وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم ایک واردات پر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں تو دراصل ہم دس اور وارداتوں کے لیے راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔
چلیں جی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی یہ بات مان لیتے ہیں کہ بدھ کو علی الصبح لاہور سیالکوٹ ایم الیون موٹر وے پر جس خاتون کا اس کے دو بچوں کے سامنے مسلح افراد نے ریپ کیا ، تشدد کیا ، سامان لوٹا اور فرار ہو گئے تو اس میں بنیادی غلطی عورت کی ہے۔
اس عورت کو دو چھوٹے بچوں کے ساتھ آدھی رات کو سنسان موٹر وے پر سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ہماری مائیں بہنیں کب اس طرح رات کو اکیلے نکلتی ہیں۔کم ازکم اسے گھر سے نکلنے سے پہلے چیک کر لینا چاہیے تھا کہ گاڑی تو ٹھیک ہے ۔پٹرول تو پورا ہے وغیرہ وغیرہ۔
مگر کیا میں دست بستہ ریاست اور حکومت سے ہاتھ باندھ کر پوچھ سکتا ہوں کہ چھ ماہ پہلے اس نوے کلومیٹر طویل موٹر وے کے افتتاح کے بعد اسے عام ٹریفک کے لیے کیوں کھول دیا گیا جسے آج تک موٹر وے پولیس کی تحویل میں نہیں دیا گیا۔جس پر آج تک کوئی سروس ایریا اور کوئی پٹرول پمپ نہیں کھل سکا۔کیا ان بنیادی سہولتوں کے بغیر کوئی موٹر وے عام ٹریفک کے لیے کیسے کھولا جا سکتا ہے۔
کیا متعلقہ اداروں نے اس موٹر وے کے افتتاح کے باوجود بارہا عوام الناس کو خبردار یا آگاہ کیا کہ اگر آپ کو اس سنسان بغیر سہولت والے موٹر وے پر دن یا رات کے کسی بھی پہر سفر کرنا ہو تو اپنی ذمے داری پر کریں۔اگر کوئی حادثہ یا واردات ہو گئی تو انتظامیہ ذمے دار نہ ہو گی۔تو کیوں نہ کوئی عدالت پھر ازخود نوٹس لے کہ کس نے اس موٹر وے کو بنیادی سہولتوں کے بغیر کھولنے کی اجازت دی اور فیتہ کاٹا۔
اس بنیادی غفلت سے توجہ ہٹانے کے لیے کس قدر آسان ہے کہ متاثرہ شخص کو ہی قصور وار قرار دے کر اپنی سنگین غفلتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔
میرا اپنا خیال ہے کہ جب کوئی مرد ، عورت ، بچہ یا ٹرانس جنڈر ، جسمانی و ذہنی معذور سڑک پر نکلتا ہے تو وہ صرف شہری ہوتا ہے جس کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔عورت ، ماں بہن بیٹی گھر یا سماج کے لیے ہوسکتی ہے مگر قانون کی نظر میں وہ صرف شہری ہے جس کے حقوق اور فرائض نہ کسی سے کم ہیں نہ زیادہ۔
جب آپ ریپ جیسے بھیانک جرم کے شکار کو قصور وار ٹھہراتے ہیں تو آپ دراصل بطور سرکار یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے بھروسے پر مت رہنا۔اپنی حفاظت خود کرنا۔یعنی آپ ہم سے ہماری حفاظت کے وعدے پر جو ٹیکس لے رہے ہیں وہ اصل میں غنڈہ ٹیکس ہے۔اس کا مطلب ہے کہ آئین شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائص کے بارے میں بھلے کچھ بھی کہتا رہے ، آئین کے صفحات میں ہر شہری قانون کی نگاہ میں بلاامتیازِ جنس ، نسل ، رنگ ، عقیدہ ، علاقہ بھلے برابر ہو مگر عملاً سرکاروں کی نظر میں کچھ اول درجے کے اور کچھ دوسرے درجے کے شہری ہیں اور رہیں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی ہر نئی پیڑھی کو یہ پڑھا اور بتا رہے ہیں کہ عورت میں ہی کچھ ایسی خرابی ہوتی ہے کہ مرد بے چارا خود پر قابو نہیں رکھ سکتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کا پہناوا اور چال ڈھال مرد کی مرضی کے ہونے چاہئیں۔
عورت بھلے ان پڑھ ہو کہ تعلیم یافتہ ایک بار اسے مرد نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اسے شام سے پہلے پہلے گھر پر ہونا چاہیے۔اسے صرف چند ایسی نوکریاں کرنا چاہئیں جنھیں مرد محفوظ سمجھیں، ورنہ کچھ ہو گیا تو ذمے دار بھی عورت ہو گی۔یہ سوچ کسی سڑک چھاپ کی نہیں بلکہ مجھ سمیت اکثر لکھاری ، اعلیٰ عہدیدار، دانشور ، قانون دان اور رہنما اسی طرح سوچتے ہیں۔
میں سو فیصد ماننے کو تیار ہوں کہ عورت اپنے چال ڈھال اور آڑے ٹیڑھے بھاؤ سبھاؤ کے سبب ریپ کا شکار ہوتی ہے اگر کوئی بس یہ سمجھا دے کہ دلی میں پچھلے ہفتے چھیاسی برس کی دادی اماں کی چال آخر کتنی مستانی تھی کہ ایک تیس سال کا ریپسٹ خود پر قابو نہ رکھ سکا۔
کراچی میں ہی پچھلے ہفتے ایک پانچ سال کی بچی کو ریپ کے بعد کیوں مار دیا گیا۔اس معصوم نے کون سا ایسا لباس پہن رکھا تھا جسے دیکھ کر ریپسٹ پگلا ہو گیا۔ قصور میں زینب نام کی جس بچی کا ریپ اور قتل ہوا وہ بھلا کون سی سنسان سڑک پر سفر کر رہی تھی۔
دو ہزار بارہ میں دلی کی چلتی بس میں جس لڑکی کا ریپ ہوا۔اس نے کس رنگ کا ہاف بلاؤز زیبِ تن کر رکھا تھا۔جنرل ضیا کے دور میں نواب پور قصبے میں ایک ہی خاندان کی چھ عورتوں کو بھرے بازار میں بنا کپڑوں کے گھمایا گیا۔کیا وہ عورتیں کسی فیشن پریڈ کی شو اسٹاپر تھیں ؟ یا پرویز مشرف نے کس سروے کی بنیاد پر کہا تھا کہ بہت سی عورتیں مغربی ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے بھی ریپ کرواتی ہیں۔
اور یہ جو کوئی بھی حکمران ، وزیر ، مشیر ، پولیس افسر یا رہنما ڈھیلے منہ سے کہہ دیتا ہے کہ بھیا ایسے کیسوں میں اکثرقصور وار تو عورت ہی نکلتی ہے۔کیا یہ تب بھی کہے گا اگر اس کے گھر کی کوئی عورت ، بچی یابچہ کسی ریپسٹ کے ہتھے چڑھ جائے۔ اگر ریاست یا متعلقہ سرکاری محکمے کھلے پھر رہے خونخوار درندوں سے ’’ جدید ریاستِ مدینہ‘‘ کی آدھی آبادی کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو کم ازکم ایسی ہر واردات کے بعد اپنا منہ تو بند رکھ ہی سکتے ہیں ۔ بھلے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی۔
جب بھی کسی ایسی واردات کے بعد رائے عامہ کا دباؤ پڑتا ہے تو اس دباؤ کو دبانے کے لیے ہمیشہ کی ہر طرح ہر بار وہی گھسے پٹے چمتکار دکھائے جاتے ہیں۔یا تو کئی کئی ہفتے ایف آئی آر نہیں کٹتی اور دباؤ پڑ جائے تو چوبیس گھنٹے میں دو دو ایف آئی آریں کٹ جاتی ہیں ، تین تین تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل پا جاتی ہیں ، ہر افسرِ و حاکم اپنے ماتحتوں سے مسلسل رپورٹ طلب کرنا شروع کر دیتا ہے۔مگر اس ڈرامے بازی کا نتیجہ عموماً کیا نکلتا ہے ؟
جس ملک میں ریپ کے خلاف بظاہر سخت قوانین کے ہوتے ریپ کی سو وارداتوں میں سے صرف چار کے ذمے داروں کو عدالت سے سزا ملنے کا تناسب ہو اور جہاں کمرہِ عدالت سے باہر صلح صفائی کے ڈرامے کو ریاست بند آنکھوں سے تسلیم کر کے مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کر دے۔ وہاں ریپسٹ اب بھی کم ہیں۔اس فضا میں تو انھیں سو گنا زائد پھلنا پھولنا چاہیے۔
جب ہم ایک ظلم پر خاموش رہتے ہیں اور جب ہم ایک واردات پر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں تو دراصل ہم دس اور وارداتوں کے لیے راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔اور پھر ہمارا یہ مسلسل ریت میں سر دبانے والا عمل اغوا، جبری طور پر غائب کرنے کے عمل ، ریپ اور غیرت کے نام پر قتل کو ایک نیو نارمل بنا دیتا ہے اور پھر ہم سمجھوتہ کر لیتے ہیں کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے۔سماج میں ایسے تو ہوتا ہی ہے۔ا
ور پھر ہم صرف اس وقت چیختے ہیں جب کوئی خونی یا ہوس کا پنجہ ہمارے گھر کی جانب بڑھتا ہے۔تب تک باقی لوگ بھی یہی سوچنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ شکر ہے یہ فلاں کے ساتھ ہوا ہے۔ہم اب تک محفوظ ہیں۔اور ہم سب جانتے بوجھتے بھی کتنی آسانی سے بھول جاتے ہیں کہ ’’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ