پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے چند اہم اور متحرک رہ نمائوں سے حال ہی میں دوستوں کی محفلوں میں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ تمام ایماندارانہ افسردگی کے ساتھ اعتراف کرتے پائے گئے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مطلوب قوانین کی منظوری کے دوران ان کی جماعتوں کے ساتھ پنجابی محاورے والا ’’ہتھ‘‘ ہوگیا۔عمران حکومت یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب رہی کہ ان قوانین کی منظوری میں تعاون کے بدلے اس سے نیب قوانین میں نرمی والا “NRO”مانگا جارہا تھا۔ کپتان مگر ڈٹ گیا۔ بالآخر ان جماعتوں کو ’’اسی تنخواہ‘‘پر حکومت کو معاونت فراہم کرنا پڑی۔
اس معاونت کو مولانا فضل الرحمن کے بھائی سینٹ میں کھڑے ہوکر حکومت کی ’’سہولت کاری‘‘ پکارتے رہے۔ طنزیہ انداز میں بارہا استفسار کرتے رہے کہ وہ کونسی ’’مجبوریاں‘‘ تھیں جنہوں نے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو ’’سوپیازاور سو جوتے‘‘ کھانے والی خفت سے دو چار کیا۔اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو جمعیت العلمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی کے ہاتھوں برسرِ عام شرمندہ کروانے کے باوجود تحریک انصاف مطمئن نہ ہوئی۔ یہ قوانین منظور ہوگئے تو ان کی منظوری میں تعاون کا ’’شکریہ‘‘ ادا کرنے کے بجائے اس جماعت کے ایوان بالا میں ’’قائدِ ایوان‘‘ نامزد ہوئے ڈاکٹر وسیم شہزاد نے ایک حیران کن داستان گھڑی۔ ان کا اصرار تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو ’’دہشت گردی‘‘ کی وجہ سے اپنی گرے لسٹ میں نہیں ڈالا تھا۔ اصل وجہ ’’منی لانڈرنگ‘‘ تھی۔
اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے آصف علی زرداری اور شریف خاندان مسلسل اس جرم کا ارتکاب کرتے رہے۔ بے رحم رشوت ستانی سے جمع ہوئی بے تحاشہ رقوم کو انہوں نے بیرون ملک ہنڈی حوالے کے ذریعے منتقل کیا۔ انہیں سرے محل اور ایون فیلڈ فلیٹس جیسی قیمتی جائیدادیں خرید کر ’’لانڈر‘‘ کیا۔’’لانڈر‘‘ ہوئی رقوم میں سے کروڑوں روپے بعدازاں TTوغیرہ کی صورت ان رہ نمائوں کے ’’جعلی اکائونٹس‘‘ میں آتے رہے۔ عالمی ادارے اس ’’منی لانڈرنگ‘‘ سے ناراض ہوگئے۔ پاکستان پر دبائو بڑھاکہ وہ اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے۔ بینکوں میں بنائے کھاتوں پر کڑی نگاہ رکھے۔ سونے اور پراپرٹی کی خریدوفروخت پر مسلسل نگرانی کا بندوبست فراہم کرے۔ عمران حکومت مطلوبہ قوانین منظور نہ کرواتی تو پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں ڈال دیا جاتا۔ ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک وہاں پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ان ممالک کو عالمی منڈی سے روابط استوار کرنے میں بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
چند اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کی خواہش تھی کہ پاکستان بھی ایسی مشکلات کی زد میں آجائے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہ نمائوںنے مگر ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین کی سرعت سے منظوری کو یقینی بناکر گویا اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ بنیادی طور پر ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ قانون سازی کی بابت اس کالم میں مسلسل لکھتا رہا۔ تبصرہ آرائی سے اکثر گریز کیا۔ جو ہورہا تھا محض اسے بیان کرنے کو ترجیح دی۔’’کالم نگاری‘‘ کے تناظر میں یہ سوال اگرچہ اٹھاتا رہا کہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو حکومت اور اپوزیشن یہ تو بتائے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کو یقینی بنانے کے لئے کونسے ’’نئے‘‘ قوانین متعارف ہوئے ہیں۔ ان قوانین کی تفصیلات کیا ہیں۔ نئے قوانین ہماری کاروباری عادات اور رویوں میں کونسی تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔
یہ تبدیلیاں ہماری معیشت میں مزید کسادبازاری تو نہیں لائیں گی۔ بازار میں ’’خوف‘‘ تو نہیں پھیلے گا۔ کسی وزیر یا اپوزیشن رہ نما نے یہ تفصیلات بتانے کا ہرگز تردد نہیں کیا۔ ہمیں یہ بتانا بھی مناسب نہ سمجھا کہ ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے کے نام پر عمران حکومت کی جانب سے ابتداََ کونسے مسودے آئے تھے۔ رات گئے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے سرکاری گھر میں جاری طویل مذاکرات کے دوران اپوزیشن رہ نمائوں کے اصرار پر مجوزہ قوانین میں کونسی ترامیم لائی گئیں۔ جو ترامیم لائی گئیں وہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے کونسے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گی۔ بازار کی رونق بڑھانے اور اسے برقرار رکھنے میں کیسے مدد گار ثابت ہوںگی۔
کسی وزیر یا اپوزیشن رہ نما نے یہ سب بیان کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ ’’عوام کے منتخب کردہ‘‘ اراکین اسمبلی کی جانب سے برتی یہ رعونت بھری بے اعتنائی مجھے پارلیمانی اصولوں کے مطابق قابلِ مذمت نظر آئی۔ اپنے خیالات کو ذمہ دارانہ انداز میں بیان کرتا رہا۔اندھی نفرت وعقیدت میں بٹی قوم میں لیکن روایتی؍کلاسیکی یا کتابی ’’صحافت‘‘ کی گنجائش اب باقی نہیں رہی۔ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین کی منظوری کے عمل کو محض ایک رپورٹر کی طرح بیان کیا تو عمران خان کی نفرت سے مغلوب ہوئے کئی افراد ناراض ہوگئے۔ الزام لگایا کہ میں شاید ’’نوکری‘‘ بچانے کے لئے اپوزیشن کی مذمت کرناشروع ہوگیا ہوں۔ عمران حکومت سے ’’معافی تلافی‘‘ کا طلب گار۔ چند افراد کا گلہ یہ بھی تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے بارے میں ہوئی قانون سازی پر توجہ دینے کے بجائے میں عوام کے ’’حقیقی مسائل‘‘ بیان کیوں نہیں کررہا۔ یہ گلہ کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ جس قانون سازی کا تذکرہ اس کالم میں ہورہا تھا کہ وہ مریخ پر نہیں ہورہی تھی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ سارا عمل مکمل ہوا۔مجھ سے گلہ کرنے والے ’’خالص جمہوریت‘‘ کے عاشق ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔
یہ بات مگر بھول جاتے ہیں کہ ’’خالص جمہوریت‘‘ میں پارلیمان اہم ترین بلکہ کلیدی ادارہ ہوتا ہے۔ اس میں ہوئی کارروائی کو ’’جمہوریت پسند‘‘ کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں۔ صحافی کا بنیادی فریضہ نظر ا ٓتی حقیقتوں کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹی وی صحافت نمودار ہونے کے بعد مگر یہ تاثر پھیلنا شروع ہوا کہ اینکر خواتین وحضرات ’’حق گوئی‘‘ کا فریضہ اپنے ذمے اٹھالیں۔ قوم کی ’’رہ نمائی‘‘ کریں۔ میں اس’’رہ نمائی‘‘ کے قابل ہی نہیں۔ ذات کا رپورٹر ہوں۔ جو دیکھتا ہوں بیان کرنے کا عادی ہوں۔ حقائق بیان کرتے ہوئے کالم میں تبصرہ آرائی بھی لازمی تصور ہوتی ہے۔ اس سے گریز نہیں کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مذکورہ قوانین کی منظوری سے قبل قومی اسمبلی میں ’’اچانک‘‘ نمودار ہوکر ایک دھواں دھار تقریر فرمائی تھی۔ اس تقریر کے ذریعے انہوں نے اصرار کیا کہ اپوزیشن جماعتیں ایف اے ٹی ایف کو مطلوب قوانین کی منظوری میں تعاون کے بدلے حکومت سے NROمانگ رہی ہیں۔ خواجہ آصف ان کے دعویٰ پر بہت چراغ پا ہوگئے۔قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر شکوہ کیا کہ شاہ محمود قریشی نے ’’اندر کی باتیں‘‘ برسرِ عام لاکر بداخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ اب حکومت کے ساتھ وزیر خارجہ کے رویے کے بعد کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔
ان کے واضح اور جارحانہ اعلان کے دوسرے دن مگر قومی اسمبلی کے سپیکر کے سرکاری گھر میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین مذکرات جاری رہے۔ بالآخر ایف اے ٹی ایف کو مطلوبہ قوانین کی سرعت سے منظوری کا راستہ نکال لیا گیا۔ انہیں قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل وزیر قانون جناب فروغ نسیم نے دلوں کو لبھاتی تقریرفرمائی۔ خواجہ آصف سمیت دیگر کئی اپوزیشن رہ نمائوں کے نام لے کر ان کے ’’مثبت کردار‘‘ اور ’’حب الوطنی‘‘ کا اعتراف کیا۔ ایف اے ٹی ایف کو مطلوبہ قوانین منظور ہوجانے کے بعد بھی شبلی فراز اب عوام کے روبرو وہ ’’دستاویز‘‘ لے آئے ہیں جو ان کی دانست میں ثابت کرتی ہے کہ مذکورہ قوانین کی منظوری کے بدلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون عمران حکومت سے NROکی طلب گار تھیں۔
میری ناقص رائے میں خلقِ خدا کے لئے اہم ترین سوال مگر اب بھی یہ رہے گا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں کیوں ڈالا تھا۔ اس کی وجہ ’’دہشت گردی‘‘ تھی یا محض شریف خاندان اور آصف علی زرداری کی جانب سے مبینہ طورپر مرتکب ہوئی ’’منی لانڈرنگ‘‘۔ ڈاکٹر وسیم شہزاد نے اس ضمن میں سینٹ میں کھڑے ہوکر جو کچھ کہا میں دو ٹکے کا صحافی اس کی تصدیق یا تردید کا حق نہیں رکھتا۔ خواجہ آصف صاحب ہمارے وزیرخارجہ رہے ہیں۔ ان سے قبل پیپلز پارٹی کی حنا ربانی کھر صاحبہ اس عہدے پر فائز تھیں۔ ان دونوں کے پاس اس ضمن میں یقینا ٹھوس معلومات موجود ہیں۔
یہی عالم میری دوست محترمہ شیری رحمن کا بھی ہے۔ وہ بہت ہی نازک موقعہ پر پاکستان کی واشنگٹن میں نمائندگی فرمارہی تھیں۔ فقط یہ تینوں افراد ہی میرے اور آپ جیسے جاہل کو ٹھوس حوالوں سے سمجھا سکتے ہیں کہ پاکستان ’’گرے لسٹ‘‘ میں کیوں پہنچا۔ وہ اس ضمن میں کچھ فرمائیں گے تو اس کالم میں اس کا ذکر بھی یقینا ہو گا۔ وہ اگر خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں تو مجھے اپوزیشن کی ’’ترجمانی‘‘کا شوق ہرگز لاحق نہیں ہے۔ میں اس حوالے سے فقط ڈاکٹر وسیم شہزاد کا بیان ہی رپورٹ کرسکتا ہوں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر