خبریں معمول کے مطابق نشر ہوئیں اور پھر میڈیا اپنے کام میں لگ گیا۔
اب ان کا ذکر اور وضاحتیں دونوں اس وقت ہوتے ہیں جب حکومت کا کوئی بندہ ان کی بیماری کو فراڈ قرار دیتا یا ان کے خاندانی ذرائع کوئی ایسی تصویر جاری کرتے جن میں وہ اپنے پوتوں پوتیوں کیساتھ کافی شاپ پر بیٹھے ہوتے یا کسی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں
فواد چودھری تحریک انصاف کے ان رہمناؤں میں سے ایک ہیں جو روز اول سے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ بیماری تھی ہی نہیں۔
چودھری صاحب چونکہ سائنس کی وزارت کے وزیر ہیں سو عین ممکن ہے کہ انہوں نے سائنسی ذرائع سے استفادہ کیا ہو،
گزشتہ روز جناب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا
”سیاستدانوں کی طرح معزز جج صاحبان پر بھی دباؤ ہوتا ہے”۔
ایسا کہنے کی ضرورت کیا تھی؟
یہ تو وہی بتا سکتی ہیں البتہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی العزیزیہ ریفرنس میں ضمانت ختم ہونے کے بعد سرنڈر نہ کرنے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ہیں
جبکہ اپیلوں پر سماعت کے دوران حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ نیب کے وکلاء نے بتایا کہ نیب قوانین کے مطابق مفرور کو تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ یہاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر وہ (نواز شریف) مفرور ہوتے ہیں تو بھی کوئی منفی کارروائی نہ کی جائے۔
علاج کیلئے لندن روانگی کے دنوں میں دو تین کہانیاں زبان زد عام تھیں ان میں اہم ترین کہانی یہ تھی کہ جو معاملات پس پردہ طے ہوئے ہیں ان کے مطابق سابق وزیراعظم سات سال تک سیاسی عمل میں سرگرم نہیں ہوں گے۔
راویان اس سلسلے میں جو کہانیاں سناتے رہے ان میں سچ اور زیب داستان ہر دو جانچنے کیلئے اخبار نویس کے سامنے ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے دسمبر2000 میں نوازشریف اور اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے درمیان طے پانے والا معاہدہ جلاوطنی جو دس سال کی مدت کیلئے تھا۔
اس معاہدہ کے بعد شہزادہ ترکی الفیصل کے نجی جہاز سے نواز شریف اپنے خاندان، باورچی اور ملازمین کے ہمراہ سعودی عرب چلے گئے تھے۔
وہ اور ان کی جماعت دس سالہ معاہدہ جلاوطنی سے مسلسل انکار کرتے اور جلاوطنی کو مشرف حکومت کا جبر قرار دیتے رہے
پھر ایک دن یہ دس سالہ معاہدہ سامنے آگیا، تب وضاحت ہوئی کہ معاہدہ پانچ سال کا تھا مشرف نے اپنی مرضی سے دس سال کا عرصہ درج کیا،
یہاں معاہدہ کروانے والوں نے تردید کر دی اور کہہ دیا کہ اس کی مدت دس سال ہی تھی۔
دوہزار سات میں شریف فیملی کی وطن واپسی پھر ایک بیرونی دباؤ سے ممکن ہوئی یہ دباؤ زیادہ موثر اس لئے ہوا کہ اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کی وطن واپسی کی حمایت کی تھی۔
شریف فیملی اور ریاست کے درمیان معاملات کیسے طے ہوئے، ذرائع اس حوالے سے مریم نواز کے سمدھی چودھری منیر کا نام لیتے ہیں تو بعض ذرائع چودھری کیساتھ متحدہ عرب امارات کی ایک شخصیت کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔
البتہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کا موقف ہے کہ معاملات خود نواز شریف نے طے کئے کہ وہ سات سال کیلئے ملکی سیاست سے لاتعلق رہیں گے۔
مفاہمت ومعاملات کیا یہ سب درست ہے، ان کہانیوں پر اعتبار کر لیا جائے،
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشکل حالات سے نکلنے کیلئے ماضی میں شریف فیملی نے جو راستہ اختیار کیا وہ اب بھی کر سکتے تھے یا کر لیا۔
اب سوال یہ ہے کہ عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے، پھر سرنڈر کرنے کا وقت گزر جانے اور اب ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے کے بعد شریف فیملی کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
اس سوال کو سمجھنے کیلئے خواجہ حارث (یہ نواز شریف کے وکیل ہیں) کی اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا ”وہ (نواز شریف) اگر مفرور بھی ہوتے ہیں تو بھی منفی کارروائی نہ کی جائے”۔
کیوں،
یہ کیوں؟ اس لئے کہ شریف فیملی کا موقف ہے کہ وہ ماضی میں بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر لندن سے پاکستان پہنچے اور جیل چلے گئے۔
یہ بات درست بھی ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف اپنی اور نون لیگ کی سیاسی ساکھ اور سول سپرمیسی کے دعوے کی لاج رکھنے کیلئے وطن واپس آتے ہیں یا نہیں۔
وہ واپسی کا فیصلہ صحت کو لاحق خطرات کے باوجود کرتے ہیں تو معاملات طے ہونے کی کہانیاں اور سات سال کی سیاسی لاتعلقی کے دعوے سب جھوٹ ثابت ہونگے، نہیں آتے تو ان کہانیوں اور دعوؤں میں مزید جان پڑے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز سرنڈر کرنے کے فیصلے پر نظرثانی اور حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں مسترد کردیں، عدالت کا حکم یہ ہے کہ نواز شریف کو 22 ستمبر کو پیش کیا جائے۔
کون پیش کرے گا، کیا نون لیگ اور ان کی وکلاء ٹیم عدالتی فیصلہ پر عمل کرے گی۔ حکومت اس عدالتی فیصلے کی روشنی میں برطانوی حکومت سے قانونی طور پر درخواست کرے گی
(یاد رہے کہ وزارت خارجہ میں بیرون ملک موجود کسی شخص سے وہ عدالت کو ہی مطلوب ہو کسی دستاویز کی تعمیل کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں) ۔
دونوں میں سے کون پہل کرتا ہے یہ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا، اس دوران میں ممکن ہے کہ نواز شریف کے وکلاء سپریم کورٹ سے رجوع کریں ایسا کرتے ہیں تو پھر عدالتی ضمانت اور بیرون ملک علاج کیلئے روانگی کی اس شرط پر پھر بحث ہوگی کہ اصولی اختیار پنجاب حکومت کو حاصل تھا کہ اگر وہ میڈیکل رپورٹوں سے مطمئن نہ ہو تو مزید توسیع نہ دے۔
فی الوقت عدالت کی یہ بات سوفیصد درست ہے کہ
”اگر ہسپتال سے باہر ہی رہنا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں”۔
حقیقت یہی ہے کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے فوجداری کیس میں ایسا ریلیف پہلی بار ملا اور وہ بھی نواز شریف کو،
اس ریلیف پر موجود اعتراضات اپنی جگہ موجود ہیں۔
بہرطور اب نواز شریف کے پاس دو ہی راستے ہیں اولاً یہ کہ وہ وطن واپس آجائیں اور ثانیاً وہ عدالتی مفرور کے طور پر زندگی بسر کریں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ