ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گجر پورہ کے قریب خاتون سے زیادتی کے کیس کا مرکزی ملزم عابد علی تاحال روپوش ہے، گرفتاری دینے والے دوسرے ملزم وقار الحسن نے جرم میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ۔ سی آئی اے پولیس ملزم وقار سے تفتیش کر رہی ہے ۔ ملزم وقار کے برادر نسبتی کے دو بھائیوں اور مرکزی ملزم عابد کے والد اور دو بھائیوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ۔ دوسری طرف ملک کے دوسرے شہروں میں موٹر وے زیادتی کیس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ احتجاجی مظاہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے ۔
زیادتی کے اصل ملزمان کو گرفتار کر کے نشانِ عبرت بنایا جائے ۔ دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومت کے ادارے تحقیقات میں مصروف ہیں ‘ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملزمان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ روزنامہ 92 نیوز 14 ستمبر کی خصوصی اشاعت میں صوبے میں ہونے والی جرائم کی خبروں کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے جسے دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔ یقینا کچھ ملزم گرفتار بھی ہوتے ہونگے مگر آگے جا کر سب رہا ہو جاتے ہیں ۔
معروف تجزیہ نگار جناب انور محمود نے روزنامہ 92 میں بجا طور لکھا کہ اس واقعہ پر میں پریشان ہوں کہ کیا ہم انسان ہیں بھی اور اگر ہیں تو کس سطح کے ۔ چھ سال ہونے کو آئے کہ پنجاب پولیس صرف ایک اور واحد چھوٹے بھائی کی زیر نگرانی تھی ، اس نے انتہائی قریب سے مردوں اورعورتوں یہاں تک کہ ایک حاملہ خاتون کو گولیاں مار کر قتل کر دیا ، اس واقعہ کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی اور 14 بے گناہ مردو خواتین کا خون رائیگاں گیا ۔ شائد ایک اعلیٰ سطح کی جامع جوڈیشل رپورٹ کے باوجود کچھ نہیں ہوا ، لیکن اس سے کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہئے ۔ کیا کوئٹہ میں سڑک پر حاضر سروس ٹریفک پولیس اہلکار کو گاڑی تلے روند کر قتل کرنے والے مجید اچکزئی کو نہیں چھوڑ دیا گیا ؟کیا ایسا نہیں سمجھا گیا کہ ویڈیو فوٹیجز ملزم کو سزا دینے کیلئے کافی نہیں ہیں ؟ موٹر وے زیادتی کیس سے پہلے پنجاب میں آئی جی کو تبدیل کر کے ان کی جگہ ملتان میں تعینات ہونے والے ایڈیشنل آئی جی انعام غنی کو آئی جی بنایا گیا اور ڈی جی خان سے تبدیل ہونے والے پولیس افسر عمر فاروق شیخ کو سی سی پی او لاہور تعینات کیا گیا ۔انعام غنی کی جگہ ملتان میں نئی تعیناتی ابھی سامنے نہیں آئی ، تحریک انصاف کے مخالف حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے آنے کے بعد اہم عہدے پشتونوں کو دیئے جا رہے ہیں اور اسلام آباد و خیبرپختونخواہ کے بعد پنجاب کی کمان بھی ایک پختون پولیس آفیسر کو دی گئی ہے ۔
ن لیگ کی طرف سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ آئی جی استعفیٰ دیںسی سی پی او کو برطرف کیا جائے ۔ حالانکہ آئی جی کے استعفیٰ کے مطالبے کی بجائے اس بات کا مطالبہ ہونا چاہیے کہ پنجاب میں صوبہ بنایا جائے کہ اتنے بڑے صوبے کو کنٹرول کرنا ایک آئی جی اور ایک چیف سیکرٹری کے بس کی بات نہیں ، تین صوبے ایک طرف اور پنجاب ایک طرف پھر بھی پنجاب کی آبادی زیادہ ہے ، ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ عمران خان اپنے انتخابی منشور کے تحت فوری طور پر صوبے کے لئے اقدامات کریں ، اس سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی ، پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو گا اور حقیقی معنوں میں نیا پاکستان تبدیل ہوتا نظر آئے گا ۔
وسیب میں موٹر وے زیادتی کیس پر احتجاج ہو رہا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وسیب میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہوتے ہیں ، مگر ایکشن نہیں لیا جاتا ۔ شہباز شریف دور میں وسیب میں ماورائے عدالت پولیس نے بہت قتل کئے مگر کسی ایک کی بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ، کیونکہ ایف آئی آر انہی نے درج کرنی تھی جو قاتل تھے ۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کو جب ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو اس پر پورے ملک میں احتجاج ہوا ، خصوصاً خیبرپختونخواہ کے بعد سب سے بڑے احتجاجی کیمپ کراچی میں لگائے گئے ۔
احتجاجی کیمپوں میں جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق ، جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی کی جملہ قیادت کے ساتھ ساتھ خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی پہنچے تھے اور نقیب اللہ محسود کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے والے گرفتار نہیں ہونگے ‘ تو میری ان تمام زعماء سے اتنی گزارش ہے کہ جس طرح نقیب اللہ محسود کسی کا بیٹا تھا یا جس طرح بشریٰ زیدی کسی کی بیٹی تھی تو فضہ یٰسین بھی کسی کی ماں جائی ہے ، وسیب کو ماسوا انصاف کے کچھ نہیں چاہئے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کراچی میں وسیب کی دوشیزہ پر ظلم کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ وہاں پر یہ آئے روز کے واقعات ہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے گھروں میں اکثر وسیب کی خواتین کام کرتی ہیں ۔ کام کرنے والی خواتین کی عمریں چھ سال کی بچی سے لیکر 60 سال کی بوڑھی تک ہوتی ہیں ۔ وہاں پر ان کو ماسی کہا جاتاہے ۔
یہ بھی ایک ستم دیکھئے کہ ماسی ماں کی بہن کو کہتے ہیں اور یہ کا مقدس ترین رشتہ ہے جو کہ نوکرانی کے معنوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ دنیا کی کسی لغت میں ماسی کا مطلب نوکرانی نہیں ہے مگر کراچی میں کام کرنے والی چھ سال کی بچی بھی ماسی ہے اور ساٹھ سال کی بوڑھی بھی ۔ ایک ستم یہ بھی ہے کہ جیسے مختلف شہروں میں مزدوروں کے اڈے ہوتے ہیں،اسی طرح کراچی میں نوکرانیوں کے ماسی بازار ہیں ۔ جہاں سے گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وسیب میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ، افرادی قوت بھی وافر مقدار میں موجود ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم کئے جائیں اور وسیب کے لوگوں کو وفاق پاکستان میں صوبہ دیا جائے تاکہ وسیب کے لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کر سکیں اور آئندہ کوئی فضہ کسی ’’ ذیشان ‘‘ کے گھرکام نہ کرے اوراسکی لاش کسی پنکھے سے نہ لٹک رہی ہو۔ ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ