تحریر :، عبدالقیوم
زندگی کی نمو میں تعلیم کا اہم کردار ہے مگر ہمارے ملک میں زندگی کی اس نمو کو قابوکرنے کےلیے ہمہ جہتی کوششیں اس امر کی غمازی کررہی ہے کہ ہم اب بھی تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور نہ ہی اسے غریب طبقات تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں
بلکہ ہماری تعلیمی منصوبہ بندی مکمل طور پر طبقاتی بنیاد پر استوار ہوچکی ہے حتی کہ ہمارے ملک میں صوبوں کی طبقاتی تہیں پائی جاتی ہیں
اگرکسی کویقین نہیں آرہا تو بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے سامنے لگے احتجاجی کیمپ کو ہی دیکھ لیں جہاں بلوچستان کے طلبا آہ و بکا کرتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے، وہ آپ کو چیخ پکار کرتے ہوئے ملیں گے وہ آپ کو یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرو ، ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے ،بلوچستان اورسابقہ فاٹا کے مختص نشستوں پرسکالرشپ بحال کی جائیں
مگر کوئی انہیں سن نہیں پارہا بھلا !!کوئی کیوں سنے ؟ یہ فضل الرحمان ،نواز شریف ،باجوہ اور زرداری تھوڑے ہیں جن سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے
بھلا !!ان کی سن کر کون اپنے پاوں پر کلہاڑا چلائے البتہ اتنا توکیا جاسکتاہے کہ آپ ان طلبا کے احتجاجی کیمپ میں شرکت نہیں کرسکتے تو تھوڑی سی غیرت کامظاہرہ کرکے انہیں اپنی "ٹائم لائن ” پرجگہ دیں اور دنیا کودکھادیں
کہ خرب موسم میں ان کا احتجاجی کیمپ وقت کی نارسائی پرسوال اٹھاتا ہوا حکمرانوں کے درو دیوار سے ٹکرا کر ایک زمانے سے راستہ موڑ کر تعلیم کےحصول کی مانگ کررہے ہیں کیا یہ مانگ "غیرقانونی ” ہے کیا یہ مطالبات "غیرقانونی ” ہیں
کیا یہ خواہش ریاست کی سلامتی پر آنچ ڈال رہی ہے؟
اگر نہیں توانہیں میڈیائی "بلیک اوٹ” کا سامنا کیوں ہے ؟
ذرا!!سوچیئے
مگر میں اس احتجاج کے پیچھے محرکات کی وجوہات کو حقائق کی روشنی میں کھول کر قارئین کےسامنے اجمالی تصویر کشی کرنے کی کوشش کروں گا
کہ ان طلبا نے بلوچستان کے حکام بالا سے بات کی انہیں اپنے تحفظات پیش کیے مگر ناکام لوٹے ہار ہوئے سکندر کی طرح انہوں نے گھر بیٹھنے کی بجائے وی سی سے ملاقات کیا انہوں نے بھی جواب دے دیا پھر طلبا نے سیاسی رہنماوں سمیت ہرطبقہ فکر سے سکالرشپ اور مخصوص سیٹوں کی بابت بات کی مگر ناکامی ہاتھ میں آئی البتہ ملک کی سب سے بڑی ایوان میں یہ مسئلہ زیربحث رہا جسے قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا لیکن وہاں یونیورسٹی نے اخراجات کا ڈھنڈورا پیٹ کر کہا کہ طلبا امسال سے فیس ادا کریں گے اور کوئی چارہ نہیں ۔۔
وہاں سے طلبا مایوس ضرور ہوئے مگر انہوں نے گھر بیٹھنے کی بجائے کچھ کرنے کی ٹھانی یوں یہ طلبا بلوچستان سے مسافت کرتے ہوئے آج ملتان کے سڑکوں پرنکلے ہیں کیمپ لگایا ہے ۔۔حالانکہ آج کل جامعات بند ہیں مگر انہوں نے گھربار اور آرام ترک کرکے اپنے کل کے مستقبل اورساتھی طلبا کے سکالرشپ کی بندش کے خلاف محاذ پہ ڈٹے رہنے کو ترجیح دی
انہوں نے اعلان کیا تب تک احتجاج کرتے رہیں گے جب تک نئی پالیسی کو واپس نہیں لیا جاتا ۔۔
تب تک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہیں گے جب تک پرانی پالیسی بحال نہیں ب کی جاتی
آخر میں حکام بالا سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پرسنجیدگی کا مظاہرہ کرلیں خاص کر میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے چانسلرگورنر پنجاب چوہدری سرورصاحب سے اپیل کرتاہوں کہ وہ طلبا کے مطالبات پر توجہ دیں اور دوسرےصوبوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدہ کو پورا کریں
اور احتجاجی طلبا کےلیے نیک خواہشات کا اظہار کرتاہوں ۔۔
مندرجہ بالا تحریرکے لکھنے کے بعد میں نے یہ خبر سنی ہے کہ ان طلبا کو چیف سکیورٹی آفیسر کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہے جس کی میں شدیدمذمت کرتا ہوں
چیف سکیورٹی سن لیں ہم وہ نہیں ہیں جوآپ کی دھمکیوں سے ڈریں بلکہ ہم ہرمحاذ پہ ڈٹے ہوئے ملیں گے
بقول شاعر
یہ عہدستم سلسلہ وارکہاں تک؟
رستے میں اندھیرے کی یہ دیوارکہاں تک؟
اے صبح ِتومیرے دیس میں آکرہی رہےگی
روکیں گے تجھے شب کے طرف دارکہاں تک؟
ہاں !!!چیف سکیورٹی آفیسر سن لیں
یہ ہمارا آئینی وجمہوری حق ہے جس سے کوئی بھی شخص ہمیں روک نہیں سکتا چاہے اس ملک کا کوئی بھی بڑے سے بڑا عہدے دار ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر