زباں روک ذرا ….
تحریر ..محمد عدنان فدا سعیدی …
حضور کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب تبلیغ کے فرائض سرانجام دے دیے اور رفیق اعلی کے مشتاق ہوئے تو رب العزت نے حضرت عزرائیل کو خدمت رسول میں بھیجا
اور جب خداوند عالم کا سلام شوق پہنچا تو حضور بھی ہزار جان سے دیدار الہی کے مشتاق ہوئے اور رفیق اعلئ سے جا ملے. صحابہ کرام نے آپس کے مشورہ سے حضرت سیدنا صدیق اکبر کو حضور کا جانشین تجویز کیا.
مگر کچھ لوگ اس کے موافق نہ ہوئے اور انہوں نے بوجہ قرابت و رشتہ داری حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خلیفہ کرنے کا خیال ظاہر کیا.
حضرت مولائے کائنات نے اس کو غور کیا تو غور کرنے کے بعد آپ نے بھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی ،
اور خلیفہ رسول تسلیم کیا. پھر حضرت عمر بن خطاب خلیفہ ہوئے تو ان کو بھی خلیفہ مانا. اسی طرح حضرت عثمان غنی کو بھی خلیفہ تسلیم کیا اور ان کی شہادت کے بعد چوتھے خلیفہ ہوئے
مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خلافت کا حق حضرت علی ہی کا تھا اس لیے وہ لوگ حضرت علی کو خلیفہ بلافصل مانتے ہیں.
اور حضرت علی کی محبت میں حد سے زیادہ غلو ظاہر کرتے ہیں اور صحابہ کرام کی تنقیص و اہانت کرتے ہیں اور انہیں گالیاں دیتے ہیں.
جس کی شریعت میں بارہا ممانعت کی گئی.یہاں چند فضائل و اہم باتیں بیان کی جاتی ہیں.
سیدنا حذیفہ سے بالاسناد مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداء و پیروی کرو”(سنن ترمذی )..
پھر فرمایا جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اللہ کی اور اس کے ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو.
اللہ اس شخص کا کوئی فرض و نفل قبول نہ فرمائے گا (الایلیمی )..
حضرت خالد بن سعید راوی ہیں کہ حضور کریم نے فرمایا اے لوگو میں ابو بکر سے راضی ہوں تم بھی ان کو پہچان لو .
اے لوگو میں عمر ، عثمان ،علی ،طلحہ ، زبیر ،سعد، سعید، عبدالرحمان بن عوف سے راضی ہوں تم بھی ان سب کو پہچان لو.
اے لوگو اللہ نے اہل بدر و حدیبیہ کو بخش دیا.اے لوگو میرے خسر اور میرے داماد کی عزت و احترام کے بارے میں میری نصیحت یاد رکھو.
ان میں سے کوئی تم سے اپنا ظلم (بدگوئی لعن طعن وغیرہ کرکے ) طلب نہ کرے کیونکہ وہ ظلم ہے جو کل بروز قیامت نہ بخشا جائے گا..(مجمع الزوائد)..
حضرت سہیل بن عبداللہ تستری نے فرمایا جو شخص حضور کے صحابہ کی عزت و توقیر نہیں کرتا اور آپ کے احکام و نصیحت کی عظمت نہیں کرتا وہ رسول اللہ پر ایمان نہیں رکھتا..
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہل بیت اور آپ کی آل پاک ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کو گالی دینا اور ان کی تنقیص کرنا حرام ہے
اور ایسا کرنے والا شخص ملعون ہے.نبی کریم نے فرمایا میرے صحابہ کے بارے میں خدا سے ڈور ان کو اپنی اغراض کا نشانہ نہ بناو
جس نے ان سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھنے کہ وجہ سے بغض رکھا.
جس نے انہیں ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی بلاشبہ اس نے اللہ کو ایذا دی جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ وہ گرفت میں آئے(سنن ترمذی کتاب المناقب )
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا سیدہ فاطمہ کے بارے میں کہ وہ میری لخت جگر ہیں جس سے ان کو ایذا پہنچتی ہے اس سے مجھ کو ایذا پہنچتی ہے
اسی طرح سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کو گالی دینے والا دراصل حضور کریم کو گالی دیتا ہے . پھر ایک جگہ روایت ہے کہ
حضور کریم نے فرمایا میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی قسم دیتا ہوں یہ تین مرتبہ فرمایا (یعنی اہل بیت کی تعظیم توقیر کرنے کی ہدایت )(صحیح مسلم )..
کریم آقا نے فرمایا کہ جس نے علی کو دوست رکھا
تو علی بھی اس کے دوست ہیں اور اے خدا جس نے ان سے دوستی رکھی تو بھی اس کو دوست رکھ اور جس نے ان سے دشمنی رکھی تو بھی اسے مبغوض رکھ(مسند امام احمد )..
سنن ترمذی میں ہے کہ آقا نے فرمایا کہ جس نے حسن سے محبت رکھی اس نے اللہ سے محبت رکھی ".
حضور کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "میں اصحاب کے لیے امان ہوں اور جب چلا جاوں گا تو میرے اصحاب میری امت کے لیے امان ہیں”.
جب قرآن مجید نے اصحاب رسول پر رضامندی کا اظہار فرما دیا گیا
تو قرآن کا فیصلہ اٹل ہے قرآن قیامت تک ہے اور رضی اللہ عنہم کا وعدہ بھی قیامت تک ہے .قرآن نے ان سب کو بزرگی والا فرمایا
اور ان کے دلوں میں تقوئ ہے..
صحیح بخاری شریف میں امام محمد بن حنفیہ صاحبزادہ امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد ماجد مولا علی سے عرض کی : نبی کریم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہے؟
فرمایا ابوبکر میں نے کہا پھر کون فرمایا عمر پھر میں نے کہا کہ آپ ؟ تو فرمایا نہیں ایک اور مرد مسلمان.. (صحیح بخاری ج اول )..
امیر المومنین کو خبر پہنچی کہ کچھ لوگ انہیں ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں تو آپ منبر شریف پر تشریف لے گئے حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ:-اے لوگوں مجھے خبر پہنچی ہے کہ
لوگ مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں اگر میں پہلے تمہیں متنبہ کرچکا ہوتا تو اب سزا دیتا.آج کے بعد جسے ایسا کہتا سنوں گا وہ مفتری ہے اس پر مفتری کی حد آئے گی”.
رسول اللہ کے بعد سب آدمیوں سے بہتر ابوبکر ہیں پھر عمر پھر ان کے بعد ہم میں سے کچھ نئے امور واقع ہوئے کہ
خدا ان میں جو چاہے گا حکم فرمائے گا(کنزالعمال )..
ابن عساکر بطریق الزہدی عن عبداللہ بن کثیر راوی ، امیر المومنین مولا علی فرماتے ہیں کہ”جو مجھے ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا اسے دردناک کوڑے لگاوں گا”(تاریخ ابن عساکر ج 15 ص671 )..
حضور کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "جب میرے صحابہ کا ذکر آئے تو زبان روکو”(المعجم الکبیر جلد 2 )..
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا "میرے صحابہ کو برامت کہو ، میرے صحابہ کو برا مت کہو ،دوبارفرمایا”..
حضرت امام حسن نے حضرت امیر معاویہ کو خلافت سپرد فرمائی اور اس سے صلح و بندش جنگ مقصود تھی اور یہ صلح و تفویض خلافت اللہ و رسول کی پسند سے ہوئی. رسول اللہ نے امام حسن کو گود میں لے کر فرمایا تھا کہ
"میرا یہ بیٹا سید ہے. میں امید کرتا ہوں کہ اللہ اس کے سبب سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرادے گا(صحیح بخاری جلد اول )..
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگر خلافت کے اہل نہ ہوتے تو امام حسن ہرگز ان کو تفویض نہ فرماتے نہ اللہ و رسول اسے جائز رکھتے ..
اس طرح جو لوگ ام المومنین سیدہ عائشہ پر قذف لگاتے ہیں تو فتاوئ رضویہ کے مطابق کفر خالص ہے اور جو صحابیت صدیق اکبر کا انکار کرے یہ بھی کفر خالص ہے..(فتاوئ رضویہ جلد 14 ص 245 )..
ترمذی شریف جلد دوم میں ہے کہ حضور اکرم کسی جنازہ میںتشریف لے گئے مگر جنازہ نہ پڑھایا فرمایا "یہ عثمان غنی کے بارے میں بغض رکھتا ہے گویا کہ
یہ اللہ سے بغض رکھتا ہے”.
حضور کے کسی بھی صحابی سے بغض رکھنا نبی کریم کی ناراضگی کا باعث ہے..
حضورکریم نے فرمایا "میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاو گے.”
سیدنا عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ "صحابہ کے دل شفاف تھے ان کا علم گہرا تھا ان میں تکلفات نہ تھے انہیں اقامت دین کے لیے پوری امت میں چن لیا تھا اور ان کا نقش قدم واجب الاتباع ہے.”
عبداللہ بن عمر بن العاص سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ میری امت تہتر ملتوں پر تقسیم ہوجائے گی سوائے ایک کے سب جہنم میں ڈالے جائیں گے پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں یارسول اللہ تو آپ نے فرمایا جو لوگ میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر ہیں”(مشکوت شریف)..
اور صحابہ کا طریق ادب رسول اور محبت آل رسول رہا ہے..سیدنا صدیق اکبر سے لیکر تمام صحابہ تک سبھی نے اہل بیت رسول سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار رکھا..مشاجرات صحابہ کے بعد بھی ان میں الفت و محبت کا رشتہ قائم رہا یہاں تک کہ آپس میں رشتہ داریاں اس انس کا ثبوت قرار پاتی ہیں.تو صحابہ و اہلبیت کے بارے میں خدا سے ڈرنا چاہیے
کوٹ ادو
(تحصیل رپورٹر)
کوٹ ادو کی ابھرتی ہوئی معروف سیاسی وسماجی شخصیت چوہدری احمد رشید نے کہا ہے کہ ہمیں فلسفہ شہادت حضرت امام حسین ؓ سمجھنے کی ضرورت ہے،
کامیابی ہمیشہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں ہے اور اسلام کی خاطر جان دینے والے ہمیشہ کی زندگی پالیتے ہیں،
محرم الحرام ہمیں امن برداشت اور رواداری کا درس دیتا ہے،ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان قائم رکھنے کیلئے اپناانفرادی اور کلیدی کردار ادا کرے،
ان خیالات کااظہار انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسین ؓ کی عظیم قربانی ہمیں
اس عزم کو تازہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ جانا ہی ایمان ہے
محرم الحرام عبادت ایثار تحمل اور برداشت کا مہینہ ہے ہمیں فرقہ واریت اور عدم برداشت کی حوصلہ شکنی کر کے
تحمل و برداشت اور امن کے فروغ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے،
محرم الحرام میں سب پر لازم ہے کہ وہ بھائی چارے کی فضا کو قائم ر کھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے،انہوں نے کہا کہ
ہمیں شہدا کربلا سے سبق لینا ہو گا اور جس مقصد کے لیے یہ قربانی شہدا کربلا نے دی تھی
وہ مقصد حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی حضرت امام حسین ؓ نے کربلا کے میدان میں کلمہ حق بلند کرنے کی لازوال مثال قائم کی
حضرت امام حسین ؓ ظلم کے خلاف برسر پیکار ہوئے اور دین حق کی راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا
آپؓ کی تعلیمات تمام انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں جو قیامت تک یاد رکھی جائیں گی۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون