نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ٹی وی کے مسئلے کب حل ہونگے؟۔۔۔ظہور دھریجہ

یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے میپکو کا ریکارڈ گواہ ہے کہ لوگ ہر ماہ بجلی بلوں کے ذریعے 12 سے 15 کروڑ روپے پی ٹی وی کو دے رہے ہیں

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں اسلام آباد میں سیکرٹری اطلاعات اکبر درانی سے ملاقات کی ، دوسرے امور کے علاوہ میں نے ان سے پی ٹی وی کے مسائل کا ذکر کیا اور کہا کہ پی ٹی وی کی لائسنس فیس 35 روپے سے بڑھا کر 100 روپے کرنے کی تجویز نہایت ہی نا مناسب ہے کہ غریب پہلے سخت مالی مشکلات کا شکار ہے، مزید برآں یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی وی کو پرائیوٹ چینلوں کے مقابلے میں بہت کم دیکھا جاتا ہے ۔ جس طرح پرائیوٹ چینل اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں ، پی ٹی وی کو بھی غریبوں کی امداد کے سہارے نہیں چلنا چاہئے ۔ اس کے ساتھ میں نے اپنے علاقے کا ذکر کیا اور کہا کہ پی ٹی وی ملتان جو کہ خطہ کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے ذریعے بنوایا ، کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے ۔

پی ٹی وی ملتان میں ڈرامہ و دیگر پروگراموں کی ریکارڈنگ عرصہ سے عطل ہے ۔علاقائی کے شاعر ، ادیب ، دانشور اور آرٹسٹوں کو اپنے فن کے اظہار کے مواقع نہیں مل رہے ۔ آپ کے علم میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ پی ٹی وی ملتان کے کیمرے برسوں پہلے لاہور گئے ، آج تک واپس نہیں آئے اور شنید ہے کہ پی ٹی وی اسلام آباد کے افسران بالا کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی وی ملتان سے بقایا کیمرے بھی واپس منگوا لئے جائیں کہ مستقبل قریب میں یہ سنٹر بند ہونے والا ہے ۔اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے افسران نے پی ٹی وی ملتان کو بند کرنے کی کوشش کی تو بہت بڑا رد عمل سامنے آئے گا ۔

یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے میپکو کا ریکارڈ گواہ ہے کہ لوگ ہر ماہ بجلی بلوں کے ذریعے 12 سے 15 کروڑ روپے پی ٹی وی کو دے رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے کیا مل رہا ہے ۔ پی ٹی وی نے کوئٹہ سے بولان سنٹر بنایا ہواہے، جو کہ رات دن علاقائی نشریات دیتا ہے ۔کیا پی ٹی وی ملتان علاقائی نشریات نہیں دے سکتا ؟ پی ٹی وی ملتان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک بند ہونا چاہئے او لوگوں کو احساس دلانا ہوگا کہ وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ ماہ 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر ملی گیت جگہ جگہ سنے گئے کہ تو بھی پاکستان ہے، میں بھی پاکستان ہوں ، یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے ، ان ملی گیتوں کو حقیقی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی محروم خطے سے بنگالیوں والا سلوک نہیں ہونا چاہئے ۔

صورتحال یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ پی ٹی وی حکام کسی کے سامنے جوابدہ نظر نہیں آتے۔ حالانکہ قانونی طور پر وہ سیکرٹری اطلاعات اور انفارمیشن منسٹر کے سامنے جواب دہ ہیں ۔ پی ٹی وی اور منسٹری کے درمیان تناؤ کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر میڈیا سبین عثمان خٹک نے ایم ڈی پی ٹی وی سے کہا کہ آپ نے اپنے خط میں تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے ۔ اور یہ تحفظات نان پروفیشنلزم کا مظہر اور آپ کے پی ٹی وی کے معاملے سے لا علمی ظاہر کرتا ہے۔

آپ نے جس طرح معاملات کو ہینڈل کیا اورریکارڈ میں تبدیلی کی اس کی وجہ سے ممکن ہے کہ پی ٹی وی جیسے اہم قومی ادارے کو خفت اور رسوائی کا سامنا ہو ۔ واضح ہو کہ اسی طرح خدشات کا اظہار اور الزامات پی ٹی وی ملازمین بھی لگاتے آ رہے ہیں اور داد رسی کیلئے وزارت اطلاعات کے حکام بالا کو لکھتے آ رہے ہیں ۔ وزارت اطلاعات کی طرف سے ڈائریکٹر میڈیا محترمہ سبین عثمان نے ایم ڈی پی ٹی وی کو مزید کہا کہ آپ وزارت اطلاعات کے ماتحت ہونے کے باوجود وزارت سے کسی طرح کی مشاورت نہیں کرتے اور بورڈ میٹنگ کے سلسلے میں وزارت اطلاعات کو اعتماد میں نہیں لیتے ۔

آپ اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر الٹا وزارت پر غلط الزامات لگاتے ہیں جو کہ آپ اختیارات سے تجاوز ہے ۔ پی ٹی وی کے حکام کہہ رہے ہیں کہ اخراجات پورے کرنے کیلئے فیس میں اضافہ ضروری ہے جبکہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر پی ٹی وی مالی مشکلات کا شکار ہے تو 5 سے 20 لاکھ کے بھاری معاوضوں پر نئے لوگ کیوں رکھے جا رہے ہیں ۔ اسلام آباد وزٹ کے دوران پی ٹی وی گیا تو وہاں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ حال ہی میں پی ٹی وی انتظامیہ نے ایک کنسلٹینسی فرم کی خدمات بھاری معاوضہ پر حاصل کی ہیں ، جو کہ پرانے تجربہ کار افسران اور اہلکاروں کو قبل از وقت فارغ کرنے کا طریقہ کار طے کرے گی۔ معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی وی انتظامیہ نے قریباً 6000 حاضر سروس ملازمین میں سے 2400 ملازمین فارغ کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی انتظامیہ نے ویب سائیٹ پر بھرتی کا اشتہار بھی دیا ہے اور من پسند لوگوں کو بھاری معاوضوں پر رکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور متعلقہ وزارت کو اس مسئلہ کو احسن طریقے سے حل کرنا ہوگا ۔ گزشتہ 2 سال سے ریٹائرڈ ملازمین احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے بقایا جات ابھی تک نہیں دیئے گئے، میڈیکل کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہیں اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود پی ٹی وی حکام قومی اسمبلی جیسے قابل احترام ادارے کو غلط اعداد و شمار دیتے ہیں کہ پی ٹی وی فائدے میں آ گیا ہے ۔ جب کہ حقائق اس کے بر عکس ہیں ۔ جس کا اظہار سینیٹر فیصل جاوید گزشتہ دنوں ٹی وی چینل پر کر چکے ہیں کہ پی ٹی وی کی کارکردگی صفر ہے۔

سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کے مسئلے کب حل ہونگے ؟ بوجھ زیادہ ہو تو بوجھ کم کیا جاتا ہے ، یہاں صورتحال برعکس ہے، اب بھی بھاری معاوضوں پر ملازمین رکھنے کا عمل جاری ہے ، جسے ختم ہونا چاہئے ، گستاخی معاف ! یہ بھی کہوں گا کہ نجی چینلز اور اخبارات کو حکومت نے مالی بحران کا شکار کر دیا ہے ،حکومت کا کہنا ہے کہ نجی اداروں کو اپنے وسائل سے چلایا جائے مگر حکومت سرکاری میڈیا پر یہ فارمولا لاگو کیوں نہیں کرتی؟ پی ٹی وی ہمارا ایک قومی ادارہ ہے ، حکومت کو چاہئے کہ اس ادارے کو ایسے نا اہل انتظامیہ سے چھٹکارا دلائیں ، قابل اور ایماندار لوگ کے حوالے کیا جائے تاکہ یہ ایک منافع بخش ادارہ بن سکے ۔

About The Author