عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے ٹھیک ایک برس پہلے بیگم کلثوم نواز کا لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں انتقال ہو گیا۔ انتقال کے وقت کلثوم نواز وینٹی لیٹر پر تھیں اور دل کے عارضے کے علاوہ کینسر بھی ان کے جسم میں پھیل چکا تھا۔ گزشتہ کئی دنوں سے کلثوم نواز، نواز شریف اور مریم نواز سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ اس بات پر بہت حیران ہوتیں اور شکوہ کرتیں کہ ”باؤ جی جہاں بھی ہوں رات کو مجھے کال ضرور کیا کرتے تھے اب ایسی کون سی مصروفیت آن پڑی ہے“ ۔ لندن میں مقیم بچوں نے ان سے یہ بات چھپا کر رکھی تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز اس وقت جیل میں ناکردہ گناہوں میں قید ہیں۔
آخری دنوں میں کلثوم نواز میں جب بھی سکت ہوتی تو وہ خود بھی کبھی موبائل ہاتھ میں لے کر ”باؤ جی“ کو کال کرنے کی کوشش کرتیں مگر کوئی جواب نہیں آتا۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ ان کو گرفتاری کا علم نہ ہو جائے اور اس حالت میں ان کو مزید تکلیف پہنچے ان کے موبائل اور آئی پیڈ سے انٹرنیٹ کا کنکشن ختم کر دیا گیا تھا۔ اس صدمے سے بچانے کے لئے ان کے کمرے کے ٹی وی کا کنکشن بھی اتار دیا گیا تھا۔ لیکن کلثوم نواز کو دھڑکا تو لگا ہوا تھا۔ وہ ہر کسی سے پوچھتیں کہ ”تم لوگ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو“ ۔ ایک دن انہوں نے اپنی پرانی آیا سے بھی دریافت کیا کہ ”تم ہی مجھے اصل بات بتا دو۔ مجھے لگتا ہے یہ سب مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔“ لیکن کسی نے ان کو یہ صدمہ نہیں پہنچایا۔ وہ ہوش میں آتیں تو سوال ضرور کرتیں ”باؤ جی کا فون آیا، مریم کی کال آئی“ اور اسی جواب کے انتظار میں گیارہ ستمبر کو ان کی زندگی کا سانس سے رشتہ ٹوٹ گیا۔
اس بات کو تین سو پینسٹھ دن گزر چکے ہیں مگر جیل میں قید نواز شریف اب بھی اپنی والدہ سے پوچھتے ہیں ”امی جی کلثوم کو گئے ایک سال ہو بھی گیا؟“ ہر آنے جانے والے کے ساتھ وہ یہی ذکر کرتے ہیں۔ اس خیال سے رنجیدہ رہتے ہیں۔ یہی غم ان کو ستائے رکھتا ہے۔ ان کو سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ آخری لمحوں میں وہ اپنی وفا شعار بیوی کے ساتھ کیوں نہیں تھے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ”کلثوم کو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں قید ہیں“ ۔ اس غم سے نکلتے ہیں تو اب ہر ایک سے مریم نواز کی صحت اور سلامتی کی بابت ضرور پوچھتے ہیں۔
آج سے ایک سال پہلے کیا دن تھا۔ نواز شریف کا کلثوم نواز کے ساتھ زندگی کا سینتالیس سالہ سفر ختم ہو چکا تھا۔ نواز شریف کو طبعیت کی خرابی کی اطلاع ڈھکے چھپے الفاظ میں نیب کورٹ میں دی گئی تھی۔ جیل پہنچ کر تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف داروغہ جیل سے استدعا کر رہے تھے کہ کسی طرح ایک منٹ کی ہی بات کروا دیں۔ وہ خیریت دریافت کرنا چاہتے تھے۔ بچوں کو دلاسا دینا چاہتے تھے۔ لیکن ہفتے کے بیس منٹ پورے ہو چکے تھے۔ سپرنٹینڈنٹ جیل خود پشیمان تھے، ایک شوہر اور بیٹی کی اذیت کو سمجھ سکتے تھے لیکن اگر کچھ مدد کرتے تو آج وہ بھی کسی کوٹھڑی میں قید ہوتے۔
کچھ دیر بعد جیل کے سپرنٹینڈنٹ جیل نے نواز شریف کے سیل میں آ کر انتقال کی اطلاع دی۔ مریم نواز اس وقت تک بالکل بے خبر تھیں۔ نواز شریف جیل سپرنٹینڈنٹ کے ہمراہ مریم کے سیل میں گئے اور یہ روح فرسا خبر سنائی۔
یہ دونوں اڑ کر اسی وقت لندن پہنچنا چاہتے تھے مگر راہ میں وہ انصاف حائل تھا کہ جس کے ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں۔
ایک سال پہلے جب بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا تو نواز شریف جیل میں تھے، مریم نواز جیل میں میں تھیں، بیٹے دیار غیر میں تھے۔ نہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت نواز شریف، کلثوم نواز کا ہاتھ تھام سکے، نہ بیٹوں کو گلے لگا کر دلاسا دے سکے۔ ایک سال گزرنے کے بعد کچھ نہیں بدلا، نواز شریف آج بھی جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مریم نواز باپ کا حوصلہ بنی جیل میں ہی قید ہیں۔ بیٹے وطن واپس نہیں آ سکتے۔ حتی کہ برسی کے موقع پر قبر پر فاتحہ پڑھنے نہیں آ سکتے۔ ماں کی قبر کی مٹی کو چھو نہیں سکتے۔ قبر کی تختی کو چوم نہیں سکتے۔ نواز شریف قبر پر پھول نچھاور نہیں کر سکتے اور مریم نواز قبر کے سرہانے بیٹھ کر رو نہیں سکتے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔
حالات نہیں بدلے مگر نواز شریف بہت بدل گئے ہیں۔ اس سانحے نے انہیں بہت نڈر اور بے پرواہ کر دیا ہے۔ اب وہ وقت کے کسی فرعون کی پرواہ نہیں کرتے۔ اب وہ اپنوں کی بے اعتنائی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اب وہ بے انصافی کی روش پر رنجیدہ نہیں ہوتے۔ اب وہ شکوہ نہیں کرتے، شکایت نہیں کرتے۔ اپنی بیماری کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اب ان پر گہرا سکوت طاری ہے۔ وہ جیل کی دیواروں سے نہیں الجھتے۔ اب ان کو کوئی ڈیل متاثر نہیں کرتی۔ اب معافی مانگنے والے ان کو اچھے نہیں لگتے۔ اب مستقبل کا خواب دکھانے والے ان کو اچھے نہیں لگتے۔
اب بس وہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ”کلثوم آخری لمحوں میں ان کو نقاہت کے باوجود باؤ جی، باؤ جی آوازیں دیتی رہیں اور وہ بات نہیں کرسکے۔ وہ ہاتھ نہیں پکڑ سکے۔ وہ دلاسا نہیں دے سکے۔ ایسا خاموش شخص جس کے پاس گنوانے کے لئے کچھ نہ ہو بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ نواز شریف کا ایک سال سے جیل سے کوئی بیان نہیں آیا ماسوائے اس اطلاع کے ڈیل کی آفر ایک دفعہ پھر ٹھکرا دی گئی اور دوسرا سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی کہ کارکن اکتوبر میں ہونے والے مولانا مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کا بھرپور حصہ بنیں۔ جیل میں مدت سے قید ایک خاموش شخص سے منسوب یہ باتیں بہت سے طوفانوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔
مریم نواز بھی بہت بدل گئی ہیں۔ اب وہ پہلی سی مریم نہیں رہیں۔ ایک سال کے قلیل عرصے میں اب وہ باپ کا بازو بن چکی ہیں۔ ماں کا سایہ بن چکی ہیں۔ بھائیوں کی حفاظت کا حصار بن چکی ہیں۔ جس دن سے مریم نواز گرفتار ہوئی ہیں اس دن سے ان کی نواز شریف سے کوئی بات، کوئی ملاقات نہیں ہو سکی۔ مریم نواز کو ہر وقت باپ کی صحت کی تشویش رہتی ہے۔
مریم نواز کے کمرے میں فرنیچر تو برائے نام ہے مگر جو ساز و سامان موجود ہے اس میں ان کے لئے جائے نماز سب سے اہم ہو گئی ہے۔ اس سے ان کا تعلق اور مضبوط ہو گیا ہے۔ یہی ان کی طویل راتوں کی غم گسار ہے۔ یہ ساتھی ہے۔ یہی ان کی آزادی ہے۔ اب مریم نواز ہر آنے جانے والے کو تالیف قلب کی دعائیں بتاتی ہیں۔ ہر ملاقاتی کو حوصلہ دیتی ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اکثر مریم نواز کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ والدہ کے ذکر پر وہ اب بھی آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں دل کو سکون دینے والی والی سب دعائیں رائیگاں جاتی ہیں۔
مریم نواز کو ورثے میں باپ کا حوصلہ اور ماں کی دانش ملی ہے۔ یہی آنے والے دنوں میں ان کا رخت سفر ہے۔ یہی ان کا کل اثاثہ ہے۔ یہی ان کی معراج ہے۔ یہی ان کی کل کائنات ہے۔
یہ محرم کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ الم ہے۔ سوگ کا وقت ہے۔ یہ مہینہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ ہر دور کے اپنے یزید ہوتے ہیں۔ ہر دور کی ایک صدائے حسین ہوتی ہے۔ ہر دور میں جبر کے مقابل ایک نوائے حسین ہوتی ہے۔ ہر ظلم کی رات بالآخر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اندھیری رات کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ ہر شب کی تاریکی کے بعد سحر نصیب ہوتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ یہی کائنات کا سفر ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر