اکتوبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملک مافیاز کے نرغے سے کب نکلے گا؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

لگتا ہے کہ ملک کی زراعت اور کسانوں کو ایک غیر اعلانیہ منصوبے کے تحت تباہ کرنے کا مشن جاری و ساری ہے.

وطن عزیز پاکستان ایک زرعی ملک ہے. اس کے لیے اپنی ضرورت کی گندم اور چینی پیدا نہ کرسکنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے. یہ حکومت کی ناکام زرعی و معاشی پالیسیوں کا نتیجہ و ثبوت ہے. ملک اور عوام کو چاروں طرف سے لوٹنے والے مافیاز نے گھیرا ہوا ہے. یہی نہیں بلکہ قانون کی چھت نہ ہونے کی وجہ اوپر سے بھی کئی معاشی درندے اپنے منفرد قسم کے عجیب و غریب کرتب دکھاتے رہتے ہیں. قومی خزانے اور عوام کی جیبوں دونوں کا صفایا کرنے کا کام فریضہ سمجھ کر سر انجام دیتے رہتے ہیں. لگتا ہے کہ قانون کتابوں میں سکون کے ساتھ محفوظ پڑا ہے اور قانونی کی رکھوالی بعض مرئی اور غیر مرئی وجوہ کی بنا پر زبان کی حد سے آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی. یوں ملک میں مافیاز انتظامیہ اور حکمران مل کر ملک اور عوام پر اپنا راج قائم کیے ہوئے ہیں. قومی اسٹیٹ کے اندر اپنی اپنی نجی اسٹیٹس قائم کر رکھی ہیں 

لگتا ہے کہ ملک کی زراعت اور کسانوں کو ایک غیر اعلانیہ منصوبے کے تحت تباہ کرنے کا مشن جاری و ساری ہے. زرعی ملک میں پانی کے ذخائر پر کام کا ہونا، نہری نظام کی اصلاح، ری ڈیزائنگ و ری ماڈلنگ نہ کرنا بہت بڑی غیر ذمہ داری بلکہ غفلت ہے.ناقص بیجوں سے لیکر دو سے چھ نمبر تک کی زرعی ادویات اور ملاوٹ شدہ کھادوں کی وجہ سے زراعت اور کسانوں کو پہنچنے والے قومی نقصان کا احساس نہیں کیا جا رہا. جو مسلسل ہماری مختلف فصلات کی پیداوار میں کمی کا باعث ہے.بڑھتے ہوئے پیداواری اخراجات کے باوجود کسانوں کو ان کی فصلات مناسب ریٹس نہیں دیئے جا رہے ہیں. نیچے سے لیکر اوپر تک اور اوپر سے لیکر نیچے تک کمیشن خوری نے ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے.حکمران اور ذمہ دار ادارے فکر مند ہونے اور احساس کرنے کی بجائے اپنا پیٹ اور تجوریاں بھرنے کے لیے مزید غلطیاں اور غلط فیصلے کرنے کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں. ٹیکسز اور ڈیوٹیوں میں کمی کرکے یا چھوڑ کر آج چینی اور گندم باہر کے ممالک سے منگوانے کے آرڈرز دیئے جا چکے ہیں.زرعی ملک کے لیے یہ بات المیے سے کم نہیں ہے. ملک کے کسانوں کو دیئے جانے والے گندم کے ریٹ سے باہر سے درآمد کی جانے والی گندم مہنگی پڑ رہی ہے. حکمران دیس کے کسانوں کو بہتر ریٹ یا ریلیف دینا گوارا نہیں کرتے لیکن قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے دوسرے ممالک کو رقم لوٹا دیتے ہیں. گذشتہ سالوں میں شوگر ملز کو حکمرانوں نے اضافی چینی کی برآمد کے لیے اربوں روپے کا ریبیٹ اور سبسڈی دی.آج آدھ درجن کے قریب ٹیکسز میں چھوٹ دے کر چینی باہر سے منگوائی جا رہی ہے. چینی کی ملک میں ہرگز کوئی کمی نہیں ہے. یہ محض ملک اور قوم کو کھانے کا کھیل اور دھندہ ہے.وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کی زیر صدارت ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں چینی کے ذخائرہ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں. صرف 12لاکھ ٹن باقی ہیں جو اوائل نومبر میں ختم ہو جائیں گے. ملک کے اکابرین، معاشی تھنک ٹینک اور فیصلہ سازوں نے گویا اس مسئلہ کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ فورا سرکاری اور نجی سیکٹر کے ذریعے چینی درآمد کی جائے درآمد گنندگان کو ٹیکسز میں چھوٹ دی جائے.

محترم قارئین کرام،، جیساکہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مافیاز. بیورو کریسی اور حکمران مل کر ملک و قوم کو پھدو بنا کر کھا رہے ہیں. کب اور کون ان سے پوچھے گا کہ جب کسان اپنے گنے کا مٹھاس کے مطابق ریٹ مانگتا ہے. نئی فصل کے ریٹ طے کرنے اور قیمت بڑھانے کے دن آتے ہیں.کرشنگ سیزن کے آغاز کا پیریڈ سر پر ہوتا ہے ملک میں چینی کا سٹاک وافر ہو جاتا ہے.کسانوں سے نئی فصل کی خریداری کے لیے شوگر معذوری ظاہر کرنے اور جواب دینے لگتی ہیں. نئی چینی رکھنے کے لیے شوگر ملوں کے پاس جگہ تک نہیں ہوتی. انہیں اپنے گوداموں میں پڑی چینی کی برآمد کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی اور ریبیٹ کے حصول کے بغیر ملیں چلانا ممکن دکھائی نہیں دیتا. کسانوں کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے.یہ ملک کا یہ سب سے طاقت ور ترین مافیا ایک طرف قومی خزانے سے اربوں روپے نکلوا کر اپنی تجوریوں میں اضافہ کرتا ہے. دوسری جانب کسانوں کے گنے کا ریٹ نہیں بڑھنے دیا جاتا. آج فیصلہ ساز قوتوں سے پاکستان کسان اتحاد کے ایک کارکن کی حیثیت سے میرا سوال یہ ہے کہ حکومتی اجلاس میں بتائی جانے والی چینی کی پوزیشن کے مطابق اوائل نمبر تک لیے ہمارے پاس چینی موجود ہے تو پھر باہر سے قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے چینی درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے?. شوگر کین ایکٹ شوگر ملز کو15اکتوبر سے کرشنگ سیزن شروع کرنے کا پابند کرتا ہے. حکمران شوگر ملز سے کرشنگ سیزن کا بروقت آغاز کروا کر بتائی جانے والی چینی کی کمی کو بآسانی پورا کر سکتے ہیں. لیکن ایسا کیوں نہیں کیا جاتا یا کیوں نہیں ہونے دیا جاتا. شوگرملز نے نومبر تک کسان کے سستے گنے سے تیار کردہ اپنی چینی کا زیادہ سٹاک مہنگے داموں فروخت کر چکی ہوں گی. باہر سے منگوائی گئی چینی میں کمیشن خوری کے علاوہ ماہ نومبر میں اپنے سٹاک سے وافر چینی مارکیٹ میں ڈال کر چینی ریٹ کو گرانا شو کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ چینی کے کم ریٹوں کا رونا رو کر آئندہ کے لیے کسانوں کےگنے کے ریٹ میں اضافے کو روکا جا سکے. یہ سب استحصالی حربے ہیں. 

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں گندم کی جو صورت حال بتائی گئی ہے. اس کے مطابق ملک میں2کروڑ 60لاکھ 50ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے.جس میں تازہ پیداوار2کروڑ54لاکھ 57ہزار ٹن. اور 6لاکھ 2ہزار ٹن پرانا سٹاک شامل ہے. انہی ایام کے دوران گذشتہ سال کے 75لاکھ 50ہزار ٹن کے مقابلے میں سرکاری شعبے میں گندم کے ذخائر 63لاکھ 20ہزار ٹن بتائے گئے ہیں.14لاکھ 11ہزار ٹن کا شارٹ فال یعنی کمی ظاہر کی گئی ہے. حکومت ٹی سی پی کو 15لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے چکی ہے. اس کمی کے پیش نظر حکومت نے نجی سیکٹر کے ذریعے 5لاکھ ٹن اور سرکاری ادارے ٹی سی پی وغیرہ کے ذریعے 2لاکھ ٹن گندم فوری درآمد کرنے کے نہ صرف فیصلے کر چکی ہے بلکہ سنا ہے کہ درآمد کردہ گندم کی پہلی کھیپ26اگست اور دوسری کھیپ 4ستمبر کو پہنچ جائے گی.وفاق باہر سے منگوائی جانے والی گندم صوبوں کو1600سے1700روپے فی 40کلو گرام فراہم کرے گا.میرے نزدیک ملک میں گندم کے ذخائر اتنے زیادہ کم نہیں ہیں جتنا کھپارا اور سیاپا ڈالا جا رہا ہے.ہاں گندم کے سرکاری ذخائر ضرور کم ہیں. لیکن اکثر عوام کے پاس اپنے کھانے کے لیے گندم گذشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ موجود ہے.اس کی وجہ سیزن کے دوران ہی گندم کے مارکیٹ ریٹوں میں ہونے والا اضافہ اور مستقبل میں مزید بڑھنے کا خوف شامل ہیں. لوگوں کی اکثریت نے سیزن کے دوران ہی اپنی ضرورت کی گندم خرید کر رکھی ہوئی ہے. اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آٹے اور گندم کے حقیقی بحران کا قطعا کوئی خطرہ نہیں ہے. ہاں البتہ مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام کو لوٹنے والے فوڈ مافیا کی وارداتوں سے پیدا ہونے والی پریشانی علیحدہ بات ہے. اسی طرح بیورو کریسی اور حکمران طبقے کے تعاون سے آٹے گندم کی سمگلنگ بھی پیدا کردہ مسئلہ ہوتا ہے نہ کہ حقیقی. اپنی نااہلی، ناکامی یا ملی بھگت کو بحران کا نام دینا اور کمیشن خوری کرنا حکمرانوں اور بیورو کریسی کی ایک قومی علت بن چکی ہے. 

محترم قارئین کرام،، دیکھا یہ کیسا گورگھ دھندہ ہے. دیس کے کسانوں سے 1400روپے من گندم خریدنے والی حکومت اور حکمرانوں کو باہر سے منگوائی جانے والی گندم کس ریٹ پر پڑی ہے. وطن کے کسانوں سے سستی گندم خرید کر ہمسایہ ممالک کو مہنگی گندم سمگل کرنے والے کون لوگ ہیں. ان کے دیگر حصہ داران میں کون کون شامل ہیں. ذخیرہ اندوزی یا مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام کا خون نچوڑنے والے معاشی درندے اور ان کے معاون و سرپرست کون ہیں. انہیں کیونکر کنٹرول نہیں کیا جاتا یا کنٹرول نہیں کیا جا سکتا. آخر اس دو طرفہ لوٹ مار کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے. یہ لوٹ مار کب تک جاری رہے گی.قانون کی حکمرانی کب کیسے اور کون قائم کرے گا. کیا حکمرانوں بیورو کریسی، ہمارے اداروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے پاس مذکورہ بالا بحران و مسائل کا مستقل اور اندرونی حل نہیں ہے.یہ ہم سب کے لیے سوچنے اور فکر کرنے کا مقام ہے کہ گندم، کپاس برآمد کرنے والے ملک کو گندم اور روئی درآمد کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے.مسئلے کے حل کے لیے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اس کے اسباب اور وجوہات تلاش کرنی ہوں گی.کوتاہیوں اور غلطیوں سے بچنا ہوگا، غلط فیصلوں سے اجتناب برتنا ہوگا. نیک نیتی کے ساتھ قومی زرعی و معاشی پالیسیاں بنا کر ہی بحرانوں اور زرعی معیشت کو نقصان پہنچانے والی گھناؤنی سازشوں سے بچا جا سکتا ہے.

چینی کی درآمد گنے کے ریٹ کو بڑھنے سے روکنے کی چال ہے. جس کے پیچھے حکومت اور کابینہ میں شامل شوگر مافیا کے بڑوں کا مکمل ہاتھ ہے.سنا جا رہا ہے کہ کرونا حالات کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر بھی مسائل کا شکار ہوا پڑا ہے. مجھے تو یقین کی حد تک یہ خدشہ محسوس ہو رہا ہے کہ آمدہ کپاس کے سیزن میں کسانوں کو کپاس کا مناسب ریٹ بھی نہیں دیا جائے گا. گذشتہ سال بھی کپاس کے ریٹس کو بڑھنے سے روکنے اور کم کرنے کے پیچھے درپردہ شوگر مافیا ہی موجود تھا. وزیر اعظم کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت کپاس کو سپورٹ پرائس لسٹ میں شامل نہ کرنے کے پیچھے بھی مافیاز کا ہاتھ ہے. میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ملک و قوم کو مافیاز کے نرغے سے نکالے، بچائے اور محفوظ رکھے آمین.

About The Author