حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا خیر کرے کچھ خطرات تیزی سے بڑھتے چلے آتے محسوس ہورہے ہیں، سی پیک اور چند دوسرے معاملات پر دبے اور کھلے لفظوں میں پاکستانی پالیسیوں کے ناقدین (بعض عالمی قوتیں) اور ان کے ہمنوا سازشوں میں مصروف ہیں،
سازشیوں کا راستہ کھوٹا کون کرے گا یہی اصل مسئلہ ہے۔ حکومت کی ترجیحات قدرے نہیں یکسر مختلف ہیں۔ پچھلے تہتر برسوں میں یہ پہلی حکومت ہے جو مخالفین سے نفرت کی بنیاد پر قائم ہوئی۔
سیاسی نظام میں اختلافات ہوتے ہیں نفرت نہیں۔ سابقہ حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت، وہ بھی انسان تھے یہ بھی انسان ہی ہیں، خامیاں خوبیاں سب میں ہوتی ہیں، زیادہ بہتر یہ ہے کہ نفرتوں کی سیاست سے کچھ وقت نکال کران مسائل اور خطرات پر توجہ دی جائے جو مجموعی ملکی معاملات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
سب سے اہم مسئلہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت ہے، سازشی قوتیں ہمیشہ اسی سے فائدہ اُٹھاتی ہیں۔پچھلے چالیس برسوں کے دوران ہم اجتماعتی طور پر جن حالات سے دوچار ہوئے وہ بذات خود اس امر کے شاہد ہیں کہ اُس دوران شدت پسندوں اور مسلح لشکروں نے غربت وبیروزگاری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مذہبی جذبات کو ہوا دی اور بگاڑ بڑھتا چلا گیا۔
یہ بجا ہے کہ اُس بگاڑ میں کچھ بیرونی قوتوں نے بھی حصہ ڈالا اور ہمارے پالیسی سازوں کا ایک طبقہ بھی امن دشمن قوتوں کا سہولت کار رہا۔
بہرطور وہ بدترین وقت گزر گیا، اُس سیاہ دور سے نکلنے کیلئے ہم نے80ہزار جانوں کے نذرانے دیئے، ملک کا شاید کوئی طبقہ ہوگا جو دہشت گردی سے متاثر نہ ہوا ہو۔
کاش ہمارے قانون میں اتنا دم خم ہوتا کہ وہ دہشتگردی کی کاشت کا سبب بننے والی پالیسیوں کے خالقین کا محاسبہ کر سکتا۔
خیر ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں، پچھلے کچھ عرصہ سے معاشرے میں عدم برداشت میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا اُس کی ایک وجہ وہی ہے جو بالائی سطورمیں عرض کی غربت وبیروزگاری۔
دوسری وجہ کچھ کالعدم تنظیموں کا پابندیوں کے باوجود متحرک ہونا ہے۔
اس فعالیت کا آغاز عین اس وقت ہوا جب چین اور بھارت میں سرحدی جھڑپیں ہوئیں اور چین نے بھارتی سورمائوں کی نہ صرف ”مقدور بھرخدمت” کی بلکہ سی پیک کے روٹ کو کاٹنے کے بھارتی منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
اس کے فوراً بعد ہمارے یہاں مذہبی منافرت کی نئی لہر نے معاملات بگاڑے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی بجائے حکمت عملی وضع کریں۔
مؤثر ترین سنجیدہ اقدامات اور وہ بھی بلا امتیاز کرنا ہوں گے تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ حکومت پسند وناپسند کا شکار ہے۔ بعض سنجیدہ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کچھ عالمی قوتیں عربوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کار کے نئے دور کے آغاز پر اُن مسلم ممالک میں ابتری ہموار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں جہاں رائے عامہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حوالے سے بعض عرب ممالک کی پالیسی میں در آئی تبدیلی کیخلاف ہے۔
اس حساب سے پاکستان سرفہرست ہے، یہاں رائے عامہ کا بڑاحصہ سیاسی ومعاشی معاملات پر بھی مذہبی جذبات کو مقدم سمجھتا ہے، اس جذباتیت سے فائدہ اُٹھانے والے بھی کم نہیں۔
تیسرا معاملہ ہمارے یہاں1980ء کی دہائی سے بے لگام ہوئی فرقہ واریت ہے،پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے اس کی باسی کڑی میں اُبال صاف دکھائی دے رہا ہے۔
جس اہم نکتہ کو ہمارے پالیسی ساز اور اہل اقتدار نظر انداز کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر خاکم بدہن بیرونی قوتیں اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے حالات کو خراب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اس سے صرف سیاسی عمل اور حکومتی امور متاثر نہیں ہوں گے بلکہ اجتماعیت پر بھی ضرب لگے گی۔
تعصبات اور تقسیم کی نئی لہر سے وہ قوتیں یقینا فائدہ اُٹھائیں گی جو اولاً سی پیک کو رول بیک کروانا چاہتی ہے اور ثانیاً ان کی کوشش ہے کہ پاکستان عالمی طور پر ہوئی اقتصادی دھڑے بندیوں میں چین اور روس کے گروپ میں شامل نہ ہو یا کم ازکم ڈھل مل پالیسی اپنائے۔
مطلب یہ کہ ماضی کی طرح امریکی ہمنوائوں والے کیمپ میں رہے۔
اس ساری صورتحال میں ایک اہم بات یا یوں کہیں کہ سوشل میڈیا کا بھی کردار ہے۔
فرقہ وارانہ یا لسانی عصبیت ہر دو کے حوالے سے پچھلے دو تین ماہ کے دوران سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر جو اکاونٹ فعال ہوئے ان میں سے زیادہ تر بھارت سے آپریٹ ہورہے ہیں اور کچھ بعض یورپی ممالک سے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مقامی سوشل میڈیا صارفین سو فیصد دودھ کے دھلے اور مظلوم ہیں۔
سوشل میڈیا پر کنٹرول کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں موجود فہم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ کالے قوانین کے اطلاق کی بجائے حکومت ان سائٹس کے ذمہ داران سے بات چیت کر کے انہیں اس امر پر آمادہ کرے کہ پاکستان سے ان سائٹس پر جو اکاونٹ بنائے جائیں وہ شناختی کارڈ کے نمبر سے مشروط ہوں، اس سے ایک تو زہر اُگلتے جعلی سوشل میڈیا اکاونٹ بند ہو جائیں گے، دوسرا یہ کہ بیرون ملک سے نفرتوں سے بھرے آپریٹ ہونے والے اکاونٹس کا تدارک زیادہ آسان ہو جائے گا۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہوائی اقدامات کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات ہونے چاہئیں
اصولی طور پر یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں امن وامان کے قیام، سماجی وحدت کے تحفظ کیساتھ ساتھ امن وانسانیت اور ترقی کے دشمنوں کیخلاف مؤثر اقدامات اُٹھائے
البتہ یہ ضرور مدنظر رہے کہ ایسا کوئی قدم نہ اُٹھایا جائے جس سے قانون کی حدود میں رہتے ہوئے آزادی اظہار کیلئے سرگرم عمل لوگ متاثر ہوں۔
کیا ہم اُمید کریں کہ حکومت کے ذمہ دار دیگر مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر ان مصروضات پر غور کرنے کی زحمت کریں گے؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر