مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے موسیقی سے وابستہ ہوتے ہیں جیسا کہ میں پچھلی تحریر مین بیان کر چکا ہوں جو ڈاڈے حال یعنی میراثی کے حوالے سے تھی جس میں اس کے کردار پر بات کی گئی تھی کہ وہ کتنا اہم کردار ہوتا تھا اور اب بھی ہے
مگر وہ جتنا بھی اہم ہو اسکے پیشے کو دوسرے لوگ اختیار نہیں کرتے وہ اپنی شادیوں میں ڈھول بجوانا پسند کرتے ہیں مگر اپنے بچے کے ہاتھ سے ڈھول بجوانا پسند نہیں کرتے ، اسی طرح رقص کرنے والی عورتیں یا بعض جگہوں پر خواجہ سراؤں کو بلایا جاتا ہے وہ سہرا ہوتے ہیں شادی کا انکے ناچ کو پسند کیا جاتا ہے
مگر کوئی بھی انکے پیشے کو اختیار نہیں کرتا
ناچ بھی پیشہ تھا، اسی طرح میراثی یا ڈاڈے حال بھی ایک قوم تھی اور ساتھ میں پیشہ بھی، اس حقارت کا ایک منہ بولتا ثبوت وہ لطیفے ہیں جو میراثیوں اور کمیوں پر سننے کو ملتے ہیں یعنی جہاں لطیفہ یا جگت سنائی جائے گی اُس جگت میں مین وژڈم یہی ہو گا کہ اس کا کردار ایک نامعقول آدمی ہے یا جاہل یا بھولا ہے ایسے لطیفوں کا مقصد صرف یہ احساس کروانا ہوتا ہے کہ انکا پیشہ اور انکی قوم انکے نامعقول و جاہل ہونے کا باعث ہیں، آواز کے سوز سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اَذان اُسی آدمی سے دلوانی ہے جو جو سوزی ہو جس کے گلے میں درد ہو جس کا گلا اپنی طرف راغب کرتا ہو لوگوں کو مگر سازھا ، تھجیزات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
سازھا کو حقارت کی نگاہ سے اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایک پیشہ ور سے منسلک ہیں یعنی اس کے بنانے والے کمی ہیں یعنی اسکو استعمال کرنے والے میراثی ہیں
(اس پر مذہبی دلائل بھی دیے جاتے ہیں احترامِ مقدسات کے حوالے سے ) لیکن اگر بات احترام کی ہی ہوتی تو یہ صرف ہمارے ہاں ہی اس احترام کے مستحق نظر آتے
ہندو مندروں میں بھی آپ صرف کرتن کر سکتے ہیں یا بھجن گا سکتے ہیں
سازھا کے ساتھ وہاں بھی یہی عالم ہے، یہی سبب ہے کہ آپ دیکھتے ہیں مزاروں کے صحن میں قوالی کا ہونا صحن کو تصور کیا جاتا ہے مزار کے اُس حصے کے طور پر جو مقدس نہیں ہے یعنی وہ حصہ جہاں یہ ناپاک سازھا رکھے جا سکتے ہیں
اس کی بھی بنیادی وجوہات یہی ہیں کہ یہ پیشہ ایک کمی سے منسلک ہے
ایسا ہونے کی چند وجوہات میں سے Louis Dumont جو اول ترین وجہ بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ہندو مسلمان ہوئے تو اپنے ساتھ ذات پات چھوت چھات ساتھ لئے آئے ،
چودویں صدی کے ایک مفکر ضیاالدین بارانی نے فتوا دیا کہ سادات کو افضل سمجھا جائے دوسری اقوام سے اور یہ فتوا محض اُس ذات پات کے نظام کے تناظر میں تھا کیونکہ اسلام بنیادی طور پر کسی ذات پات چھوت چھات کو تسلیم نہیں کرتا
پچھلی تحریر میں میں اوٹ کاسٹ پر بات نہیں کر سکا۔۔ جنہیں اچھوت اصل معنوں میں کہا جاتا ہے ہندو براہمن سماج میں بنیادی طور پر چار ذاتیں تھیں براہمن، شتریا
وحش، اور شودر، اچھوت شودر سے بھی نچلے درجے والے ہیں یہ وبال تب وجود میں آیا جب سیٹلر آباد کار جنگ جو ہندوستان میں آنا شروع ہوئے، میں آریا تھیوری پر بات نہیں کروں گا فلحال، آریا کے بعد آنے والوں کے لئے جو نیا ضابطہ سامنے اُسے اچھوت یا اوٹ کاسٹ کہتے ہیں، اچھوت کے لئے بھی جو ضابطے وہ براہمن ہی بناتا ہے مگر اسکی کوئی گرنٹی نہیں ہے کہ وہ اگر ان ضابطوں کے مطابق زندگی بسر کر لے تو اسکا اگلا جنم کسی بہتر ذات میں ہو گا
ان لوگوں کو بنیادی طور پر جن کاموں کی جازت دی جاتی ہے وہ وہی ہیں جو آج بھی پاکستان میں دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاََ جمع دار بھنگی وغیرہ وغیرہ
سرائیکی میں بھنگی بھنگ پینے والے کو نہیں کہتے بلکہ ایسے آدمی کو کہتے ہیں جو گٹر صاف کرتا ہو یا مردہ جانوروں کی انت وغیرہ کا دھندہ
مذہب بدلنے کے بعد بھی یہ لوگ اسی پیشے سے منسلک رہے یہاں تک کہ انکا کوٹا بھی ہوتا ہے، میں بہت سارے جمع داروں اور بھنگیوں کو جانتا ہوں یہ عموماََ شکل صورت خد و خال میں بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہندوستان میں رہنے والے اچھوت، سرائیکی خطے میں ہندوؤں کے بارے میں جو نقشے کھینچے جاتے ہیں وہ
چند ہیں کہ ان سے بدبو آتی ہے عجیب و غریب مشُک آتی ہے یہ صاف ستھرے نہیں ہوتے، تصوراتی طور پر جو نقشہ بندی کی جاتی ہے اس میں براہمن کا نظر نہ آنا کیونکہ وہ تو الیٹ کلاس تھی اور دنیا کی تمام تر الیٹ کلاسوں میں سجنا سنورنا سنگھار عطر معطری تو ہمیشہ سے رہی ہے اور یہ سب چیزیں تو جیب کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ایک ایسے آدمی کا نقشہ کیوں غلط کیھنچ رہے ہیں ؟ جس سے یہ سب چیزیں منطقی طور پر منسوب کی ہی نہیں جا سکتیں؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ دراصل اچھوت کا نقشہ کھینچتے ہیں اُسے ہندو تصور کر کے جبکہ ہندو اسے ہندو مانتے ہی نہیں
ان سے بھی نفرت یا کدورت و بغض کی بنیادی وجہ ان لوگوں کا غیر تخلیقی ہونا ہے
کیونکہ مذہب تو انہوں نے بدل لیا ہے، ایک مذہب ہونے کے باوجود بھی اس المیے کا رواں دواں رہنا یہی باور کرواتا ہے کہ ان کے لاشعور میں جو نقش ایک اچھوت کے لئے تھا وہی رہا اور وہ اسے من و عن ساتھ لئے آئے ،
جمع داری بھی ایک پیشہ ہی تھا ہمیشہ سے آج بھی ہندوستان کے سلمز پر انہیں لوگوں کا قبضہ ہے یہ الگ بات ہے کہ لوگ سلمز کو ایک غلیظ جگہ سمجھتے ہیں مگر وہاں جتنے بھی پروڈکٹیو کام ہوتے ہیں وہ انہیں لوگوں سے منسلک ہیں اور یہی لوگ انہیں سر انجام دیتے ہیں
جمع داری کو جس حقارت سے دیکھا جاتا ہے اسکے پیچھے بھی وہی وجوہات ہیں
کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے، کام کے حوالے سے یہاں جو تصور ہے وہ یہ ہے کہ کام تو کام ہوتا ہے ، کام میں آدمی گندہ بھی ہو سکتا ہے اور صاف ستھرا بھی ہو سکتا ہے، پھر جمع داری کے حوالے سے تعصب چہ معنی دارد؟
کیونکہ جمع داری ازل سے ایک خاص قوم کا پیشہ تھا اور وہ قوم قدرتاََ اس سماج میں نچلی قوم تھی، اس لئے اس پیشے کے لئے بھی تعصب پنپتا چلا گیا اور اب تو اسے دوام بھی حاصل ہے
اِسی طرح سکھ مذہب میں جو اکال تخت و اکال دل ہے وہ جاگیر دار یا اونچی ذات والوں کے پاس رہتا ہے وہی طے کرتے ہیں کسے سکھ ماننا ہے کسے نہیں ماننا
"جانڑو ہو جوت نہ پوچھو جاتی” گروگرانتھ
سکھ مذہب میں بھی بنیادی طور پر کوئی ذات پات کا تصور نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہاں راوی داسیہ سکھ ہونے کا طعنہ ملتا ہے یعنی وہ سکھ جو دلت سے سکھ ہوا ۔ اسی طرح وہاں بھی یہ ذات پات چھوت چھات تسلسل کے ساتھ چلتی آ رہی ہے, سکھ مذہب کے بنانے والوں میں کیونکہ زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو سرسوات براہمن تھے، اور اس کے ماننے والوں کی آج بھی کثیر تعداد شتری ہے
سو وہاں اچھوت اور شودرا کے لئے اسی نوعیت کا تعصب ہے اور انکے پیشوں اور انکی تخلیقیت و خلاقیت کو بھی اسی تعصبانہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
ہندوستان میں مذاہب کی قبولیت کی وجوہ بھی یہ ذات پات چھوت چھات بنی وہ سکھ مذہب ہو اسلام ہو یا بدھ مت ہو
مگر متنِ مذاہب نے جو کہا اسے مسترد کر دیا گیا اور وہی ذات پات آگے تسلسل کے ساتھ چلتی رہی اور آج تک چل رہی ہے
سرائیکی وسیب میں رہنے والے بلوچوں میں شادی کا طریقہ کار بالکل ویسا ہی ہے جیسا برہمنوں نے اچھوتوں کے لئے مقرر کیا تھا یعنی وہ اپنے علاوہ کہیں دوسری جگہ شادی نہیں کر سکتے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ آپس میں ہی رشتے کرتے رہتے ہیں اور بعد میں اِس میں غیرت و شجاعت و تہذیب و ثقافت کو گھسیڑ دیا گیا
تہذیب و ثقافت و عزت و شجاعت کا تصور بھی انکی گوتھ یا پاڑے سے مشروط ہوتا ہے، شادیاں بھی یہ لوگ اپنے پاڑے میں کرتے ہیں یہ صورتِ حال کہ اپنے علاوہ سب شودر اچھوت ہیں یہ وہی برہمن رویہ ہے جسے لاشعوری طور پر ہر قوم نے قبولا، کیونکہ
بنیادی طور پر یہ لوگ بھی ہندوستان میں اوٹ کاسٹ تھے یا اوٹ سائڈر تھے
سو یہ لوگ بھی اسی تعصب سے کام لیتے ہیں دوسری اقوام کے حوالے سے
یہ اپنے علاوہ ہر قوم کو جٹ غیر یا شودے سمجھتے ہیں
ان میں بھی وہی براہمک تقسیم سرایت کرتی چلی گئی،
الغرض جو جو ہندوستان میں آتا گیا وہ اس کا نشانہ بنتا گیا اور اسے قبولتا گیا
اور یہاں کے تمام تر تخلیقی کام کیونکہ ایسی قوموں کے لوگوں کے پاس تھے جو نچلی ذات کے طور پر جانے جاتے تھے ان سے تعصب برتا گیا
اور یہ تعصب آج تک جاری ہے
ہنر کے حوالے سے یہاں کے لوگوں کا تصور تخلیقی نہیں ہے بلکہ روزگار کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ہُنر کو یہاں کے لوگ خلاقیت سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی چیز سمجھتے ہیں جس سے محض زندگی اچھے سے گزاری جا سکتی ہے
یہی سبب ہے کہ وہ تمام ہنر جو تخلیقی ہیں ان سے تعصب برتا جاتا ہے اور انہیں گھٹیا یا غیر تخلیقی سمجھا جاتا ہے
لکھنا گانا ناچنا کاشی گری برتن بنانا مصوری یہ تمام ہنر اپنی اساس میں تخلیقی و خلاقی ہیں اسی وجہ سے انہیں ناپسند کیا جاتا ہے اور انہیں پیشے کے طور پر اختیار کرنے کو ایک مکروہ فعل سمجھا جاتا ہے
وہ تمام قومیں جن کے پاس انکی تاریخ نہیں ہے انہیں اِس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی تاریخ لکھی ہی نہیں تھی ۔۔ کیونکہ لکھنے پڑھنے کے انکے پاس حقوق نہیں تھے، یہ سلسلہ بعد کے فاتحین کے دور میں بھی جاری رہا
یہی وجہ ہے یہاں کے سادات کے پاس تو انکے شجرے ہیں مگر جو یہاں ازل سے آباد ہیں انکے پاس انکی تاریخ نہیں ہے برہمنوں کے پاس انکے شاستر تک موجود ہیں اور یہاں پر رہنے والوں کے پاس سوائے سینہ بہ سینہ چلنے والی روایتوں کے اور کوئی چیز نہیں ہے جسے وہ تاریخ کہہ سکیں
تاریخ کے علم سے نفرت کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے، تاریخ کے حوالے سے سٹیٹ آف ڈنائل کی صورتِ حال نے جنم بھی اسی وجہ سے لیا
کہ وہ پڑھنے لکھنے کو لاشعوری طور پر ایک مکروہ فعل سمجھتے چلے آ رہے ہیں،اور کیوں نہ سمجھیں؟ صدیوں سے جنہیں لکھنے پڑھنے کا کوئی حق ہی نہ دیا گیا ہو، وہ اور کیا سمجھیں؟
اس پر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے اگر بھلے شاہ کہتا ہے علمو بس کریں او یار
یا کبیر اپنے من کو پڑھنے کی بات کرتا ہے تو اس پر حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر انکے پاس سوائے من کو پڑھنے کے اور تھا ہی کیا ؟
جاری ہے۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ