نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران حکومت کی بابت مثبت تاثر کو فروغ دینے کے لئے جو افراد میڈیا سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ان میں سے کسی ایک سے بھی میری ذاتی شناسائی نہیں۔ ہمارے میڈیا کے چند بااثر دوستوں سے مگر برسوں پرانے رشتے ہیں۔ وہ میری گوشہ نشینی کے بار ے میں واقعتا متفکر رہتے ہیں۔ بہت خلوص سے یہ چاہتے ہیں کہ میں محفل بازی کی جانب لوٹ آئوں۔ پھکڑپن اور یاوہ گوئی کی رونق برقرار رہے۔
گزشہ چند مہینوں سے مگر وہ بذاتِ خود بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹی وی صحافت سے وابستہ ساتھی بالخصوص بے تحاشہ دبائوکی زد میں آئے محسوس ہوتے ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کی اکثریت بضد ہے کہ میڈیا ان کے ساتھ ’’دوستانہ ‘‘نہیں۔ ’’منفی خبریں‘‘ موجود نہ بھی ہوں تو انہیں ’’گھڑنے‘‘ کے مواقعہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ میرے دوستوں کو انہیں مطمئن کرنے کے راستے نظر نہیں آرہے۔ گزشتہ ہفتہ اس حوالے سے بہت ہی ہیجان خیز رہا۔
لاہور میں پولیس کی ساکھ اور دبدبے کو بحال کرنے کو بہت سوچ بچار کے بعد عمر شیخ صاحب کو مکمل اختیارات دے کر اس شہر بھیجا گیا۔ ان کی تعیناتی مگر سابقہ آئی جی نے اپنی توہین محسوس کی۔ میڈیا میں رونق لگانے والا قضیہ کھڑا ہوگیا۔ اس کی بدولت عمر شیخ صاحب کو متنازعہ بنانے والی ’’خفیہ رپورٹ‘‘ بھی منظرعام پر آئی۔ عمران حکومت کی ’’اصلاحات پسندی‘‘ پر سوالات اُٹھنے لگے۔ عمران خان صاحب کی اپوزیشن کے زمانے میں ہوئی تقاریر سے وڈیوکلپس بھی نکالے گئے۔ انہیں چلاتے ہوئے یاد دلانے کی کوشش ہوئی کہ وعدہ تو پولیس کو ’’عوام دوست‘‘ اور ’’سیاست سے پاک‘‘کرنے کا ہوا تھا۔
ابھی یہ قضیہ شروع ہی ہوا تھا کہ لاہور-سیالکوٹ موٹروے والا دلخراش واقعہ رونما ہوگیا۔ اندھی نفرت و عقیدت سے بالائے طاق ہوکر سوچیں تو مذکورہ واقعہ کے فوراََ بعد عمر شیخ صاحب نے ’’علم سماجیات‘‘ پر مبنی جو تھیوری برجستہ بیان کی وہ ہر حوالے سے غیر مناسب تھی۔ اس نے پڑھی لکھی متوسط طبقے کی خواتین کو جائز بنیاد پر اشتعال دلایا۔ اس ضمن میں ذاتی تجربہ بیان کرنا ضروری ہے۔ میری چھوٹی بیٹی ہر لحاظ سے غیر سیاسی ہے۔ اخبارات تو آج کے بچے پڑھتے نہیں۔ کبھی ٹاک شوز دیکھا کرتے تھے۔ کافی عرصے سے اگرچہ انہوں نے وہ دیکھنا بھی چھوڑدئیے ہیں۔ ان شوز کی مقبولیت کے عروج کے دنوں میں بھی لیکن میری چھوٹی بیٹی ان کی ناظر نہیں رہی۔ کرونا کے دنوں سے اسے کھانے پکانے کا شوق لاحق ہوچکا ہے۔ یوٹیوب سے رجوع کرتے ہوئے کھانے بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہے۔ گزشتہ ہفتے میں اس وقت بہت حیران ہوا جب اس نے مجھے اطلاع دی کہ وہ اسلام آباد پریس کلب کے باہرلاہور واقعہ کی مذمت کرنے والے احتجاج میں شرکت کے لئے جارہی ہے۔ اس ذاتی تجربے سے مجھے انداز ہوا کہ قطعاََ ’’غیر سیاسی‘‘ بچیاں بھی لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ہوئی درندگی کی وجہ سے پریشان، دہشت زدہ اور مشتعل محسوس کررہی ہیں۔ تحریک انصاف پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ابھرے اور پھیلے جذبات کو کمال مہارت سے فوراََ بھانپ لیتی ہے۔ Digital Data کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیتے ہوئے وہ بخوبی جانتی ہے کہ فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب کے ذریعے اپنی ترجیح کے بیانیے یعنی Narrative کو کیسے فروغ دینا ہے۔ روایتی میڈیا کی ساکھ کو اس جماعت کے جذباتی کارکنوں نے ’’بکائو‘‘ اور ’’لفافے‘‘ کی تکرار سے ویسے ہی شدید زک پہنچائی ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر اس جماعت کے ناقدین اینکر اپنے اداروں کو ’’مالیاتی بحران‘‘ کا شکار بناتے بھی محسوس ہوئے۔ ان کی بالآخرفراغت بھی ہوگئی۔
روایتی میڈیا کی ساکھ کو ’’بے نقاب‘‘ کرنے کے بعد تحریک انصاف نے یوٹیوب کے ذریعے اپنے بیانیے کی تشہیر کے لئے حق گو اور بلندآہنگ صحافیوں کا ایک گروہ بھی ڈھونڈلیا۔ ان کے Subscribers لاکھوں میں ہیں۔ ان کے اثر کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے بیانیہ سازوں کو اس فکر سے آزاد ہوجانا چاہیے تھا کہ ’’بکائو‘‘ میڈیا میں کیا شائع اور نشرہورہا ہے۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا۔ ’’پرانے‘‘ میڈیا کو راہِ راست پر رکھنے کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ میڈیا کی ساکھ فقط اسی صورت برقرار رہتی ہے اگر اخبارات اور ٹی وی سکرینوں پر ’’سوپھول اپنی بہار‘‘ دِکھاتے نظر آئیں۔ اس حکومت کے میڈیا منیجرز سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ سوشل میڈیا بنیادی طورپر Rage یعنی غصہ اور اشتعال کے برجستہ اور مؤثر اظہار کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ہوئے واقعہ نے اس میڈیا کے لئے ہرحوالے سے بہت ہی طاقت ور کنٹینٹ یعنی مواد فراہم کیا۔ عمر شیخ صاحب کی سماج سدھارتھیوریاں اس کا توڑ فراہم نہیں کرسکتی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ہوئے سانحے کے ذمہ داروں کا فرانزک اور موبائل فونز پرکڑی نگاہ رکھنے والی سہولتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے سراغ لگایا جاتا ۔روایتی اور سوشل میڈیا پر برپا شور کو نظرانداز کرتے ہوئے اس سانحے کے ملز موں کو جلد از جلد گرفتار کرنا آج کے Digital زمانے میں ہر صورت ممکن تھا۔ بجائے اس ہدف پر توجہ مرکوز رکھنے کے پنجاب انتظامیہ اور اس کے ترجمان ’’بیانیے‘‘ کی جنگ میں الجھ گئے۔ ’’بیانیہ‘‘ مگر ٹھوس مواد کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ اس کے بغیر دنیا کاسمارٹ ترین Spin ڈاکٹر بھی ’’منفی‘‘ کو ’’مثبت‘‘ ثابت نہیں کرسکتا۔ دنیا بھر کی حکمران اشرافیہ مگر ’’تجزیے‘‘ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اسے یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ وہ عقل کل ہے’’حق‘‘ بات وہی ہے جو وہ بیان کریں۔ ٹرمپ کے لکھے ٹویٹ پر سوالات اٹھانے والے ’’عوام دشمن‘‘ پکارے جاتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک میں اگر حکمران ایسا سوچتا ہے تو اپنے ہاں کے حکمرانوں کو دوش کیوں دینا۔ہم تو صدیوں سے سلطانوں اور بادشاہوں کی ’’ذہانت‘‘ کے آگے سرنگوں رکھنے کے عادی رہے ہیں۔ ’’سرکار‘‘ ہمیشہ ’’مائی باپ‘‘ تصور ہوتی رہی۔ اسے ’’نادان بچوں‘‘ کو ’’ڈنڈے‘‘ سے سیدھا رکھنے کا ’’حق بھی حاصل رہا۔ آپ اور میں لیکن پسند کریں یا نہیں زمانہ اب بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں حکمرانی کے جو ڈھانچے رائج ہوئے تھے اس صدی کے آغاز میں بہت تیزی سے شکست وریخت سے دوچار ہونا شروع ہوگئے۔ ریاست کے رعب اور دبدبے کو برقرار رکھنے کے لئے لہذا قومی اور مذہبی بنیادوں پر ٹرمپ جیسے Populist نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ ترکی کا اردوان ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی عظمت وسعت بحال کرنے کے مشن پر مامور ہوا۔ ہمارے ہمسائے میں نریندرمودی ہندو انتہاپسندی کی آگ بھڑکانے میں جت گیا۔ عمران خان صاحب کئی حوالوں سے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتی اس نئی روش کے نمائندہ تھے۔ سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چور اورلٹیرے‘‘ ان کے دشمن تھے۔ انہوں نے اس ’’نظام کہنہ‘‘ کو جڑ سے اکھاڑنے کا وعدہ کیا جو ’’باریاں‘‘ لینے والے ’’موروثی سیاست دانوں‘‘ کا غلام ہوا نظر آرہا تھا۔ ٹرمپ نے “America First” اور برطانیہ کے بورس جانسن نے Brexit کے نام پر جو خواب دکھائے تھے وہ مگر شرمندئہ تعبیر نہ ہوپائے۔ نریندرمودی کی ’’54انچ چھاتی‘‘ لداخ میں چینی افواج کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہی۔ بھارتی معیشت اس کی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے جمود کا شکار ہوئی۔ کرونا کے بعد اب منفی کی سطح سے پاتال کی جانب لڑھک رہی ہے۔ عمران خان صاحب اس تناظر میں یقینا خوش نصیب ہیں۔ کرونا نے ہمارے ہاں وہ تباہی نہیں مچائی جو امریکہ، بھارت اور اٹلی جیسے ممالک میں نظر آئی۔ ہماری معیشت کی بحالی کے امکانات بھی روشن تر ہیں۔ایسے ماحول میں انہیں ’’تخت یا تختہ والا‘‘ وہ ماحول برقرار رکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں جو انہوں نے ’’باریاں‘‘ لینے والوں کے خلاف اپنے دور اپوزیشن میں بنایا تھا۔ مشکل مگر یہ ہے کہ جب عمران خان صاحب کو ذرا ’’ٹھنڈا‘‘ ہونے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ اور ان کے مداحین یہ سوچتے ہیں کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے لئے NRO مانگا جارہا ہے۔ مبینہ NRO کے بغیر بھی لیکن نواز شریف صاحب ’’سزا یافتہ‘‘ ہوتے ہوئے بھی جیل سے نکال کر لندن بھیج دئیے گئے۔ خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی احتسابی عمل پر سخت سوالات اٹھانے والے عدالتی فیصلوں کی بدولت سیاسی عمل میں بدستور متحرک ہیں۔ ’’پرچی کی بدولت چیئرمین ہوا پسرزرداری‘‘ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں پشاور میں ایک بھرپور اجتماع سے خطاب فرمایا ہے۔ ’’احتسابی عمل‘‘ قصہ مختصر وہ ماحول نہیں بناپایا جس کی توقع باندھی جارہی تھی۔تحریک انصاف کو اس تناظر میں قطعاََ ایک نئے ’’بیانیے‘‘ کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان دنیا سے کٹا کوئی جزیرہ نہیں ہے۔ دنیا میں ریاستی رعب اور دبدبے پر سوال اٹھانے والی جو لہر رونما ہورہی ہے وہ ہر صورت پاکستان کا رخ بھی کرے گی۔ ہمارے حکمرانوں کو انتہائی ٹھنڈے دل سے اس کی پیش بندی کے راستے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ