مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاڈے حال۔۔۔ مژدم خان

ڈاڈے حال ہمیشہ سے خوش شکل صحت مند گھوڑا پالتے آ رہے ہیں گھوڑے پالنے کا ایک مقصد تو جا بجا شادیوں میں شریک ہونا تھا دوسرا کانڈھے تقسیم کرنا تھا اور تیسرا مقصد دولہے کو گھوڑا مہیا کرنا تھا

مژدم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1-آباؤ اجداد کے قصے سنانے والا انکی تاریخ یاد رکھنے والا جسے دوسرے لفظوں میں میراثی کہا جاتا ہے یہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا نسل در نسل کام شادی میں مہمانوں کی خاطر توازا کرنا انکی تفریح کے لئے گانا ڈھول بجانا اور لطیفے قصے کہانیاں اساطیر سنانا ہوتا ہے
یہ دراصل ایک خاندان یا پاڑا یا قبیلے کا قدیم دور کا ویکیپیڈیا ہوتا ہے
یہ وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کے آباؤاجداد کے بارے میں آپ سے بھی زیادہ جانتا ہو
کیونکہ یہ نسل در نسل چلے آ رہے ہیں اور انکو باقاعدہ اسی کی تعلیم دی جاتی ہے
کہ وہ آپ کے خاندان یا قبیلے کی قدیمی معلومات رکھیں اور جب جب شادی واقع ہو تو اس میں شریک ہونے والی بارات کو اس سے آگاہ کریں کہ آپ کون ہیں اور آپکے آباؤ اجداد کا مرتبہ کیا تھا،
2- انکا معاشی نظام، یہ پورے خاندان سمیت شادیوں میں شریک ہوتے ہیں کیونکہ شادی ہی انکا واحد ذریعہِ معاش ہوتا ہے، شادیوں میں دولہے پہ لٹائی جانے والی کثیر رقم ویل کی صورت میں انکو ملتی ہے جس سے یہ گزر بسر کرتے ہیں ان دنوں میں جب شادیوں کا سیزن نہیں ہوتا، ڈاڈے حال کی بیوی جسے عام طور پر میراثن کہا جاتا ہے اس کا کام دولہن کی خدمت کے علاوہ چائے بنا کر مہمانوں کو پیش کرنا ہوتا ہے الغرض وہ تمام کام جو شادی کی مصروفیت میں گھریلو عورتیں سر انجام نہیں دے سکتیں وہ میراثن کی زمیداری ہوتے ہیں، میراثن دولہن پر لٹائے جانے والے پیسے ویل کی صورت میں لیتی ہے،
اور وہ ساتھ میں سہرے گاتی ہے یہ عموماََ بہت سریلی خواتین ہوتی ہیں اور خوب رو بھی یہ قدیمی طور پر فیشن ابل خواتین ہوتی ہیں اور دولہن کے لئے ایک مثالیہ
3-دولہن کو جس وقت پرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے یعنی بیاہے جانے کے لئے تو اس وقت دولہن کی اترن میراثن کو دی جاتی ہے
اور دولہے کی اترن میراثی کو، اترن میں وہ تمام تر چیزیں ہوتی ہیں جو دولہے نے پہنی ہوتی ہیں اسے شگون سمجھا جاتا ہے اترن نہ دینے پر اسے پنوتی تصور کیا جاتا ہے اور بدشگونی
میراثی اور میراثن ہمیشہ میاں بیوی ہوتے ہیں عموماََ بھی
4-گھر گرہستی کے اصول اور جنسی معاملات کی آگاہی، میراثن دولہن کو جہاں گھر گرہستی کے اصول سے آشنا کرتی ہے وہیں یہ جنسی معاملات کے حوالے سے آگاہ بھی کرتی ہے ، اور اسے اسکی اجرت ملتی ہے اور یہ ہمیشہ دولہن کے ساتھ رہتی ہے کہ کہیں کوئی بدشگونی پیش نہ آ جائے جیسے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان دنوں میں بھوت پریت جنات اور بری آتمائیں حملہ آور ہوتی ہیں گھوٹ اور کنوار پر
یعنی دولہے اور دولہن پر
اسی طرح میراثی دولہے کو جنسی معاملات اور ازدواجی زندگی کی آگاہی فراہم کرتا ہے،
5-جاگا، جاگنے کی رات، یہ رات رخصتی سے ایک دن پہلے کی رات ہوتی ہے
اس رات میں دولہا اور میراثی طنز و مزاح کا شکار بھی بنتے ہیں اور خود بھی حصہ لیتے ہیں ڈاڈے حال طنز و مزاح میں سب سے آگے ہوتا ہے یہ طنز کرتا ہے حتی کہ دولہے پر اسکی شکل پر اسکے دانتوں پر اسکے جسم کی میل پر اسکے بڑھے ہوئے ناخنوں پر طعنے کستا ہے اور دولہے کو بہت شرمندہ کرتا ہے اسکے دوستوں اور رشتے داروں کے سامنے اس کا مقصد صرف اسے زندگی اور گھر گرہستی کے اصول سکھانا ہوتے ہیں کہ اُسے صاف ستھرا رہنا چاہیے
اسی طرح عورتوں میں میراثن دولہے کی ماں کا امتحان لیتی ہے طنز و مزاح سے جس میں وہ اسے چڑاتی ہے اسے اُسکے یاروں کے طعنے دیتی ہے اور اسکے ظرف پر طنز کرتی ہے جس میں تمام عورتیں رفتہ رفتہ شامل ہو جاتی ہیں اس کا مقصد دولہے کی ماں کو اچھی ساس کے طور پر رہنے کی تنبیح ہوتی ہے کہ وہ اپنی بہو کے طنز و مزاح اور اسکے چٹکلے برداشت کر سکے
اور جو ساس چڑ جاتی ہے اسے اچھی ساس تصور نہیں کیا جاتا
اسی طرح میراثی نہ صرف دولہے کو طنز کا نشانہ بناتا ہے بلکہ اُس کے والد کو بھی نشانہ بناتا ہے اور اسکا مقصد بھی ہوبہو وہی ہوتا ہے جو اچھی ساس کے امتحان کے طور پر ہے
کہ سسر میں اتنی برداشت ہو کہ وہ بہو کی باتیں سہہ سکے،
6-کانڈھا ڈاڈے حال، میراثی کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پوری برداری میں شادی کا دعوت نامہ تقسیم کرتا ہے دور دراز علاقوں میں جا کر پہلے اس کام کے لئے انکے پاس گھوڑی یا گھوڑا موجود ہوتا تھا اب بھی بہت سوں کے پاس گھوڑی یا گھوڑا موجود ہوتا ہے کانڈھا تقسیم کرنے کے لئے کانڈھے تقسیم کرنے کی کوئی فیس نہیں ہوتی تھی، کیونکہ اسکی فیس ویلھ کی صورت میں اُسے ملتی ہے جو کہ عین شادی کے دن یا اس سے پہلے کی دو تین راتوں میں ڈھول/نگارا بجانے اور گانے گانے پر یا جھمر لگوانے پر اسے ملتی ہیں
ڈاڈھے حال کو یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ کون اس وقت برادری میں ہے کون برداری سے باہر نکل گیا ہے اُسے بتانا نہیں پڑتا کسے کانڈھا دینا ہے( دعوت نامہ )
7-بسترے اور چارپایوں کی عدم دستیابی کی صورت میں میراثی کی زمیداری ہوتی ہے کہ وہ برداری میں جا کر چارپایاں اور بسترے مانگتا ہے دو راتوں یا شادی کی راتوں کے لئے جو مہمانوں کے لئے ہوتی ہیں
8-مہنڈیاں، منگنی کی مہندی بنانا میراثی کا کام ہوتا ہے اس لئے کہ جب وہ مہندی لگائی جاتی ہے تو اس پر ویلھ ہوتی ہے جو میراثی کو ملتی ہے جس میں آوازیں لگاتا ہے جھوٹی آوازیں بھی لگاتا ہے بڑھا چڑھا کر ویلھ بتاتا ہے اس کا مقصد کمزور گھرانے کی عزت و آبرو کو براداری میں بڑھانا ہوتا ہے
منگنے کی مہندی کے بعد گجھی مہندی کا دن آتا ہے یہ مہندی بھی میراثی ہی لگواتا ہے اور اس میں بھی وہی سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے
پھر شادی کے دن کی مہندی بھی یہی لگواتا ہے اسی طرح لاواں اور لاویں کی مہندی بھی میراثی کا ہی کام ہوتا ہے، لاویں اور منگنی کی مہندی دولہن کے گھر جا کر لگائی جاتی ہے، الغرض تمام تر رسوم کا واحد مقصد میراثی کے معاش کو بہتر کرنا ہوتا ہے اور اسکے پیچھے وہ تصورات بھی ہیں کہ اسکی بد دعا لگتی ہے اور ویلھ ایک طرح کی خیرات و صدقہ ہوتا ہے جو تمام لوگ نکالتے ہیں اپنی اور دولہے کی خیر و عافیت کے لئے
اسی طرح میراثن کا کردار دولہن کی طرف ہوتا ہے،
9-ونڈ/میراث یہ ایک ہی خاندان ہوتا ہے اور ایک ہی برداری کے مختلف پاڑوں میں نسل در نسل چلا آ رہا ہوتا ہے ایک میراثی بھائی کو دوسرے بھائی کی جاگیر میں داخل و شریک ہونے کی اجازت نہیں ہوتی وہ ایک عام باراتی کے طور پر تو آ سکتا ہے مگر میراثی کے طور پر نہیں آ سکتا
انکی قوم ڈاڈے حال کہلاتی ہے یا میراثی جو نسل در نسل کسی ایک خاندان یا قوم میں میراثی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں
10-نگارہ، نگارہ اُس ڈھول کو کہتے ہیں جو انکے آباؤ اجداد کا ڈھول ہوتا ہے یہ عام بھنگڑے ڈالنے والے ڈھول سے الگ ہوتا ہے اسکی بیٹ بہت مدھم ہوتی ہے
اور اسکی آواز بہت دور تک سنائی دیتی ہے اور یہ نگارے نر مادی ہوتے ہیں
یعنی دو حصوں پر مشتمل ، جس سے یہ نگارے بجائے جاتے ہیں اُسے چوپاں کہا جاتا ہے ایک بہت باریک ڈنڈی ہوتی ہے اور ایک موٹی لکڑی
یہ نگارے صرف اور صرف جھمر کے لئے مختص ہوتے ہیں
11- ڈاڈے حال ہمیشہ سے خوش شکل صحت مند گھوڑا پالتے آ رہے ہیں گھوڑے پالنے کا ایک مقصد تو جا بجا شادیوں میں شریک ہونا تھا دوسرا کانڈھے تقسیم کرنا تھا اور تیسرا مقصد دولہے کو گھوڑا مہیا کرنا تھا
یہی سبب ہے کہ آج بھی خواتین یہ سہرا گاتی آ رہی ہیں ویر میڈا گھوڑی چڑھیا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھوڑا بہت مہنگا جانور تھا یا شاید ان دنوں میں گھوڑا فراری کار جتنا مہنگا ہو

%d bloggers like this: