ستمبر 1965
تحریر علی جان جوہرٹائون لاہور
کافرہے توشمشیرپہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ لڑتا ہے سپاہی
اگرآج ہم آزاد ملک میں رہ کرآزادی سے اپنی عبادات اپنے کاموں کو انجام دے رہے ہیں تو یہ صرف ہمارے شہیدوں کی بدولت ہیں
جنہوں نے ورنہ آج بھی غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کو نماز پڑھتے ماردیتے ہیں میری کیا کسی کی بھی اتنی اوقات کہاں کہ وہ 6ستمبرکی تاریخ لکھ سکے مگرہرکالم نگاراپنی کوشش سے اپناپیغام دیتاہے کہ کہیں کسی کو بھی
اس کی سمجھ آجائے تو ایماں جاگ جائیں سینے چاک ہوجائیں ،معجزوں کا ادراک ہوجائے اس میں عقیدت ومحبت کی باتیں ہیں
جو عقل والوں کیلئے بالا تر ہیں کیوں کہ جس کے پاس عقل ہووہ دل سے کام نہیں لیتا اور محبت و عقیدت کے فیصلے دل کرتا ہے نہ کہ
عقل ۔بھارت نے اصل میں پاکستان کے خلاف سازشی چال اس وجہ سے چلی کیونکہ اسے 1962جو تبت کے میدان میں چین نے شکست دی تو اس کا داغ دھونے کیلئے
اس نے 1965میں پاکستان کی طرف رخ کیا۔جیسا کہ بھارتی فوج ایک طاقت ور فوج ہے اور اسے اس چیز کا غرور بھی رہتا ہے
جس کی وجہ سے عوام کے خون پسینے کی کمائی بھی ان پرلٹائی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے ملک کیلئے کوئی کارنامہ سرانجام دے
سکیں انڈیا نے 1971کی کامیابی کو 1965سے کرارہاہے تاکہ عوام اپنی فوج پرغصہ ٹھنڈارہے اگرہم سے ہمارا بازو الگ کیا گیا تو اس میں سارابھارت کاہی ہاتھ ہے جسے ہمارے حکمرانوں کے ڈگمگاتے حوصلوں نے مزیدتقویت بخشی جس کی وجہ سے
ملک کو دوحصے ہونا پڑا۔بھارت کاخیال تھا کہ وہ پاکستان کے اہم حصوں پر قبضہ کرلیں گے اور 6ستمبر1965کولاہورمیں بیٹھ کرپائے کے مزے لیں گے
توانہوں نے 600ٹینک اور کئی گنا زیادہ فوج لے کرپاکستا ن پر حملہ کردیا مگرانہیں کیا پتا تھا یہ وہ قوم ہے جو 313پورے لشکر کو نیست ونابود کردیتی ہے توپھرکیا تھا کون فوجی اور کون سویلین سب اپنے ملک کے دفاع کیلئے جٹ گئے
جس کی وجہ سے بھارتی فوج بھاگنے پر مجبورہوگئی اس جنگ میں جتنے بھی بھارتی فوجی پکڑے گئے ان کا کہنا تھا کہ ہم جوبم پاکستان کی طرف پھینکتے نہ وہ پھٹتااورنہ کوئی نقصان ہوتا مگرجب اس قوم کے فوجی بم ہماری طرف پھینکتے وہ فوراًپھٹ جاتا
اور ہمارا بہت نقصان ہوتاجس کی وجہ سے ہمارے حوصلے پست ہوگئے اور ہمارے جوان دہشت میں بیٹھ گئے ۔چونڈہ کے محاذ پر ہمارے وطن کے بہادرسپوتوں نے سب سے بڑے ٹینک حملے کو وہاں کاٹینک قبرستان بنادیاپاکستان کے نڈرسپاہی اپنی جانوں کے نذرانے دیتے ہوئے بھارتی مورچوں میں گھس کر ان کو بھاگنے پرمجبورکردیا۔
راجہ عزیزبھٹی شہید،محفوظ شہید،شبیرشریف شہید،محمداکرم شہید،محمدسوارشہیدجیسے جوانمردوں نے بھارت کے خواب کو چکنا چور کردیا۔ 1965کی جنگ میں جب دشمن کے فضائیہ پائلٹ نے اپنی ساری گولیاں فائرکردیں
اور پاکستان کا ایک پیسے کا بھی نقصان نہ کرسکااس کے جواب میں ایم ایم عالم نے جن کے پاس 15سیکنڈکا پاورفائرتھاہمارے پرsaber F-86تھا جس میں 15سیکنڈ کافائرٹائم ہوتا ہے اور ایم ایم عالم نے ان 15سیکنڈ میں بھارت کے 5تیارے مارگرائے
جو دنیا کا ورلڈ ریکارڈ ہے نا ٹوٹا ہے اور نہ ٹوٹے گایاد رہے ایم ایم عالم غازی پاکستان بھی رہے ہیں۔سنائی میں آتا ہے
جب انڈیا کا کوئی طیارہ گرتا تو پاکستانی عوام کے نعرہ تکبیرکے نعروں سے ملک گونج اٹھتا اور خوب پاک فوج کو داد دیتے اور دعائیں کرتے آج بھی انڈیا پاکستان کا کرکٹ میچ ہورہا
ہو توشور سن کے مجھے بھی پاک بھارت جنگ 1965ضرور یاد آتی ہے ۔پاک فوج کے ساتھ ساتھ ہماری بحری فوج اور فضائیہ نے بھی اس دھرتی کے سپوت ہونے کا خوب فرض ادا کیا
بحری فوج نے کم وسائل میں اپنی حدود میں بھارتی فوجیوں کو ملک کے اندرنہ گھسنے دیا بلکہ ان کی حدود میں جا کر کئی ہندوؤں کو جہنم واصل کیااور یہ ثابت کردکھایا کہ ہم اپنی حدود کی خوب حفاظت کرنا جانتے ہیں ۔
پاک فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو نہ صرف مارگرایابلکہ ان کے ملک میں جا کرانکو دن میں تارے بھی دکھائے ۔
ستمبر 1965کی جنگ 17دن چلی جس میں پاک فوج کے جوان سرخرو ہوئے اس جنگ کے بعد بھارتیا سرکار نے سوچا ضرور ہوگا کہہ کس قوم سے پنگا لے بیٹھے ہیں جنگ کے وقت صرف فوجی کیا چھوٹا بچہ بھی اپنے ملک کیلئے قربان ہونے کیلئے گھرسے
باہر نکل آئے انہوں نے سوچاکہ آزادی سے 18سال ہی گزرے ہیں اور یہ قوم سورہی ہوگی مگرانکی بھول تھی کہ شیرسورہاہو تب بھی شیرہی ہوتا ہے
گیدڑ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ جو زمین شہیدو کے خون سے سیراب ہوتی ہے
وہ بڑی زرخیز ہوتی ہے اور اس ارض پاک پر جو انگلی اٹھے گی اسے ہم توڑنا جانتے ہیں اورجو میلی آنکھ سے دیکھے گا
اس آنکھ کوپھوڑنا جانتے ہیں ۔میں نے ایک جگہ پر پڑھا تھا کہ ’’TIME MEGAZINE‘‘نے 22ستمبر1965میں پاک فوج کے متعلق لکھا تھا
جو میں آج تک نہیں بھولااس کا خلاصہ بیان یہ ہے کہ ان کو کون ہراسکتا ہے جو جان کی بازی لگانے سے بھی نہیں ڈرتے۔ویسے اگردیکھا جائے
تو جنگ کے دوران فوجی آگ کے شعلوں سے ایسے کھیل رہے ہونگے جیسے بچے گلی میں گولیاں کھیلتے ہیں ۔
پاکستانی فوج کے پاس یہی حوصلہ عزم ،بہادری اور حب الوطنی تھی جس وجہ سے سرخروہوئے اگر یہ چیزیں خریدی جاتیں تو بھارت اس وقت امریکہ سے امداد لے کر خریدچکا
ہوتا۔1965کی جنگ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس وقت جو لوگ جنگ کے میدانوں میں نہیں جاسکتے تھے انہوں نے مالی معاونت کی
اور اپنے گھرکی چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبر کی صدائیں بلند کرتے رہے میں پاکستان کا ایک عام سا شہری ہوں میں
بارڈر پر کفن باندھ کرنہیں جاسکتا اگر ضرورت پڑی تو دریغ بھی نہیں کروں گا مگر میرے پاس قلم کی طاقت ہے جس کے وار سے بھارت کا سینہ چھلنی کرتارہوں گا۔1965میں بھارت کے وزیراعظم بہادر شاستری سیاسی قد اونچاکرنے کی خاطر
سرحدپارکی اور اپنی ہی ناک کٹوا بیٹھا۔پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب سے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کامستقبل مضبوط ہاتھوں میں ہے کہ
انہوں نے RAWکے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے اڈون کو نیست ونابو کرکے ہزاروں دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
پاک فوج کا کردارہمیشہ مثالی رہا زلزلہ ،طوفان ،سیلاب یا کوئی اور آفت پاک فوج نے اپنے جذبہ خدمت سے نمایاں کرداراداکیا۔6ستمبرجہاں شہداء وطن کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے
وہاں یہ دن تجدیدعہدکا دن بھی ہے ۔آج ہم یوم دفاع ایسے منا رہے ہیں جیسے کوئی عام دن ہو شاید ہمیں اپنے فوجی جوانوں کی قربانیاں یاد نہیں
بھارت فوج روزانہ کئی کشمیربھائیوں کے ساتھ خون کی حولی کھیلتی ہے اورپاکستان میں آئے روز بم دھماکے اور خود کش دھماکے ہورہے ہیں
پاکستان کی سلامتی کو ختم کیا جارہا ہے اسی لیے پاکستان کا ہرفرد دامے ،سخنے قدمے پاکستان کی امن سلامتی اور خوشحالی کیلئے اپنا کرداراداکرے جیسا کہ 1965کی جنگ کے وقت چھوٹے بچوں نے ٹیڈی پیشہ ٹینک سکیم میں لاکھوں روپے جمع کرائے ۔آج ہمیں ایک نہیں کئی دشمنوں کا سامنا ہے
ہمیں جہالت کے خلاف جنگ کرنی ہے غربت کو مات دینی ہے خوشحالی کیلئے جان لڑانی ہے ،معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرنا ہے ،
مذہبی وفرقہ واریت کے خلاف ہتھیار اٹھانے ہیں آیئے اس تجدید عہد کے دن وعدہ کریں کہ کبھی اپنے ملک پرآنچ نہیں آنے دیں گے
اور جان کی پرواہ کیے بنا اس کی حفاظت کریں گے اور ایسا کوئی کام نہ کریں گے جس سے وطن عزیز کی عزت پر حرف آئے۔
خداکرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مظفرگڑھ
( علی جان سے)
ملک کے سب سے بڑے دریائے سندھ میں درمیانے درجے کا سیلاب جاری، بیٹ کے علاقے زیرآب آگئے متاثرین اپنی مدد آپ نقل مکانی کرنے پر مجبور زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا
ریسکیو آپریشن شروع نہ کیا جاسکا،چشمہ سے آنے ولا 4لاکھ کا سیلابی ریلا آئندہ 72گھنٹوں میں تونسہ بیراج سے گزرے گا،
حفاظتی اقدامات کے تحت تونسہ بیراج سے نکلنے والے لنک نہروں تونسہ پنجند،مظفرگڑھ کنیال،ڈیرہ غازی خان کنیال،
کچھی کنیال کو بندکردیا گیا،تفصیل کے مطابق حال ہی میں شمالی علاقہ جات وملک کے دیگر حصوں میں شدید بارشوں کے باعث ملکی دریاؤں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے
جسکی وجہ سے دریاؤں اور بیراجوں پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہونا شروع ہو گیاہے،ملک کے سب سے بڑے دریائے سندھ میں بھی پانی کے بہاؤ میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے،
اس وقت دریائے سندھ کے مقام تونسہ بیراج پردرمیانے درجے کا سیلاب جاری ہے اور اس وقت تونسہ بیراج پر پانی کا بہاؤ 3 لاکھ 54 ہزار کیوسک ہے،
دوسری طرف حفاظتی اقدامات کے تحت تونسہ بیراج سے نکلنے والے لنک نہروں تونسہ پنجند،مظفرگڑھ کنیال،ڈیرہ غازی خان کنیال اور کچھی کنیال میں پانی میں بھی اضافہ کردیا گیا،
تونسہ بیراج کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب کی وجہ سے8 سے زائد مواضعات زیرآب آگئے ہیں،
سیلاب سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا جبکہ متاثرین اپنی مدد آپ نقل مکانی کرنے لگے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی ریسکیو آپریشن شروع نہ کیا جا سکا،
سیلاب سے بیٹ چھجڑے والا بیٹ لومبڑ والا بیٹ نشان والا کے متاثرین جانور گندم سمیت دیگر قیمتی سامان کشتیوں کے زریعے منتقل کرنے میں مصروف ہیں،
دوسری جانب دریائے سندھ میں چشمہ کے مقام پر بھی پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس وقت چشمہ کے مقام پر پانی کی آمد 2لاکھ 35 ہزار کیوسک،
اخراج 2 لاکھ30ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے کالاباغ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 4 لاکھ کیوسک ریکارڈ ہوا ہے کالا باغ کے اس پانی کو تونسہ بیراج پہنچنے میں
عموماً 48 سے 72 گھنٹے درکار ہیں جبکہ اگلے 48 سے 72 گھنٹوں کے دوران 4 لاکھ کیوسک پانی تونسہ بیراج کے علاقوں میں پہنچے گا،
اس وقت اگر کوہ سلیمان کے پہاڑی علاقوں پر بارش ہوتی ہے جس کا امکان موجود ہے تو ڈیرہ غازی خان کی تین بڑی رود کوہیاں رود کوہی کوڑا،
وہوا اور سنگھڑ کا پانی تونسہ بیراج سے اوپر دریائے سندھ میں شامل ہو جائے گا اس سے لیے یہ ممکن ہے کہ پانی کا بہاؤ اگلے 2 سے 3 دن کے دوران تونسہ بیراج کے
مقام پر 4 لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے،دوسری طرف 2010کے بدترین سیلاب کا سبب بننے والے فلڈ کنٹرول ایل ایم بی مارجن المعروف عباس والا بند جو
کہ 2010 میں 8400 فٹ تک ٹوٹ گیا تھا، بارش کے باعث ٹوٹنے والی جگہ خطرناک حد تک دراڑیں پڑ گئی ہیں،
سیلابی پانی کے اضافہ کی صورت میں بند ٹوٹنے کے واضع امکانات ہیں، برجی نمبر 39 اور 40 کے درمیان گہری دراڑیں ہو گئی ہیں
جبکہ بند کی شرقی جانب بنایا گیا پشتہ 32 برجی تا 40 برجی تک دراڑیں پڑی ہوئیہیں جس کی وجہ سے بند انتہائی کمزور ہو گیا ہے،
متاثرہ مکینوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار سمیت چیف جسٹس پاکستان سے نوٹس لینے کے ساتھ بند کی فی الفور مرمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون