عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سال محرم الحرام کے موقع پر فرقہ واریت کی آگ کو جس طرح بھڑکایا گیا ہے اُس کی چنگاریاں ابھی بھی راکھ میں دبی ہیں جو کسی بھی وقت سلگ کر شعلوں میں بدل سکتی ہیں۔
یہ کیونکر ہوا؟ اس کی وجوہات مقامی ہیں یا بین الاقوامی؟ کونسا ملک اس وقت وطن عزیز سے ناراض ہے؟ کس کو کس کے مفادات عزیز ہیں؟
یہ سب سوال اپنی جگہ مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ ففتھ جنریشن وار فیئر کے اس دور میں کسی سابق جنرل کے اثاثوں کے معاملے پر پل پل کی خبر رکھنے والی ریاست اس بات سے کیسے بے خبر ہو گئی کہ سوشل میڈیا پر محرم الحرام کے دوران کس قسم کے ٹرینڈز چلتے رہے؟
پنجاب حکومت کے مطابق کئی افراد کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور سوشل میڈیا مہم پر فوری ایکشن لیا گیا۔ یہ خوش آئند ہے لیکن گذشتہ چند دنوں سے جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ تشویش ناک ہے۔
پاکستان نے اسی اور نوے کی دہائی میں بدترین فرقہ واریت دیکھی۔ کئی افراد کا محض عقیدے کی بنیا پر قتل کیا گیا تو فرقہ واریت کی آگ نے معاشرے میں تقسیم کی فالٹ لائنز کو اور گہرا کیا۔
ایک طرف ایرانی انقلاب کے بعد کے حالات اور سعودی امداد نے آپس کے عناد کو ہماری سرزمین کے سینے میں خنجر کی طرح اتارا تو دوسری جانب ملک میں رائج آمریت نے اقتدار کو طول دینے کے لیے پراکسییز کو کھلم کھلا چھوٹ دی۔ نتیجہ مسجدوں، امام بارگاہوں کو خون میں نہلایا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔
صرف فرقہ واریت ہی نہیں صوبائیت اور علاقائیت نے بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر وفاق کے صوبوں کو طعنے اور عوام میں گہرے بیج بوتے تعصبات ایک خوفناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ کہیں پختون، کہیں بلوچ احساس محرومی اور کہیں سندھ سے مستقل آتی غیر معمولی احتجاجی آوازیں، منافرت کا عجیب ماحول پیدا کر چکی ہیں۔
ملک میں جاری انصاف اور احتساب کے دوہرے نظام، آئے دن بند ہوتی اختلافی آوازیں اور لاپتہ ہوتے افراد ایک ایسا نظام ترتیب دے رہے ہیں جہاں محض ایک معمولی واقعہ کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
ایسے میں ریاست کو کیا کرنا ہے؟
آوازوں کو بند کرنے کی بجائے شہریوں کو پوری طاقت سے بولنے کا موقع دینا ہو گا۔ جعلی نظام کی بجائے عوام کی نمائندہ جمہوریت اور مقتدر پارلیمان کو آزمانا ہو گا۔ فعال سیاسی نظام اور اصل نمائندگی کا حق ہی مملکت پاکستان کو اس نازک وقت میں تقسیم سے بچا سکتا ہے اور ایسا تبھی ہو گا جب افراد ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھیں، کیا ایسا ممکن ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر