تحریر و تحقیق: سلطان کُلاچی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صادق محمد خان دوم
ریاست بہاولپور کے پانچویں نواب
نواب صادق محمد خان دوم ریاست بہاولپور کے پانچویں نواب تھے۔ آپ نواب بہاول خان دوم کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ نے تقریباً سولہ سترہ سال حکومت کی۔آپ کا بڑا بھائی مبارک علی نے جیتے جی باپ سے بغاوت کی. مختلف مواقع پر دشمنوں کا ساتھ دیا. اس لیے تخت و بادشاہت کا حق محروم نواب کی وصیت کے مطابق آپ کو سونپا گیا.
پیدائش .
صاحبزادہ عبد اللہ خان عرف نواب صادق محمد خان دوم کی پیدائش 1780ء میں ہوئی۔
سلسلہ نسب
صادق محمد خان دوم بن محمد بہاول خان دوم بن نواب فتح خان اول بن نواب صادق محمد خان اول بن نواب مبارک خان اول بن بہادر خان دوم بن فیروز یا پیروج خان بن امیر محمد خان دوم بن بھکھر خان دوم بن بہادر خان بن بھکھر خان بن ہیبت خان بن امیر صالح خان بن امیر چندر خان بن داؤد خان دوم بن بن محمد خان بن محمود خان بن داؤد خان بن امیر چنی خان بن بہاءاللہ عرف بھلا خان .
دستار بندی .
دستار بندی مورخہ یکم رجب 1224ھ بمطابق 1809ء محمد بہاول خان دوم کی آنکھ بند ہوتے ہی ان کے مصاحب میں سے ایک غلام حسین کشمیری نے قلعہ دراوڑ کی کنجیاں قبضہ میں لے کر لوگوں کو بلوایا۔ اسے خوف لاحق تھا کہ مرحوم نواب کا بڑا بیٹا شهزاده مبارک خان (واحد بخش) یا کوئی اور شہزادہ گڑ بڑ نہ پیدا کر دے۔ اس نے ریاستی حکام کے مشورے سے شہزادہ عبد اللہ خان کے نواب ہونے کا اعلان کر دیا اور ان کی دستار بندی یکم رجب 1224ھ بمطابق 1809ء کو کی۔ صاحبزادہ عبد اللہ خان نے نواب صادق محمد خان دوم کا نام اپنایا۔ مشرقی روایت کے مطابق نواب نےسب سے پہلے اپنے ناکام حریف شہزادہ مبارک خان (نواب کے بھائی واحد بخش) کو مروا دیا۔
کابینہ.
آپ کے والد نے انگریزوں سے معاہدہ کیا تھا. انگریز سرکار کی قبولیت کی وجہ سے اور جیسے آپ کے باپ نے ساری زندگی جنگ اور بغاوت کچلنے میں گزاری اس لیے پہلے کی نسبت ریاست میں امن اور ریاست مستحکم ہوچکی تھی. اس لیے ریاست بہاولپور کی پہلی کابینہ آپ کے دور میں تشکیل دی گئی.
نواب صادق محمد خان دوم نے پہلا کام تازه کابینہ کی تقرری کی جن کے ارکان درج ذیل تھے۔
وزیراعلی ناصر خان گوریج مدارالمہام
سپہ سلار فتح محمد خان غوری
مشیر مولوی غوث بخش اور گوسین بہار
اتالیق مولوی شیرعلی
مصاحب دیوان سلطان احمد، نواب فخرالدین گجر، بہار خان، کہیری ور غلام قادر خان داہر
فوج کا بخشی محمد یعقوب خان
سرپرست توشہ خانہ سلامت رائے
منشی مول رام میر
ناظم شیخ نور محمد اور مقبول محمد
قاضی القضاة مولوی معین الدین
تواریخ نویس مولوی محمد اعظم
تخت نشینی کی مبارک باد .
کابل کے محمود شاہ نے نواب صادق محمد خان کی تخت نشینی کو مان لیا اور اس کے پڑوسیوں بشمول مہاراجا رنجیت سنگھ، ملتان کے مظفر خان، منکیرہ کے نواب اور تالپور میروں نے روایتی مبارکباد بھیجی۔ در حقیقت محمود شاہ نے تین افروں کے ہاتھ تحائف اور ایک تہنیتی رقعہ بھیجا۔
مزاری اور بزدار شورش پسند.
شعبان 1224ھ بمطابق 1809ء میں مزاری اور بزدار بلوچوں نے ماچکا، بنگالا اور دریائے سندھ کے کنارے دیگر خطون (موجودہ ڈیرہ غازی خان) پر قبضہ کیا لیکن توپ خانے کے ہمراہ ایک فوج نے گل محمد اور محراب خان گورگیچ کی زیر قیادت ان راہنماؤں کو پکڑا اور اگرچہ جتوئی بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے اس کے باوجود باغی اپنے سادات کے ذریعے قرآن پر معافی مانگنے پر مجبور ہوئے۔ انہیں معاف کر دیا گیا اور اپنے علاقے میں واپس جانے کی اجازت کی۔
میر سهراب تالپور کے حملے.
1809ء میں ہی داؤد پوتروں فضل علی ہالانی اور اسلام خان کہرانی نے خیر پور کے میر سہراب خان کو یہ مطالبہ کرنے پر مائل کیا کہ ان کے علاقے انہیں لوٹا دینے چاہئیں اور حیدرآباد کے میر غلام علی کے ساتھ اس نے انہیں نواب پر حملہ کرنے کے لیے فوج کا ایک دستہ دیا۔ نصیر(ناصر؟) خان اور فتح محمد کو سرحد کی حفاظت کرنے کے لیے بھیجا گیا لیکن شوال کے آغاز میں حملہ آور محمد پورلما تک گھس گئے اور بہادر پور کے مقام پر نواب کی افواج سے ٹکرائے۔ اس ماہ کی 11 کوایک لڑائی ہوئی لیکن دراوڑ اور احمد پور سے کمک آجانے پر انہوں نے امن کی کوشش کی۔ چنانچہ نصیر خان اور ولی محمد خان لغاری نے امیر کی طرف سے معاہدہ طے کیا جس کے تحت موخر الذکر نے اپنی فوج واپس بلائی اور داؤد پوتروں کے خلاف مزید کوئی مزاحمت نہ کی اور بہاولپور کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔ دوسری جانب صاحبزادہ رحیم یار خان (محمد بہاول خان سوم) کو بطور یرغمالی ان کے حوالے کیا گیا۔ نواب ان شرائط پر راضی ہو گیا اور شہزادے کو کچھ قابل بھروسا افسروں کی زیرنگرانی تالپور پڑاؤ بمقام بستی ورنڈ (احمد پور لما پیشکاری) بھیجا گیا۔ تب حملہ آور واپس سندھ چلے گئے اور شہزادے کو چودہ ماہ تک حیدرآباد میں زیر حراست رکھنے کے بعد محرم 1225ھ بمطابق 1810ء میں رہا کر دیا گیا۔
اسی سال میر سہراب خان نے بہاولپور سرحد پر حملہ کیا۔ اس نے سرحدی محافظوں کو رشوت دے کر ساتھ ملایا اور سازش کا پول کھولنے اور قرار واقعی تادیبی کارروائی ہونے پر وہ اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ چنانچہ میر سہراب واپس جانے پر مجبور ہوا۔
ریاست میں سازشیں اور امیروں کا حملہ .
1225ھ بمطابق 1810ء میں رئیس حیدرآباد نصیر خان گورگیج نے میر غلام علی اور خیر پور کے میر سہراب کو بہاولپور کی سرحدی چوکیوں پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ اس نے شورش کے باعث پیدا ہونے والی گڑ بڑ میں صاحب زادہ خدایار (شہزادہ واحد بخش کا بیٹا اور نواب کا بھتیجا) کو تخت پر بٹھانے کا وعدہ کر کے بہت سے ریاستی اہلکاروں کو ساتھ ملا لیا۔ 1226ھ میں میریوں کی افواج نے کوٹ بٹہ نزد بستی صادق ورنڈ (موجودہ صادق آباد) کومحاصرے میں لیا اورنصیر خان کے حکم پر محصورین نے بلا جدوجہد ہتھیار پھینک دیے۔ اب نواب صادق محمد خان نے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے فتح محمد غوری، احمد خان ترین اور محمد یعقوب کو اپنے فوج کے بخشی بنایا۔ تاہم نصیر خان کے اصرار پر وہ دریا کے راستے اُچ کی طرف بڑھا اور نواب کی فوج پسپا ہو کر احمد پور چلی گئی ۔ دریں اثنا نصیر خان نے انہیں ہدایت بھجوائی کہ اچ کو چھوڑ کر رازی محمد موسانی چلے جائیں اور وہاں خندق کھودیں اور لڑائی کی تیاری کریں۔ ایسا ہی کیا گیا۔ نواب کی فوج نے بھی خندقیں بنائیں اور لڑائی شروع ہوئی لیکن گورگیج نے نمک حرامی کرتے ہوئے اور متعدد دیگر ساتھیوں نے نیم دلی سے لڑائی لڑی اور دشمن کو سرحد سے لے کر قائم پور تک سارے ملک میں لوٹ مار کی اجازت دی۔ میر سہراب کی فوج کا ایک دستہ احمد پور ایسٹ (شرقیہ) میں لوٹ مار کی غرض سے قطب واہ میں چھپا بیٹھا تھا لیکن جب نہر اچانک پانی سے بھر گئی تو ان کا منصوبہ ناکام رہا۔ جب حالات نے سنگین صورت اختیار کر لی تو نصیر خان نے اپنے اہل خانہ اور ساز و سامان کو ترنڈا گوریجاں سے سندھ میں خیر پور بجھوا دیا۔ 1226ھ بمطابق 1811ء میں نصیر خان نے دراوڑ میں مقیم نواب کو مطلع کیا کہ سندھ کے امیر علاقے کو صرف تب خالی کریں گے جب وہ اس کے بیٹے اور ولی عہد صاحب زادہ رحیم یار خان (محمد بہاول خان سوم) کو ان کے پاس بھجوا دے۔ ملک کے ابتر حالات میں نواب کو خطرے سے بچاؤ کی بس یہی صورت نظر آئی کہ ناگزیر کو قبول کر لیا جائے۔ چنانچہ 27 محرم 1226ھ کو صاحب زادہ فوج کے سپہ سالاروں میر مبارک اور ہالا خان کی معیت میں حیدرآباد کیمپ میں رضا محمد موسانی پہنچا۔ یوں امیروں کواپنا مقصد حاصل ہو گیا اور ولی عہد کو ایک سال چار ماہ کے لیے قید رکھا گیا لیکن حیدرآباد کے میر غلام علی کی اجازت سے اسے 24 جمادی الثانی 1227 ھ کو واپس بھیج دیا گیا۔
فتح محمد غوری کی بغاوت .
ریاست کو ابھی حملوں سے کچھ راحت ملی ہی تھی کہ فتح محمد خان غوری اور دیگر بدخواه افسروں نے نواب کو دراوڑ سے احمد پور آنے کی دعوت دی اور ایک سنجار خان نے باغیوں سے اشارہ پا کر راستے میں اس پر حملہ کر دیا مگر ناکام رہا۔ نواب بحفاظت احمد پور پہنچ گیا لیکن فتح محمد خان اور اس کے ساتھیوں کو اپنے خلاف پا کر واپس دراوڑ چلا گیا۔ جب فتح محمد نے اپنے منصوبے ناکام ہوتے دیکھے تو کھلی دشمنی کا رویہ اپنالیا اور اپنی ماتحت فوج کو ساتھ لے کر لوٹ مار کرنے بہاولپور کی طرف بڑھا لیکن بہاولپور کے کاردار عثمان خان بلوچ نے شہر کی فصیلوں کو مضبوط بنالیا اور اسے آگے بڑھنے سے روکا۔ اب فتح محمد خان نے شہر کو چھوڑا اور خیر پور ایسٹ (شرقیہ) کی جانب بڑھا لیکن غنی محمد خان بجمانی اور میر محمد جمالی کو مدافعت کے لیے تیار دیکھ کر 5 صفر 1226ھ کو دریا پار کیا اور دنیاپور چلا گیا۔ وہاں سے احمد خان لوٹ مار کی غرض سے خان پور گیا جبکہ فتح محمد نے شجاع آباد کا رخ کیا اور نواب سرفراز خان کو ستلج پار علاقوں پر قبضہ جمانے کی تحریک دلائی۔ اب نواب کو اس کے منصوبوں کا علم ہوا تو اس نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ اگر سرفراز خان کی فوج بہاولپور میں ٹھٹھہ گھلوآں کو نقصان پہنچائے تو ملتان کے نواب کے علاقے میں جلال پور کو تباہ و برباد کر دیں ۔ اس پر نواب سرفراز خان کا جوش ماند پڑ گیا اور دشمنوں کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے۔
صاحب زاده احمد بخش کی دستار بندی .
26 صفر 1226ھ بمطابق 1811ء کو نواب دراوڑ سے شکار کرنے باہر نکلا ۔ اس کی عدم موجودگی میں ملا ہاشم، یعقوب سولگی، غازی خان کہیری، رمضان توپچی اور قلعے کے دیگر افسروں نے فتح محمد کی مثال پر عمل کرتے ہوئے صاحب زاده مبارک (شہزادہ واحد بخش) خان ( جوقتل ہو گیا تھا) کے بیٹے صاحب زادہ احمد بخش کو تخت پر بٹھایا اور ریاستی انتظامات چلانے کے لیے ایک کونسل تعینات کی۔
وزیر صاحب زادہ خدایار خان
سپہ سلار صاحب زادہ حاجی خان
نئے نواب کے اعزاز میں فصیلوں سے ایک توپ فائر کی گئی۔ یہ دیکھ کر کچھ لوگوں جو قلعے کے اندر موجود تھے اور ابھی تک وفادار تھے انہوں نے بظاہر اطاعت کر لی۔ جب توپ چلنے کی آواز نواب کے کانوں تک پہنچی تو وہ حیران رہ گیا اور فوراً واپس پلٹا۔ راستے میں پتہ چلا کہ کیا ماجرا ہے۔ اس نے باغیوں کو ہتھیار پھینکنے پر زور دیا مگر بے سود انجام کار قلعے پر بمباری کی گئی اور نواب فاتحانہ اندر داخل ہوا۔ اس کے بھائی صاحب زادہ محمد بخش ، صاحبزادہ حاجی خان (نواب بہاول خان دوم کے بیٹے) اور صاحبزادہ خدا یار خان کو اس بغاوت کے جرم میں موت کی سزا دی گئی۔ بہت سے باغی بھاگ گئے اور فتح محمد غوری جس نے موقع پا کر دراوڑ کی جانب پیش قدمی کی تھی باغیوں کے انجام کے تعلق سن کر واپس چلا گیا۔
داؤد پوتروں کی شورش .
1226ھ بمطابق 1811ء میں خیر پور کے کیہرانی داؤد پوتروں، قائم پور کے عربانی داؤد پوتروں اور حاصل پور کے عمرانی داؤد پوتروں نے ملتان کے صوبہ دار نواب سرفراز خان کے اکسانے پرعلم بغاوت بلند کیا لیکن غنی محمد خان جمانی اور میرمحمد خان جمانی نے شورش میں کوئی حصہ نہ لیا۔ نواب نے بغاوت کی سرکوبی کی خاطر انفنڑی، کیولری اور آرٹلری کا ایک دستہ بخشی محمد یعقوب اور میر عاشورعلی کی زیر قیادت بھیجا۔ شورش پسند مدافعت کے قابل نہ ہونے کے باعث خیر پور ایسٹ (شرقیہ) سے بھاگ گئے اور گھارا پار کے علاقے میں لوٹ مار کرنے لگے۔ محمد یعقوب اور میر عاشور نے خیر پور ایسٹ (شرقیہ) کو قبضے میں لیا اور دریا کے دوسرے کنارے پر باغیوں کا تعاقب کیا اور خیر پور کو محاصر میں لے کر باغیوں پر اس قدر شدید فائرنگ کی کہ انہوں نے فورا ہتھیار ڈال دیے اور امن قائم کرنے کی درخواست کی۔ اس کامیابی کے بعد محمد یقعوب اپنے سپاہی لے کر داؤد پوتر باغیوں کے حلیفوں کو سزا دینے روانہ ہوا۔ اس نے شجاع آباد کی سرحد پہ پہنچ کر نواب کی جانب سے ایلچی بھیے کہ سرفراز خان کو مائل کیا جا سکے کہ محمد غوری، ولی محمد خان، جمعدار احمد خان ترین اور دیگر باغیوں کو باہر نکال دے مگر اس نے انکار کر دیا۔ نتیجتاً ہونے والی لڑائی میں دونوں فریقین کے بہت سے آدمی کام آئے۔ احمد خان ایک گولی لگنے سے مارا گیا اور باغی افواج میدان چھوڑ کر بھاگ گئیں۔ داؤد پوتروں اور ان کے حلیفوں کی شکست کی خبر ملنے پر دار الحکومت میں بہت خوشی منائی گئی اور مشرقی داؤد پوتروں کے مقاصد بالکل نا کام ہو گئے جواب اطاعت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
حاکم اسد خان کا حملہ .
ایک طرف سرفراز خان نے مشرقی داؤد پوتروں کو اشتعال دلایا تھا جبکہ دوسری طرف ڈیرہ غازی خان کے حاکم اسد خان نے دریائے سندھ پار کیا اور بہاولپور کے ان حصوں پر ہلہ بولا جواب ضلع مظفر گڑھ میں شامل ہیں۔ اسد خان کے لیے دوستانہ جذبہ ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو منشی محمد یعقوب کو ڈیرہ غازی خان سرحد پرحملہ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن وہ ابھی بمشکل كينجهر(موجودہ مظفرگڑھ تحصیل) تک ہی پہنچا تھا کہ اسد خان دوباره دریا پار کر کے وہ اپنی سرحد کی طرف چلا گیا اور نواب کو پچاس ہزار روپے خراج ادا کرنے کے بدلے معافی چاہی۔
نواب مظفر خان کے خاندان سے سلوک.
24 رجب 1233ھ بمطابق 21 جون 1818ء کو مہاراجا رنجیت سنگھ کے بیٹے کنور کھڑک سنگھ نے ملتان قلعے پر قبضہ جمایا اور اس لڑائی میں نواب مظفر خان اپنے پانچ بیٹوں سمیت ہلاک ہو گیا۔ نواب کے چھٹے بیٹے نے اطاعت اختیار کر لی اور ساتواں بیٹا قید ہو گیا۔ آٹھواں چودہ سالہ بیٹا میر باز خان ایک خادم کے ہمراہ بھاگ نکلا جو اسے بہاولپور میں ملتانی گیٹ کی ایک چھوٹی سی مسجد میں لایا (27 رجب 1233ء)۔ احمد پور ایسٹ (شرقیہ) میں جب نواب کو اس کی خبرملی تو وہ واپس بہاولپور آیا اور میر باز خان کے ساتھ بڑا مہربانہ سلوک کرتے ہوئے اسے 313 احمد پوری روپوں (196 انگلش روپے) کا وظیفہ جاری کیا اور 9 کنوئیں بطور انعام دیے۔ میر باز خان کے بھتیجے رب نواز خان کو بھی 160 احمد پوری (100انش روپے) کا وظیفہ اور 3 کنویں بطور انعام ملے۔
رنجیت سنگھ کا حملہ .
1235ھ بمطابق 1819ء میں رنجیت سنگھ ملتان کے دورے پر آیا اور بکری کے قریب سندھ کے امیروں کے علاقوں میں لوٹ مار کے بعد ڈیرہ غازی خان پہنچا۔ اس نے ڈیرہ غازی خان زمان خان سے لیا اور دو لاکھ پچاس ہزار روپے کی سالانہ ادائیگی کے بدلے نواب صادق خان دوم کو دے دیا۔ نواب نے غلام قادر خان داہر کو ڈیرہ غازی خان ضلع کا منتظم تعینات کیا اور شعبان 1235ھ بمطابق 1819ء میں وہاں آیا۔ جب لغاریوں کے رئیس رحیم خان، کھوسوں کے رئیس غلام حیدر خان اور نوتکانیوں کے رئیس اسد خان نے پیش ہو کر اطاعت کا اظہار کیا۔
شہروں کی تسخیر.
اس دور میں ڈیرہ غازی خان علاقہ میں یا اس کے قریب کھوسہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے شہروں سانگھڑ (تونسہ)، قلعہ گجری، ٹبی اور قلی دلانا کو تسخیر کیا گیا اور اس مہم میں کھوسہ قبیلے کا سردار غلام حیدر خان 1236ھ بمطابق 1820ء میں لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کے چھوٹے بھائیوں کوڑا خان اور اسد خان نوٹکانی نے سرتسلیم خم کیا اور نواب کو اپنی بیٹیوں کے رشتے دیے۔ ان کے ساتھ نواب بڑی فراخدلی سے پیش آیا اور 1237ھ بمطابق 1821ء میں قلعہ گجری کوڑا خان کو واپس کر دیا۔
ہجرت بلوچ و ملکان.
تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت سکھ دور میں ہوئی. یعنی جب آپ نواب تھے. ریاست کی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی. زیادہ تر ریاست غیر آباد تھی پر سکھون کے حملے کی وجہ سے پورے پنچاب کے مسلمان بہاولپور ریاست, دہلی اور خیر پور کی طرف بھاگے. اس معاملے میں تاریخ خاموش ہے کہ ریاست نے ان کے ساتھ کیا تعاون کیا. البتہ وہ اپنی عزت و آبرو بچانے میں کامیاب رہے.
وفات.
نواب صادق محمد خان دوم کی وفات تپ دق کے باعث بروز سوموار 9 رمضان 1241ھ بمطابق 17 اپریل 1826 کو ہوئی۔ نواب نے تقریباً 16 سال حکومت کی۔ آپ کا زیادہ تر عرصہ باغی امیروں کو زیر کرنے میں گزرا۔ البتہ کچھ فتوحات بھی اس کے دور میں ملتی ہیں۔
اولاد .
نواب صادق محمد خان کے تین بیٹے تھے۔
رحیم یار خان (محمد بہاول خان سوم)
عظیم یار خان
محمد جعفر خان
نواب صادق محمد کا جانشین رحیم یار خان تھے اور انہوں نے محمد بہاول خان سوم کا نام اپنایا۔
یہ بھی پڑھیے: ریاست بہاولپور کے پہلے نواب:صادق محمد خان اول۔۔۔سلطان کُلاچی
ریاست بہاولپور کے چوتھے نواب:محمد بہاول خان دوم ۔۔۔سلطان کُلاچی
ریاست بہاولپور کے تیسرے نواب:مبارک خان دوم ۔۔۔سلطان کُلاچی
ریاست بہاولپور کے دوسرے نواب:محمد بہاول خان اول۔۔۔سلطان کُلاچی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ