یونس رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ امن محبت کی سر زمین ہیں جہاں مختلف مذاہب کا مرکز ہے، جہاں ہر مذاہب کے لوگ رہتے آرہے ہیں ، اور یہاں پر ہندو ازم پرانہ مذہب ہے، جس کے مخلتف رسومات آج تک جاری ساری ہے ستی ہندوں کا ایک رسم ہے جن کے نام سے روہڑی کے پاس دریاھ سندھ کے کنارے پر ایک مزارات کا جگھ ہے جن کا نام ستیوں کاآستان جس کا مطلب ستی ہونے والوں کی جگہ ، اس جگھ پر کسی ستی کے آثار بھی نہیں ملتے ہیں وہ تو کسی شاہی خاندان کے افراد کے مزارات ہیں بقول بدر ابڑو صاحب کے سندھ دریا کا سفر میں ستیوں کے آستان سے انکاری ہے اپنی کتاب سندھوں کاسفر میں صفحہ نمبر 289پر لکھتے ہیں کہ سندھ کے لوگوں کو یقین ہے کے سندھ کنارے پر روہڑی بکھر پل کے پاس ایک پہاڑپر 7 اہم ستیوں کےقبریں ہیں ، اگر ان سے پوچھو تو یہ ستیاں کہون ہیں کہیںنگے کے بیبیاں ہیں اپنی عزت بچاتے ہوءے زمین میں چلی گئی، دلچسپ بات تو یہ ہے کے ان سات قبروں میں سے ایک بھی کسی بھی عورت کا نہیں ہے، سب سے نمایا ں قبر ابوالقاسم نمکین کا ہے جو قندہار میں دوران جنگ شہید ہوگئے تھے، جن کی لاش بکھر لایا گیا تھا اور یہاں دفن کیا گیا تھا،، دوسرے قبریں ان کے رشتیداروں کے ہیں،، ان کا ایک نام ستیوں کا آستان ، قاسم خانی، اور صفہ صفا ہے،، پتہ نہیں ہمارے لوگوں کو اعتبار کرنے کی بری عادت ہے، بس کسی نے کہہ دیا کہ ستیوں کا آستان ہے تو اعتبار کر لیتے ہیں، اور کسی نے قبر کے کتبے تک نہیں پڑھے ان کو آنکھوں سے زیادہ کانوں پر اعتابر کیوں؟۔ بقول بدر صاحب کے ہوسکتا ہے لوگوں کو شاہی خاندان کےقبروں سے دور عام لوگوں کو دور کھنے کی کوشش کی گءی ہوگی، یہاں پر ابوالقاسم کے خاندان کے عورتوں کے بھی قبریں بھی ہیں اور یہ ایک خاص ذاتی قبرستان ہے، جس کیوجہ سے عام لوگوں کو ادہر جانے کی اجازت نہ ہو، مزارات تک جانے کیلءے ایک سیڑھی بھی ہے، صدیوں سے قبرستان کے اندر جانے پر پاندی کیوجہ سے عام لوگوں نے ستیوں اور پاک بیبیوں کے قبریں سمجھ کر بغیر تصدیق کے ا ن کو ستیوں کا آستان اتنے مرتبہ دہرایا گیا کے سچ سمجھا گیا، شاید ہٹلر نے ایسے لوگوں کیلءے کہا ہوگا کہ اس وقت تک جھوٹ بولو جب تک آپ کا جھوٹ سچ نہ ہو، اگر ہم ستی مطعلق تاریخ کا مطالعہ کریں تو ستی ایک ہندو ں کا ایک رسم ہے جس کے مطعلق قدیم سندھ از بھیرو مل مہر چند آڈوانی صفحہ نمر340 پر پر لکھتے ہیں کہ دیدک کے زمانے میں عام دستور تھا کے بیواہیں اپنی شوہر کے ساتھ زندہ آگ میں جلتے تھے ان کو ستی کہا جاتا تھا، یہ راواج کیسے پڑا ، اس مطلعق کسی کو کوءی علم نہیں ہے، ڈاکٹر انباش چندر داس کے خیال میں کے اس رسم کا مطلب یہ تھا کے مرنے کے بعد ان مردون کے کام کیلءے ان کے عورتوں کا ساتھ ہونا ضروری تھا تاکہ مرنے کے بعد دوسری جہاں میں ان کےبیویاں ان کے ساتھ ہو، یہ قدیم مصری تھذیب کا رسم تھا، جو مرنے والے کے ساتھ زندگی میں تما م استعمال شدہ چیزیں رکھتے تھے، ان کا کہنا تھا کے مرنے والے کے ساتھ دوسری جہاں میں یہ کام آءینگے،
اگر دیکھا جائےکچ میں ایک آستان کا معلومات ملتی ہے جن کو ستین جو آستان کہا جاتا ہے کچ کے ستین جو آستان کے مطعلق تاریخ ریگستان حصہ پہلا صفحہ نمبر 79،80،81میں ذکر ہے کے جب جب سومرو کا حاکم بھونگر کا جب انتقال ہوا تو دو بیٹے دودو ، چنیسر تھے، تو دودو روپاہ پر تخت نشین ہو ، تو چنیسر اس پر ناراض ہوکر دہلی کے بادشاہ علاالدین خلجی کے پاس مدد کیلءے گیا علالدین نے اپنے سپہ سالار سالار خان کو سندھ پر حملہ کرنے بھیجا گیا جو میرپور ماتیلی کے پاس سخت جنگ لڑا گیا، جس کے بعد سالار خان نے روپاہ پر حملا کیا جب، سالا ر خان نے جب قلعہ فتح کیا تو قلعہ کے اندر کچھ بھی نہیں تھا تب اس و علم ہوا کے سومروں نے کچ کے طرف پہلے ہی اپنے خاندان والوں کوبھیج دیے ہیں، ابڑو جو کچ و ڈسرکا حاکم تھا سالار خان نے ان سے سومرہ خاندان کے لوگوں کی حوالگی کی مانگ کی جس پر ابڑو نے کہا یہ میرے پناہ میں ہیں جن کی حفاظت کے خاطر جان دینے سے گریز نہیں کرونگا، جس پر سالار خان کو غصہ آگیا اور قلعہ پر حملا کیا اور ابڑوسردار اپنے خاندان سمیت جنگ کرتےہوءے جان کی بازی دے کر امانت کی حفاظت کیا، آخر سومرہ خاندان کے عورتوں مالک کے در اپنی عزتوں کے التجاع کی، کہتے ہیں کے اس وقت زمین پھٹ گیااور سارے عورتیں اس غار میں چلے گءیں، اوروہ غار بند ہوگیا جس کا نام ستیوں کاآستان کے نام سے مشہور ہے،جو کچ اڈسر میں موجود ہے،،،،اسی طرح کا واقعہ معیار سالکان طریقت اور تحفتہ الکرام میں بھی ہفت دختر کے نام سے تحریر شدہ ہے، جس میں سومرہ خاندان کے ہی عورتوں کا ذکر ہے جو بہت پاکدامن تھے، خدا پرست اور تارک دنیا تھیں، جو تلہار میں رہتی تھیں، سید یعقوب مشہدی ک کا جب وہاں سے گذر ہوا تو وہ ان کے ساتھ ساموی پہنچ گئے، یہاں سمہ زادے ان کے خواہشمند ہوگئے تھے، لوگوں کو بھیجا کے ان کو گرفتار کر کے لاو،شیخ جھنڈہ پاتنی نے انے دریا عبور کرانے کی کوشش کی ابھی دریا کے اس پار پہنچی تھی تو ان کے دشمن ان کے پیچھے پہنچ گئے ، جب ان ہفت مآب لڑکیوں نے دیکھا کے اب ہمیں اب امان ملنا مشکل ہے تو انہوں نے اللہ کے بارگاہ میں عرض کی کہ ہماری حفاظت فرما اور ہمیں زمیں میں چھپالے، ان کی دعا اس وقت قبول ہوگءی زمیں میں شگاف پڑگیا جس میں یہ ساتوں لڑکیاں چھپ گءیں، موضع ساموی کے پہلو میں اس دن سے یہ جگھ زیارت گاہ عام و خاص ہے، اور اگر بکھر روہڑی کے ستیںوں کے آستان مطعلق تحیق کرتے ہیں تو تذکرہ امیر خانی کے صفحہ نمبر 48پر لکھتا ہے کہ بکھر، روہڑی میں میر صاحب نے بہت سے یادگار چھوڑے ہیں جن میں سے ایک بھی سلامت نہیں ہے،فقط صفہ صفا (ستین کے آستان )کے، جو آثار قدیمہ کیوجہ سے آج تک سلامت ہے، تذکرہ امیر خانی اور تاریخ مظہر شاہجہانی اس پر متفق ہیں کے بکھر کا صفہ صفا اور سیوہین کا یہ تنبھی کا ایک ہی نام صفہ صفا ہے، بکھر کے مطعلق لکھتے ہیں کے ابوالقاسم نمکین نے سیوہن پر ایک پہاڑی پر ایک عمارت بنواءی جب وہ سیوہن کے صوبیدار تھے، اس وقت صفہ صفا پر چاندنی راتوں میں مجلس ہوتے تھے، عالموں ادیبوں کے بیھٹک ہوتے تھے،تذکرہ امیر خانی دونوں آستانوں کو صفہ صفا لکھا ہےاور جب کے ، تاریخ مظہر شاہجہانی کے مصنف نے سیوہن کے ابوالقاسم نمکین کے آستان کو یک تنبھی اور چار تنبھی اور صفہ وفا لکھا ہے، اور سکھر کے آستان کو صفہ صفا لکھا ہے، ،۔اور اورتذکرہ شہباز کے مصنف عبدالمجید میمن نے صفحہ نمبر 85پر سیوہن کے ابوالقاسم نمکین کےآستا ن کو یک تنبھی اور چار تنبھی اور صفہ وفا لکھا ہے، سکھر کے آستان کو صفہ صفا لکھا ہے تاریخ مظہر شاہجہانی نے ستیوں کے آستان کو سیت پور ناہراں لکھتے ہیں تاریخ مظہر شاہجہانی کے ہی صفحہ نمبر 121 میں ستیوں کے آستان کے مطعلق لکھتے ہیں کہ بکھر قلعے کے سیت پور ناہراں کی جانب ہے، پانی کم ہے اور کبھی کبھی موسم سرما میں اس حد تک پانی میں کمی ہوجاتی ہے یہاں دریا پایاب ہوجاتا ہے، اس کے دوسرے طرف سکہر شہر دریا کنارے واقع ہے، مشرق کے تھوڑے فاصلے پر آستانہ خضر عیہ السلام دریا کے وسط میں ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ہے، اور قلعے کے مغرب کے طرف ایک کوس پر دریا کے درمیان ہی مسطعح پہاڑی ہے جہاں پر کچھ کجھوریں ، درخت اور گنبذ ہے اس پہاڑی کو سادہ بیلہ کہا جاتا ہے، جس کو سادہ بیلہ سے شاد بیلہ بن گیا اور سیتا پور، سیت ناہران سے ستیوں کا آستان بن گیا ، جو ڈاکٹر علنواز شوق صاحب شاید اسی جگھ کو ستیا سر یا ستیا سر لکھا ہے اپنی کتاب تاریخ کتاب میر معصوم بکری کے صفحہ نمبر 317پر۔،، تاریخ ریگستان کے حساب سے ستیوں کا آستان کچ و ڈسرمیں اور ،معیار سالکان طریقت اور تھفتہ الکرام کے حساب سے ستیوں کا آستان ، موضع ساموی میں
سیتا سر ستیا سر، سیتا پور یا سیت ناہران کو ہی ستین جو آستان اور صفہ صفا کہا جاتا ہے اور تو مآثر رحیمی کے کتاب کے حاشیہ صفحہ نمبر110 پر لکھتے ہیں میر معصوم بکھری نے ایک چبوترا چار گوشہ تعمیر کرایا تھا ، سندھی میں چار گوشہ کو چار کنڈی کہا جاتا ہے، اب تو یہ اور حل طلب معاملہ بن گیا ہے، پہلے7 نام اب 8نام ہوگئے۔ جبکہ علینواز شوق صاحب اپنے کتاب امین الملک نواب میر محمد معصوم بکری کے صفحہ نمبر295پر لکھتے ہیں کہ چوکنڈی کا چبوترہ زمین سے دس پندرہ فٹ اونچا ہے، سیڑھیوں کے ذریعے اوپر قبروں تک پہنچا جا سکتا ہے، بنیادی چوکنڈی کے ساتھ دوسری عمارتیں تعمیر کی گءی تھی، میر معصوم والی عمارت وہ جو پتھروں کے ستونوں پر قاءم ہے، اس عمارت کے بیس ستونوں میں سے آٹھ خالی ہے باقی سب پر آیات کندہ ہیں، جو بدر ابڑو صاحب بھی علینواز شوق صاحب کے بات سے متفق ہے، دونوں نے ایک ہی تصور پیش کیا ہے، کہ چوکنڈی ہی سیتا سر ،ستیا سر، سیتا پور یا سیت ناہران ستیوں کاآستان اور صفہ صفا ، قاسم خانی اور چوکنڈی ایک ہی نام ہے بس تاریخ کو مسخ کرنے کے خاطر لوگوں کی تاریخ کو تباھ کیا گیا ہے، ہمیں چاہیءے کے تاریخ کو رنگ نسل فرقے اور قمیت سے بالاتر ہوکر تاریخ کو لکہیں، اپنے نءے نسل کیلءے تاریخ کو اجاگر کریں، اور جدید دور کے جدید تحقیقی بنیادوں پر اپنی تاریخ کو لکہیں، ہمارے تاریخدانوں نے جو تاریخ کا بیڑا غرق کیا ہوا ہےاس میں ہم بھی کے شامل ہیں، اگر ہم نے اپنی تاریخ کو درست راہ نہ دکھاءی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگا، ایک اور بات ہمارے پڑھے لکھے انگریز دانشوروں کیلءے کے پڑھنے کیلءے سمجھنا ضروری ہوتا اور سمجھنے کیلءے مشاہدہ کرنا ضروری ہوتا ہے،
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر