سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی حکومت دو سال کے بعد اب پہلی بار چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی کے شعبے میں بین الافغان مذاکرات کو فیصلہ کن مرحلے تک پہنچانا یقیناً پاکستان کے کریڈٹ میں جا رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے دنیا بھر میں پاکستان کی افغان پالیسی کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے وہ ہماری بےشمار قربانیوں کے باوجود کبھی ختم نہ ہو سکے مگر اس بار طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے، شمالی اتحاد اور دیگر فریقوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنے پر ہماری پالیسی کو اب سراہا جا رہا ہے اور اگر خطے کے امن کے لئے یہ اہم ترین مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان، افغانستان اور سارے خطے کو فائدہ پہنچے گا۔ گزشتہ 40سال سے افغانستان میں جنگ و جدل اور آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ یہ بند ہو تو دنیا کے لئے براستہ افغانستان سنٹرل ایشیا تک کا راستہ کھل جائے گا۔
اندرونی طور پر حکومت نے کنسٹرکشن کے شعبے کے لئے جن مراعات کا اعلان کیا وہ بہت ہی پُرکشش تھیں، اس پالیسی سے نہ صرف رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں بہتری آئی بلکہ بہت سی تعمیراتی کمپنیوں میں بھی حرکت شروع ہوئی۔ تعمیراتی سامان فراہم کرنے والے مطمئن نظر آتے ہیں کہ ان کا معطل شدہ شعبہ چلنا شروع ہو گیا ہے۔ ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جس قدر پُرکشش مراعات کا اعلان کیا گیا تھا اُس قدر سرمایہ کاری اور نئے پروجیکٹس نہیں آ سکے، زیادہ تر لوگوں نے کنسٹرکشن کے حوالے سے دی گئی ایمنسٹی کے ذریعے اپنے کالے دھن کو سفید کروایا ہے۔ اس کمزوری کے باوجود تعمیرات کے شعبے میں پیش رفت سے معیشت کا پہیہ گھومتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا اہم ترین عنصر کاٹن اور ٹیکسٹائل ہے۔ یہ شعبہ چلے تو ہماری انڈسٹری چل پڑتی ہے۔ اس سال کئی برسوں کے بعد اس شعبے میں جان پڑی ہے۔ روپے کی قیمت گرنے سے برآمد کنندگان کو دنیا بھر سے نئے آرڈر ملے ہیں اور وہ دھڑا دھڑ ان آرڈرز کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ان دو شعبوں کے علاوہ مجموعی معاشی صورتحال میں عام آدمی کے لئے کوئی ریلیف نظر نہیں آ رہا۔
کابینہ کے اجلاسوں میں مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور اسد عمر کے درمیان معاشی امور پر جملہ بازی چلتی رہتی ہے مگر تاحال اس شعبے پر تجربہ کار حفیظ شیخ کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ معاشی حوالے سے مہنگائی، بےروزگاری اور غربت خاتمےکے لئے انقلابی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو فی الحال نافذ العمل ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
داخلی سیاست اِدھر کی ہو یا اُدھر کی دونوں کا برا حال ہے۔ ایک زمانے میں طالب علم اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے مباحثوں کو بہت شوق سے سنتے تھے۔ اِن مباحثوں میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہوتا تھا مگر اب تو اسمبلی کی کارروائی الزام تراشی اور طعنوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی حالت تشفی آمیر نہیں ہے۔ کاش حکومت اور اپوزیشن کے ارکان، اسمبلی کے ایجنڈے کی تیاری کرکے آئیں۔ دونوں طرف کے اراکینِ اسمبلی فاضلانہ انداز میں اس پر بحث کریں، اس سے اراکینِ اسمبلی اور اہلِ سیاست کی ساکھ بہتر ہوگی۔
حکومت کا بڑا مسئلہ درست ترجیحات کا تعین اور بروقت فیصلہ سازی ہے۔ گورننس تبھی اچھی ہو سکتی ہے اگر ترجیحات صحیح ہوں۔ گندم، آٹا، چینی اور اشیائے ضرورت دنیا بھر کی حکومتوں کی پہلی ترجیح ہوتی ہیں لیکن انہی کے معاملات میں خرابی در آئی اور نقصان عام لوگوں کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ گندم کے حوالے سے شنید ہے کہ اس سال گندم درآمد نہ کی گئی تو بہت بڑا بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہو چکا ہے کہ گندم درآمد کر لی جائے مگر کس قیمت پر درآمد ہوگی یہ ابھی طے نہیں ہو سکا۔ فیصلہ سازی کا سارا بوجھ اکیلے وزیراعظم پر ہے، اس حوالے سے ایک پالیسی ساز سیاسی یونٹ ہونا چاہئے جو اجتماعی طور پر فیصلہ سازی کے عمل کی نگرانی کرے۔
حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کسی بھی طرح قابلِ رشک نہیں کہلا سکتے، جمہوری ممالک میں حکومت اور اپوزیشن کو جمہوری گاڑی کے دو متوازی پہیوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِن پہیوں کا تال میل کبھی درست نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت اور اپوزیشن میں سب سے بڑی وجہ نزاع احتساب ہے۔ اگر قانون سازی کے بہت سے دیگر معاملات پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے تو سنجیدہ فکر اراکینِ پارلیمان احتساب کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کو کیوں طے نہیں کرا سکتے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا احتسابی نظام میں اصلاحات پر تو اتفاق ہے لیکن تفصیلات پر اختلاف ہے۔ بظاہر یہ ایسا لاینحل مسئلہ نہیں، اگر اتفاق رائے مقصود ہو تو دونوں اطراف کسی ایسے قانون پر اتفاق کر سکتے ہیں جو دونوں کے لئے قابلِ قبول ہو۔
اہلِ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہم کورونا کے بحران سے نکل رہے ہیں۔ معاشی جمود بھی ختم ہو رہا ہے، ایسے میں عمران خان پر ذمہ داری ہے کہ وہ اداراہ جاتی اور سماجی و عدالتی اصلاحات کا بیڑا اٹھائیں۔ عام آدمی کی غربت دور نہیں ہو سکتی تو کم از کم اس کو بل جمع کرانے کے لئے لمبی قطاروں میںگھنٹوں کھڑے ہو کر انتظار کرنے کا صبر آزما معاملہ ہی حل کر دیا جائے۔ حصولِ انصاف کے لئے سالہا سال دھکے کھانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے اور ہر طرح کے مقدمات کا فیصلہ ایک مقررہ مدت کے اندر ہونا چاہئے۔ سرکاری محکموں اور ان کے افسروں کو حاکم کے بجائے خادم بنانے کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلیاں ہوں گی تو تبدیلی سرکار کی بلّے بلّے ہو گی۔
حالیہ دو ماہ میں حکومت تگڑی ہوئی ہے مگر یہی وقت خطرناک بھی ہے۔ حکومتیں جب طاقتور ہوتی ہیں تو حد سے زیادہ پُراعتماد ہو کر غلطیاں بھی کرجاتی ہیں۔ نواز اور زرداری حکومت نے بھی ایسی ہی غلطیاں کیں، جب حکومت کمزور ہوتی ہے تو قدم پھونک پھونک کر رکھتی ہے، جب اعتماد بڑھتا ہے تو احتیاط کھو جاتی ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ بڑھے ہوئے اعتماد سے سماجی اور انتظامی اصلاحات کا ڈول ڈالیں، صرف اپوزیشن کے احتساب سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ احتساب ضروری ہے مگر احتساب ہی سب کچھ نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ