نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جام پور کا غیر قانونی جبری ٹیکسی اسٹیند

اجڑے شہر جامپور کی اجڑی ھوئی ایک اور تاریخی عمارت

جام پور کا غیر قانونی جبری ٹیکسی اسٹیند ۔۔۔

سول کلب جام پور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر آفتاب نواز مستوئی ۔۔۔۔۔۔۔

اجڑے شہر جامپور کی اجڑی ھوئی ایک اور تاریخی عمارت

جو کسی بھی وقت دیگر سرکاری عمارتوں اور املاک کی طرح منہدم ھونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فلتھ ڈپو کی شکل اختیار کر جائے گی

نئی نسل جسے اب بھی پتہ نہیں کہ یہ عمارت کیاھے اسکا تاریخی پس منظر کیا ھے اور اس نسل کے بعد آنے والی نسل جسے نہ تو ٹریفک چوک پر موجود صدیوں پرانے تاریخی

” بڑ ” کے درخت بارے کچھ معلوم ھو گا نہ ھی اس نسل کو یہ پتہ ھو گا کہ گورنمنٹ سکول نمبر 1 کا تاریخی قدیمی گیٹ کدھر گیا نہ ھی آج کی نسل کو پتہ ھے کہ

برصغیر پاک وھند کے عہد ساز تاریخی تعلیمی ادارہ ” مدرسہ اسلامیہ ” کی وہ عمارت کہاں گئی جہاں امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی جیسی نامور ھستیوں نے علم حاصل کیا ۔مٹا دی گئی اس شہر کی تاریخ نام نہاد ترقی کے نام پر رھی سہی

کسر ابن الوقت مفاد پرست مافیاء نے پوری کی اوقاف سمیت سرکاری عمارتوں اور املاک پر قبضے پر ھوتے گئے کوٹھیاں بنگلے مارکیٹیں بنتی چلی گئیں

اگر کسی” سر پھرے انتظامی افسر ” نے ایکشن لینے کی کوشش کی تو ” وقت کے شاھوں ” کی سفارشوں نے معاملہ دبا دیا سفارش نہ ماننے والوں کے تبادلے ۔۔

ایک دور ایسا بھی چلا کہ ” مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے ” کے مصداق ساڈا حصہ ساکوں ڈیو و چڑھ ونجو سرکار دے رقبے تے ساڈے کوئی پیو دی ملکیت اے ۔

الغرض کمیشن رشوت جمع ” طاقتور منہ زور مقتدر طبقات ” کی سفارش کی ” تیز ھوا ” ایسی چلی کہ” پہلے آندھی بنی” اور پھر ” طوفان کا روپ” دھار تی چلی گئی

اور اب یہ وہ طوفان ھے جو تھمنے اور رکنے کا نام ھی نہیں لیتا جس ادارے میں چلے جائیں ایم این اے ایم پی اے کا بے شک فون کروا لیں

مگر ایک معمولی نقل کے حصول کیلئیے بھی کم از کم ایک ھزار روپے کا ” کنوارا نوٹ ” جسے سرائیکی زبان کے ” کڑ کڑاں نوٹ ” کہا جاتا ھے

جیب میں نہیں آپکی مٹھی میں ھونا چاھئیے جس تیز ی سے وہ نوٹ سفر کر ے گا اسی برق رفتاری سے آپکا کام ھو گا پہلے پٹواری بد نام تھے کہ

انہوں نے پرائیوٹ منشی بٹھا رکھے ھیں لینڈ ریکارڈ سینٹرز کے قیام کے بعد پٹواری کی یہ طاقت تو ختم ھوھی گئی مگر

اب پولیس تھانوں میں ھر تفتیشی کے کمرے میں ایک پرائیویٹ منشی بیٹھا ھے جو ۔ ” تمام امور "نہایت خوش اسلوبی اور مہارت وصفائی سے انجام دیتا ھے

” صاحب بہادرکو مطمئن کرتا ھے پھر سرکار کے دستخط ھوتے ھیں ۔۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں ” طویل داستان ھے

اس شہر لا وارث کی بربادیوں اور تباھیوں کی اور یہ کہنے میں بھی قطعی کوئی باک نہیں کہ غیروں سے زیادہ اسکی تباھی میں یہاں کے

” ان جبری معززین ” کا بھر پور کردار ھے جنہیں اس ھنستے بستے شہر کو اجاڑنے سے پہلے ایک سائکل تک نصیب نہ تھی

اور آج ان کے ماں کی گود سے نکلے اچھلتے کودتے نو نہال لاکھوں روپے مالیت کی گاڑیوں کے ساتھ خر مستیاں کرتے نظر آتے ھیں ۔۔

قصہ مختصر واپس آتے ھیں وھاں جہاں سے بات چلی تھی ۔۔شاید 1967یا 1968 میں یا اس سے بھی پہلے قومی شاھراہ پر عین ٹریفک چوک پر ایک نائب تحصیلدار سجاد حسنین نقوی جو کہ

خود ایک اچھے سپورٹس مین تھے نے پنجاب حکومت کی اراضی پر اس دور کی ایک خوبصورت عمارت تعمیر کروائی جسے

” آفیسرز کلب ” کا نام دیا گیا ۔آھستہ آھستہ یہ عمارت اور اس کا لان آباد ھونا شروع ھوئے مختلف محکموں کے آفیسرز شام کو یہاں اکٹھے ھوتے بیڈ منٹن ٹیبل ٹینس کیرم بورڈ شطرنج وغیرہ

کی گیمز ھونے لگیں ۔1970میں جامپور کو باقاعدہ سب ڈویژن کا درجہ ملا اسسٹنٹ کمشنرز بطور سب ڈویژنل مجسٹریٹ تعینات ھوئے ساتھ سول کورٹ قائم ھوئی

سول جج صاحبان آگئے جیسے جیسے آفیسرز آتے گئے اسی حساب سے آفیسرز کلب کی رونقیں بڑھتی چلی گئیں

ایک درویش منش اسسٹنٹ کمشنر سردار عالم خان یہاں تعینات ھوئے تو انہوں نے جام پور کے شہریوں کو اعظم شہید لائبریری کا تحفہ دیا

آجکل جس جگہ ماڈل بازار کے مینیجر کا دفتر ھے وھں لائبریری کی خوبصورت عمارت بنوائی ساتھ ھی آفیسرز کلب کو بھی مزید نکھارا ان کے بعد ایک اور انسان دوست

اسسٹنٹ کمشنر خالد مسعود احمد تعینات ھوئے جنہوں نے ھم فقیروں کی درخواست پرنہ صرف جامپور پریس کلب کی اراضی مختص کی

بلکہ اسکی بنیادوں کی تعمیر میں بھی مدد کی انہوں نے آفیسرز کلب کو ترقی دیتے ھوئے سامنے موجود دوکانیں منہدم کرو ا دیں اورکچی دیواروں کی جگہ ایک خوبصورت محفوظ چار دیواری تعمیر کروائی انہوں نے

اس کلب اور پریس کلب کے عہدیداران سے حلف لیا کہ ان دونوں کلبز کی خوبصورتی اور پہچان کو ھمیشہ برقرار رکھتے ھوئے یہاں مارکیٹ یا دوکانیں نہ بنائی جائیں

تاکہ قومی شاھراہ سے گزرنے والے لوگوں اور آفیسرز کو پتہ چلے کہ جامپور میں یہ ادارے بھی موجود ھیں ایک بار تو یہ دونوں ادارے علمی ادبی دینی ثقافتی سماجی سرگرمیوں کے

مراکز بن گئے وکلاء صاحبان ڈاکٹر صاحبان اور علاقے کے سلجھے ھوئے پڑھے لکھے زمینداروں اور تاجروں کی دلچسپی کے باعث اس کلب کا نام آفیسرز کلب کی بجائے

سول کلب رکھا گیا باقاعدہ آئین اور قواعد وضوابط بنے اسسٹنٹ کمشنر بلحاظ عہدہ اس کے صدر رکھے گئے

جب کہ باقی عہدیداران کا چناو ھوتا رھا ۔غزالی رحیم خان پتافی ۔ بلدیہ جام پور کے چئیرمین بنے تو انہوں نے لالہ ریاض حسین اختر اور دیگر ممبران کی درخواست پر

ذاتی طورپر اس کلب کو نکھارنے میں بھر پور حصہ لیا اسی طرح میاں صادق حسین ایڈوکیٹ اور مرحوم ملک اعجاز احمد جکھڑ ایڈوکیٹ نے بھی اپنے اپنے دور

میں سول کلب کی تزئین وآرائش کیلئیے فنڈز فراھم کیے ۔ اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن اعجاز احمد جعفر جب میونسپل کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر تھے تو انہوں نے غربی جانب ھائی وے کے

دفتر سے ملحقہ خوبصورت ھال تعمیر کروایا کھیلوں کا سامان فراھم کرایا ۔ھمیں یاد ھے سب ذرا ذرا یہاں سرکاری سطح پر شاندار ثقافتی پروگرام مشاعرے منعقد ھوتے تھے

ماضی قریب کی ھی بات ھے خواجہ فرید سرائیکی ادبی سنگت بزم کیفی کی تمام تقریبات اسی کلب میں منعقد ھوتی رھیں ۔نجانے کس بد نظر خبیث کی نظر لگی

ڈیرہ غازیخان ڈویژن کا فعال ترین پریس کلب ویران ھو گیا لیکن شکر خدا کا کہ اسکا وجود ویرانی سمیت کسی نہ کسی شکل میں موجود ھے

مگر سول کلب کا تو حشر نشر کر دیا گیا بجائے اسے سنوارنے کے یہاں محلے کی گندگی ڈالنا شروع کر دی گئی

اور پھر گزشتہ دو سالوں سے اسے ” جبری ٹیکسی اور موٹر سائکل اسٹینڈ ” بنا دیا گیا ابتداء میں عرصہ دراز تک بلدیہ کے ملازمین ڈیوٹی دیتے رھے فی موٹر سائکل 20 روپے فی کار پچاس روپے وصول ھوتے رھے

وصول شدہ رقم کدھر گئی کس اکاونٹ میں جمع ھوئی نہیں معلوم ۔ ٹیکسی ڈرائیورز کے مطالبہ پر پریس کلب سے ملحقہ سرکاری پلاٹ جو نئے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کے چارج سنبھالتے ھی فلتھ ڈپو بنا دیا گیا ھے

پر موٹر سائکل اسٹینڈ الگ بن گیا اور سول کلب مکمل ٹیکسی اسٹیند بن گیا پچاس روپے روزانہ کی بجائے 500۔

روپے ماھانہ فی گاڑی کی بنیاد پر تا دم تحریر سول کلب غیر قانونی ٹیکسی اسٹینڈ بنا ھوا ھے جبکہ سرکاری طور پر جنرل بس اسٹینڈ جسے آباد آج تک نہیں دیکھا گیا

پر ٹیکسی اسٹینڈ کی جگہ موجود ھے ۔”انتظامیہ "خاموش ھے حالانکہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنراور عدلیہ کے جج صاحبان سمیت تمام آفیسرز اور ذمہ داران یہاں سے گزرتے ھیں

کوئی پرسان حال نہیں رہ گئے شہری یا سول سوسائٹی بے چارے ڈرتے ھیں دور حاضر کے جبری معززین سے کیونکہ؛

” ٹیکسی کار مالکان ” کی اکثریت ھی تو شہر کی ” سب سے بڑی معتبرشخصیات ھی تو جبری معزز "ھیں ۔۔۔۔۔۔

کس سے منصفی چاھیں کسے فریاد کریں ۔۔۔پورے شہر کی طرح سول کلب کا بھی اللہ نبی وارث ۔

About The Author