ملتان میں تعزیہ داری کی قدیم روایت
ملتان میں تعزیہ داری کی روایت انتہائی قدیم ہے ، یوم عاشور پر شہر میں 117 سے زائد تعزیے کے جلوس برآمد ہوتے ہیں
تاہم ان تعزیوں میں نمایاں مقام پاک گیٹ اور خونی برج سے برآمد ہونے والے قدیمی اُستاد اور شاگرد کے تعزیوں کو حاصل ہے۔
اُستاد کا تعزیہ 1825 میں بنایا گیا یہ تعزیہ اُستاد پیر بخش چینیوٹی نے حضرت امام حسین سے عقیدت کے اظہار کے لیے تیار کیا تھا
جسے بنانے میں 5 سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ اُستاد کا تعزیہ مکمل طور پر ہاتھوں سے بنا ہوا ہے اس پر کوئی مشینی کام نہیں کیا گیا،
خالص ساگوان کی لکڑی سے تیار کردہ 25 فٹ اونچے اور 8 فٹ چوڑے اس تعزیہ میں متعدد محراب، جھروکے،
گنبد اور مینار شامل ہیں ۔اُستاد کے تعزیے کی جُڑت میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوتی بلکے مختلف حصوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے فن کا یہ اعلیٰ نمونہ مکمل کیا جاتا ہے۔
آستانہ شاگرد والا کے متولی خلیفہ رمضان کے مطابق شاگرد کا تعزیہ 1944 میں اس وقت بنایا گیا جب اس تعزیے کو پراسرار طور پر آگ لگ گئی
شاگرد کا تعزیہ قبل ازیں 1860 میں تیار کیا گیا تھا جسے استاد پیر بخش کے شاگرد الہی بخش نے استاد کے تعزیہ کے کچھ عرصہ بعد ہی بنایا تھا۔
شاگرد کے تعزیہ کی اونچائی 25 فٹ ہے جبکہ چوڑائی 12 فٹ بتائی جاتی ہے اور ملتان میں یہ سب سے بڑا تعزیہ ہے اس میں مشینی کام کیا گیا ہے
اس کی سات منزلیں ہیں اور یہ بھی لاتعداد محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہے ۔
ملتان میں یوم عاشور پر حرم گیٹ چوک پر 17 سے زائد تعزیے صف بندی کرتے ہیں اور یہاں استاد کے احترام کی روایت آج بھی زندہ ہے
جہاں تمام تعزیوں کے مرکزی جلوس کی قیادت اُستاد کا تعزیہ کرتا ہے اس کے پیچھے شاگرد کا تعزیہ اور پھر دوسرے تعزیے ہوتے ہیں۔
استاد اور شاگرد کے تعزیوں کی دیکھ بھال کرنے والے دونوں خاندانوں کا تعلق سنی فرقہ سے ہے۔
یوم عاشور پر استاد کے تعزیہ کا جلوس شاہ رسال جبکہ شاگرد کا تعزیہ
حرم گیٹ چوک سے واپس اپنے آستانہ خونی برج آکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ